The news is by your side.

جاگ میرے پنجاب !

راقم کا تعارف اور زندگی کا ایک بڑا حصہ پنجاب سے وابستہ ہے ۔بچپن میں لگتا تھا کہ بس یہی جو لاہور ہے اور اس سے ذرا پرے جو اسلام آباد ہے اور یہاں سے تین دن کی مسافت پر شہر کراچی ہے، بس یہی پاکستان ہے۔ صوبہ سرحد اور بلوچستان سے جو تعلق اور تعارف تھا وہ محض پی ٹی وی کی نشریات کے مرہون منت تھا۔

پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ ہوا ، گھر سے باہر ہاسٹل میں رہنا، لوگوں سے ملنا ،رویوں کو سمجھنا اور آراء کو احترام دینا سیکھا تو پتا چلا کہ پنجاب سے باہر نکل کر پاکستان کافی مختلف اور انٹیلیکچولی بہتر ہے ۔گلگت کے طلبا سے دوستی ہوئی تو اندازہ ہوا کہ لیاقت نصابی کتابوں سے الگ معاشرتی ادراک میں بھی پنہاں ہے۔ کشمیر کے نوجوانوں سے بات ہوئی تو معلوم پڑا کہ مسئلہ کشمیر کا ایک تیسرا حل حکومت پاکستان یا ہندوستانی سرکار کے بیانات سے باہر بھی موجود ہے ۔ ان علاقوں میں رہنے والے پاکستانیوں کا معاشرتی شعور ایک پنجابی نوجوان کی نسبت پختہ اور رائے مدلل ہے۔

انہی دنوں میرا ایک ہم جماعت ایک ٹی وی پروگرام ‘پچاس منٹ ‘ کے شعبۂ تحقیق میں ملازمت کرتا تھا- اس نے بتایا کہ ان کی کسی جغرافیائی تحقیق کے مطابق پاکستان میں جوں جوں شمال کی طرف جائیں لوگوں کا جنرل آ ئی کیو بڑھتا ہے ۔ اور اگر ضلع اٹک سے جنوب کی طرف اتریں تو آئی کیو کم ہوتا ہے ، یہاں راقم اس تحقیق کا حوالہ یا ریفرنس دینے سے قاصر ہے لیکن میرے ذاتی خیال کی تصدیق کے لیے یہ کافی تھا۔

آئندہ سالوں میں خوش قسمتی سے قائد اعظم یونیورسٹی میں پڑھنے کا موقع ملا یہاں میری جماعت میں نصف سے زیادہ طلبا کا تعلق خیبر پختونخوا، فاٹا ، کشمیر اور صوبہ بلوچستان سے تھا۔ ان کے ساتھ بین الاقوامی تعلقات کے مضامین پڑھے تو صحیح معنوں میں عقل ٹھکانے آ گئی۔

ملاحظہ ہو کہ سال 2009 ہے، گڈو کی چائے کا کھوکھا ہے، اور عائشہ جلال کی ملٹری آئی ان سی پر بحث ہو رہی ہے – ‘محسود’ اور ‘وزیر’ طلبا پولیٹکل اکانومی اور ڈاکٹر محبوب الحق کے ۔مضمون seven sins of economic planners پر پشتو زبان میں تبادلۂ خیال کر رہے ہیں، کہیں کوئٹہ کے کاکڑ اور ژوب کے مندوخیل مسنگ پرسنز کے معاملے میں عوامی اور ریاستی کوتاہیاں گنوا رہے ہیں ۔ کہیں سندھ کے رند کا گولڈ میڈل آرہا ہے اور کہیں مری کے عباسی کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کی تاریخ تم سے بہتر کوئی نہیں سمجھا سکتا۔ صوابی کے ایک اکھڑ سے یوسف زئی بھائی صاحب ،انگریزی زبان میں کیپٹل ازم اور جمہوریت کو کوس رہے ہیں ۔ ساتھ والے مجید ہٹس پر کمیونسٹ خیالات کے مالک طلبا اور پروفیسرز کا سٹڈی سرکل چل رہا ہے ۔

مجھے یاد ہے کہ انٹرنیشنل لا کی کلاس میں جو نکتہ راقم کو چار دفعہ پڑھ کر سمجھ آتا تھا یہ حضرات پانچ منٹ میں اس کا کیس حل کر دیتے تھے ۔

اس قدر با شعور، سیاسی فہم اور معاشرتی ادراک کے حامل نوجوان طلبا کے ساتھ پڑھ کر احساس ہوا کہ صوبہ پنجاب میں تعلیم کا مطلب ہے فزکس، کیمسٹری ، بیالوجی کے نوٹس کے رٹے۔ اکیڈمی ، ٹیوشنز ، انٹری ٹیسٹ ، میڈیکل کالج یا انجیرنگ یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے نمبروں کی ڈور۔ اور علم کا یہ عالم ہے کہ اسی فیصد نمبر لینے والے طلبا کو آئین اور قانون کا فرق معلوم نہیں ۔کیوں کہ حشر آور دنوں میں جو سوئے رہے، ہم وہ بیدار ہیں۔

لیکن شمال اور جنوب مغرب کا نوجوان اپنے سیاسی حقوق بھی جانتا ہے اور اپنی جغرافیائی اہمیت سے بھی آگاہ ہے ۔ اپنے قبیلے اور زبان پر فخر کرتا ہے اور وفاق سے نالاں بھی ہے ۔ پنجاب کی طرف مرکزی حکومت کا رجحان اسے اکساتا ہے اور فوج کی معرکہ آرائیاں اسے مشتعل کرتی ہیں۔ اسی نوجوان کو راضی رکھنے کے لیے کبھی تو صوبے کا نام بدلا جاتا ہے اور کبھی آغاز حقوق بلوچستان کے پیکج کی ٹافیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ لیکن کوئی فردا کے تصور سے کہاں تک بہلے؟

آج 2024 میں اس نوجوان کو ریاست پاکستان سے انصاف چاہیے، سرکاری کوتاہیوں اور کارروائیوں کا حساب چاہیے ۔ یہ ایسے نہیں مانیں گے انہیں اپنے گمشدہ پیاروں کی بازیابی چاہیے ،جبرو استحصال سے نجات چاہیے ، اپنے ہی ملک میں برابر درجے کے شہری کی زندگی گزارنے کا جواز چاہیے۔ یہ نوجوان کبھی منظور پشتیں بنتا ہے اور گرفتار ہوتا ہے ، کبھی ماہ رنگ بلوچ کے رنگ پر آتا ہے اور 61 روزہ دھرنے کی تلخ یادیں لے کر لوٹتا ہے۔ اس کے شعور پر بغاوت اور غیر ملکی سازش کا لیبل چسپاں کر کے اس کی آواز کو نہ دبائیں ورنہ خدا نخواستہ پہلے سے زخم خوردہ مملکت پاکستان مزید تقسیم سہنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں