پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پاکستان کی سیاست کا ایک متحرک اور نوجوان چہرہ ہیں جن کی شعلہ بیانی نے ملکی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے. پچھلے دنوں انہوں نے اپنے’سیاسی انکلز ‘ کو مخاطب کرکے میدانِ سیاست خالی کرنے کی فرمائش کردی جس کے بعد چہار جانب،بالخصوص ن لیگ اور پی پی کے درمیان شکوہ جواب شکوہ کی صورت حال پیدا ہوگئی۔
بلاول بھٹو نے گزشتہ دنوں چترال میں پارٹی کے ورکرز کنونشن سے خطاب میں جو مطالبہ کیا اس کی توقع شایدکسی کو نہیں تھی۔ اس مطالبے سے ایسا لگا کہ ملکی سیاست میں ایک طوفان آ گیا ہو۔ 35 سالہ نوجوان سیاست دان نے کہا کہ بزرگ پرانی سیاست کر رہے ہیں بلکہ سیاست کے بجائے ذاتی دشمنی پر اتر آئے ہیں اور اس سیاست نے ملک تباہ کر دیا ہے۔ آج میں مطالبہ کر رہا ہوں کہ پرانے سیاست دان (انکلز) سیاست چھوڑ دیں اور یہ میرا ہی نہیں بلکہ ملک کے نوجوانوں کا مطالبہ ہے، جو پورے پاکستان کی آبادی کا 70 فیصد ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے سیاسی انکلز کو مشورہ دیا کہ وہ گھر بیٹھیں یا مدرسے میں بیٹھیں اور ہمیں کام کرنے دیں۔
بلاول بھٹو کا اپنے سینئر سیاست دانوں کو انکل کہہ کر مخاطب کرنا کوئی نئی بات نہیں. جب انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا تو سب سے پہلے بانی متحدہ اور بانی پی ٹی آئی کو چچا اور انکل کے لقب سے مخٌاطب کیا تھا. لیکن اب اپنے سینئر اور بزرگ سیاست دانوں کو یوں مخاطب کرنا اور سیاسی میدان چھوڑ دینے کا مطالبہ بلاول کے سیاسی سفر کو ایک نیا رخ دینے کی کوشش نظر آ رہا ہے۔ پی پی کے نوجوان چیئرمین کے اس مطالبہ کو کئی روز گزر چکے ہیں لیکن یہ اتنی بار دہرایا جاچکا ہے کہ اس کی دھول اب تک نہیں بیٹھی ہے. ایسا لگ رہا ہے کہ سیاسی اکھاڑے میں ایک دنگل نوجوان اور بزرگ سیاست دانوں کے درمیان بھی ہوسکتاہے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ بلاول اس فرمائش کے بعد فرحت اللہ بابر نے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے جنرل سیکریٹری کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا. تاہم بلاول نے جس راستے پر نظریں جمائی ہیں، وہاں ہنوز خاموشی ہے.
یوں تو پی پی چیئرمین کے سیاسی انکلز کی تعداد خاصی ہے لیکن اس وقت تو سیاسی میدان میں تو صرف دو تین ہی نظر آ رہے ہیں۔ ایک سیاسی انکل بانی متحدہ تو کئی سالوں کی پابندی کی وجہ سے ملکی سیاست سے آؤٹ ہو چکے ہیں جب کہ بلاول کے ایک سیاسی چچا بانی پی ٹی آئی بھی اس وقت جیل میں ہیں۔ ان کی تصویر، حتیٰ کہ نام لکھنے اور لینے پر بھی پابندی ہے اور جس طرح کے حالات چل رہے ہیں تو لگتا ہے کہ کچھ دیدہ و نادیدہ قوتیں انہیں سیاست سے ہمیشہ کے لیے آؤٹ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ باقی میدان میں صرف سیاسی طور پر فعال صرف تین انکلز ہی رہ جاتے ہیں جن میں ایک نواز شریف، دوسرے ان کے بھائی شہباز شریف اور پھر پی ڈی ایم سربراہ فضل الرحمان اور ہاں ایک اور انتہائی زیرک سیاستدان آصف زرداری ہیں لیکن نشانہ کون ہوا یہ کوئی بہت مشکل سوال نہیں ہے۔
بلاول نے پی ڈی ایم حکومت میں شہباز شریف کے زیر سایہ وزارت خارجہ کی ذمے داریاں نبھانے کے بعد جس طرح حکومت ختم ہوتے ہی یو ٹرن لیا اور ن لیگ کو ہی اپنے نشانے پر رکھ لیا اس سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا نشانہ ن لیگ بالخصوص نواز شریف ہیں جن پر وہ تواتر کے ساتھ اسٹبلشمنٹ کی بیساکھیاں استعمال کرنے کے الزامات لگاتے ہوئے جوش دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ووٹ کو عزت دلائیں بے عزتی نہ کریں اور اسٹبلشمنٹ و انتظامیہ کے سہارے تلاشنے کے بجائے اپنے منشور پر الیکشن لڑیں لیکن چیئرمین پی پی پی کو یہ بھی ملحوظ نظر رکھنا چاہیے کہ جتنی ان کی پوری عمر ہے اس سے کہیں زیادہ نواز شریف کا سیاسی تجربہ ہے۔
ان کی اس فرمائش پر سب سے پہلے تو مولانا فضل الرحمان ہی بول پڑے اور کہہ دیا کہ بلاول نے یہ بیان اپنے والد کے لیے دیا ہے۔ گو کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے اس فرمائش پر براہ راست تو کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن ن لیگ کی سیکنڈ لائن قیادت نے ترکی بہ ترکی اس کا جواب دے ڈالا جس کے بعد پی پی کی جانب سے یہ بیان آنا کہ ’آصف زرداری موجودہ سینیئر سیاستدانوں میں سب سے کم عمر ہیں‘ تو پتہ چلا کہ عمر کا مقابلہ صرف خواتین نہیں بلکہ سیاست کے میدان میں مرد حضرات کے درمیان بھی ہو سکتا ہے۔بلاول کی اس فرمائش پر نوجوان ان کے ہم خیال ہو سکتے ہیں اور مخالف سیاسی جماعتوں کے سیاستدان اس کے مخالف ہو سکتے ہیں لیکن اب پی پی چیئرمین کیا کریں گے کہ سب سے بڑی مخالفت تو خود ان کے گھر سے ہی اٹھی ہے۔
ایک مشہور شعرہے کہ دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی…. کچھ ایسا ہی بلاول بھٹو کے ساتھ ہو ا۔ باہر سے مخالفت ہوئی سو ہوئی اور اس کا جواب بھی پارٹی کے دوسرے بابوں نے دے دیا، لیکن جب خود ان کے والد ہی بیٹے کی سیاسی سوچ کے مخالف ہو گئے، تو پھر کس جیالے رہنما کی ہمت تھی کہ بلاول کی حمایت میں کچھ بولتا۔
بلاول کے بیان کےبعد آصف زرداری نے اپنے بیٹے کو نا تجربہ کار کہتے ہوئے کہا کہ بلاول کا بزرگوں کو گھر بیٹھ کر آرام کرنے کا مشورہ بالکل غلط ہے، انہوں نے روایتی والد کی طرح کہا کہ آج کی نسل سمجھتی ہے والدین کو کچھ نہیں آتا بلکہ سب کچھ ان کو ہی آتا ہے۔ سابق صدر نے یہ بھی کہا کہ بلاول سیاست کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ان کی تربیت جاری ہے۔ اگر آصف زرداری کی اس بات سے اتفاق کر لیا جائے تو پھر یہ سوال تو اٹھانا واجب ہو جاتا ہے کہ جب بلاول نا تجربہ کار ہے اور سیاست کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ہوئے تو پھر پیپلز پارٹی نے انہیں اگلے وزیراعظم کے لیے کیوں نامزد کیا ہے اور پہلے سے مختلف مسائل میں گھرے ملک کو کیوں ناتجربہ کاری کی بھینٹ چڑھانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب زرداری کے اس بیان کے بعد پی پی میں اختلافات اور باپ بیٹوں کی سوچ اور رائے میں تضاد کی خبریں گرم ہونے لگیں پھر جتنے منہ اتنی ہی باتیں بھی کی جانے لگیں کسی نے دونوں کے اچانک دبئی جانے کو اسی اختلافات کو ختم کرانے کا بہانہ قرار دیا اور کہا کہ زرداری نے بختاور بھٹو کو دونوں میں صلح کرانے کے لیے بیچ میں ڈالا ہے، خیر اب تو وہ واپس بھی آچکے ہیں اور شاید ایک پیج پر بھی آ گئے ہیں لیکن اب دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے کیا بلاول اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹتے ہیں یا زرداری اپنے اکلوتے صاحبزادے کی سوچ کے قائل ہو جاتے ہیں۔
ایک بات اور اگر بزرگ سیاستدان اپنے سیاسی بھتیجے کی فرمائش پر سیاسی میدان چھوڑ دیتے ہیں تو پھر فارغ وقت میں وہ کیا کریں گے۔ اس کا گرچہ بلاول بھٹو نے اپنے فرمائشی بیان کے ساتھ ہی حل بھی بتا دیا تھا کہ وہ گھر میں بیٹھیں یا پھر مدرسے میں۔ اب مدرسے میں ایک سیاسی انکل تو بیٹھ سکتے ہیں باقی گھر بیٹھ کر مشورہ ڈاٹ کام پر کوئی کنسلٹنٹسی کمپنی بنا لیں کہ نوجوان بھلے کتنے ہی آگے بڑھ جائیں انہیں ہر میدان میں بزرگوں کے مشوروں کی ضرورت رہتی ہے. وہ کہتے ہیں نا کہ سو سنار کی اور ایک لوہار کی تو بزرگ لوہار کی ضرب کا کردار ادا کر کے باہر بیٹھ کر نوجوانوں کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔