پاکستان سپر لیگ جو دنیا کی مقبول ترین کرکٹ لیگز میں شامل ہے جس میں دنیائے کرکٹ کے نامور کھلاڑی شریک ہوتے ہیں۔ پی ایس ایل کا 9 واں ایڈیشن اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ لگ بھگ ایک ماہ تک کرکٹ شائقین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھنے کے بعد اسلام آباد کے چیمپئن بننے کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا۔ ماہ رمضان المبارک کے تقدس میں روایتی رنگا رنگ اختتامی تقریب تو نہ ہو سکی مگر اسلام آباد نے ریکارڈ تیسری بار پی ایس ایل کی حکمرانی کا تاج اپنے سر پر سجایا۔
پی ایس ایل کے اس نتیجے کے ساتھ ہی پاکستان کرکٹ ٹیم میں کپتانی کی بحث نے ایک بار پھر جنم لے لیا ہے۔ میڈیا اور کرکٹ حلقوں میں شاہین شاہ آفریدی کی قائدانہ صلاحیتوں، حالیہ ناکامیوں اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل قیادت کسی اور کھلاڑی کو سونپنے کی باتیں کی جانے لگی ہیں۔
پی ایس ایل ختم ہونے کے بعد اب پاکستان کرکٹ ٹیم کی نان اسٹاپ انٹرنیشنل مصروفیات شروع ہو رہی ہیں۔ آئندہ ماہ نیوزی لینڈ کے خلاف پانچ ٹی ٹوئنٹی میچوں کی ہوم سیریز کھیلنی ہے، اسکے بعد انگلینڈ اور آئرلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز ہیں جس کے بعد ٹیم کا اصل امتحان جون میں ویسٹ انڈیز اور امریکا کی مشترکہ میزبانی میں ہونے والا آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ ہے لیکن یہاں حال یہ ہے کہ قومی ٹیم ہیڈ کوچ کے بغیر ہے، کپتان کے سر پر تلوار لٹکی ہوئی ہے اور ٹیم کا ورلڈ کپ کمبینیشن اب تک نہیں بن سکا ہے تو ٹیم سے اس میگا ایونٹ میں کیا توقعات رکھی جا سکتی ہیں۔
گزشتہ سال ایشیا کپ اور پھر ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی ناقص پرفارمنس کے بعد کپتان بابر اعظم نے استعفیٰ دے دیا تھا اور پاکستان کرکٹ بورڈ نے شاہین شاہ آفریدی کو ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں قیادت کے لیے منتخب کیا اور ان کی وجہ انتخاب پی ایس ایل میں لاہور قلندرز کو اپنی قیادت میں مسلسل دوسری بار چیمپئن بنوانا تھا تاہم کپتان بنتے ہی ایسا لگا کہ شاہین شاہ آفریدی کے بُرے دن شروع ہوگئے۔ پہلا امتحان نیوزی لینڈ میں پانچ ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز تھی جس میں پاکستان پہلی بار کیویز سے وائٹ واش ہونے سے بال بال بچی اور آخری میچ میں گرتے پڑتے فتح حاصل کی یوں نیوزی لینڈ نے یہ سیریز چار ایک سے اپنے نام کی۔
دورۂ نیوزی لینڈ کے فوری بعد پی ایس ایل شروع ہو گیا اور یہاں بھی لاہور قلندر کے کپتان کے طور وہ اس سیزن میں مکمل ناکام نظر آئے۔ نہ صرف بطور قائد ان کے کئی فیصلوں پر تنقید ہوئی بلکہ ان کی انفرادی کارکردگی بھی ماضی جیسی نہ تھی جس نے ان پر دباؤ بڑھایا اور اس پر طرہ یہ کہ لاہور کو ورلڈ کلاس افغان اسپنر راشد خان کا ساتھ میسر نہ تھا یوں لاہور قلندرز ایونٹ کے دس میچز میں سے صرف ایک میچ ہی جیت پائی اور خالی ہاتھ گھر واپس آئی۔
دورہ نیوزی لینڈ کی ناکامی کے بعد پی ایس ایل میں شاہین کی ناکامی نے ان کے ناقدین کے ساتھ عام کرکٹ مبصرین کو بھی اس ناکامی کی وجوہات تلاش کرنے پر مجبور کر دیا اور اب لوگ کھل کر اس حوالے سے رائے کا اظہار کر رہے ہیں اور یہاں دو متضاد رائے پائی جاتی ہیں۔ ایک وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ شاہین شاہ آفریدی کو قیادت کے لیے ابھی صرف ایک انٹرنیشنل سیریز ملی ہے انہیں وقت دینا چاہیے اور یہ بات معقول بھی لگتی ہے کہ کسی کی قائدانہ صلاحیتوں کا موازنہ صرف ایک سیریز سے نہیں کیا جا سکتا ہے کہ سونے کو کندن بننے میں اور ہیرے کو تراشنے میں وقت تو لگتا ہے۔ لیکن دوسری جانب شاہین شاہ کو قیادت سے ہٹا کر ٹی ٹوئنٹی کی قیادت محمد رضوان کو دینے کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں اور اس کے لیے مضبوط حوالہ رضوان کی قیادت میں ملتان سلطانز کا مسلسل چوتھی بار پی ایس ایل فائنل کھیلنا، ایک بار چیمپئن بننا اور تسلسل سے انفرادی کارکردگی بھی دکھانے کو جواز کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جب کہ اسلام آباد یونائیٹڈ کے چیمپئن بننے کے بعد شاداب خان کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ اس وقت دو مخمصوں کا شکار ہے ایک جانب اسے ٹیم کے لیے ہیڈ کوچ کی تلاش ہے جس کے لیے پی سی بی چیئرمین محسن نقوی غیر ملکی ہیڈ کوچ چاہتے ہیں چاہے اس کا سپورٹنگ اسٹاف ملکی ہو۔ اس کے لیے شین واٹسن، ڈیرن سیمی، اسلام آباد یونائیٹیڈ کو پی ایس ایل کا چیمپئن بنوانے والے مائیک ہیسن سمیت دیگر کئی غیر ملکی سابق کرکٹرز اور موجودہ کوچز سے بات ہوئی مگر تاحال کسی بڑے نام سے قومی ٹیم کو کوچنگ کے لیے گرین سگنل نہیں دیا ہے۔ دوسری جانب پی سی بی پے در پے شکست کی پٹری پر چلتی قومی ٹیم کی گاڑی کو جیت کی ٹریک پر ڈالنے کی خواہاں ہے جس کے لیے چند ماہ قبل کپتان اور منیجمنٹ بھی بدل لی لیکن نتیجہ وہی دھاک کے تین پات رہا۔
پی سی بی نے یوں تو شاہین شاہ کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ تک کے لیے قیادت کی ذمے داری سونپی تھی لیکن یہاں عموماً حالیہ نتائج سابقہ فیصلوں کو تبدیل کرا دیتے ہیں۔ پاکستان ٹی ٹوئنٹی کی ایک مضبوط ٹیم ہے جو کسی بھی ٹیم کو کہیں بھی ہرانے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن جب تک ٹیم کو مضبوط اور مستقبل کپتان کا ساتھ میسر نہیں ہوگا ٹیم یونہی افراتفری کا شکار رہے گی اور پھر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی شاید ون ڈے ورلڈ کپ کی کہانی دہرائی جائے گی۔
اس حوالے سے پاکستان کرکٹ بورڈ ابہام ختم کرے۔ ہیڈ کوچ کے جلد تقرر کے ساتھ پی سی بی یا تو واضح طور پر شاہین شاہ کو گرین سگنل دے کہ وہ ورلڈ کپ تک قیادت کریں گے تاکہ نیوزی لینڈ اور پی ایس ایل میں ان کی ٹیم کی حالیہ کارکردگی سے جو ان کا اعتماد متزلزل ہوا ہے وہ واپس آئے یا اگر بورڈ کپتان کی تبدیلی سے متعلق سنجیدگی سے سوچ رہا ہے تو کئی سابق کرکٹرز کا یہی مشورہ ہے کہ وہ پھر ورلڈ کپ کا انتظار نہ کرے اور بولڈ فیصلہ کرتے ہوئے قیادت کو تبدیل کرے کیونکہ ورلڈ کپ میں اب بمشکل تین ساڑھے تین ماہ رہ گئے ہیں۔ اگر درست فیصلے بروقت نہ ہوں تو وہ نتائج بھی درست نہیں لاتے۔
پی ایس ایل کی بات ہو رہی تھی تو چلتے چلتے پی ایس ایل 9 اور گزشتہ سال کھیلے گئے ورلڈ کپ 2023 کی حیران کن مماثلت پر بھی بات کرتے چلیں کہ جس کے آغاز سے اختتام تک کہیں کہیں تو یوں گمان ہوا کہ کہیں پی ایس ایل 9، ورلڈ کپ 2023 کو سیکوئل تو نہیں۔
ورلڈ کپ 2023 میں کرکٹ کے بانی کہلانے والا ملک انگلینڈ ٹائٹل جیتنے کی فیورٹ ٹیموں میں شامل تھا اور دفاعی چیمپئن کی حیثیت سے ورلڈ کپ میں شرکت کی، لیکن دفاعی چیمپئن کو اس میگا ایونٹ میں ٹرافی کا دفاع تو دور اگلے برس چیمپئنز ٹرافی میں رسائی تک کے لالے پڑ گئے تھے۔ اسی طرح لاہور قلندرز بھی پی ایس ایل 9 میں فیورٹ اور دفاعی چیمپئن کی حیثیت سے شریک تھی لیکن انگلینڈ کی طرح لاہور قلندرز کی کامیابیوں کو بھی ایسا ریورس گیئر لگا کہ پھر ٹریک پر نہ آسکی۔
ورلڈ کپ میں اگر انگلینڈ نے ٹورنامنٹ کا آغاز ناکامی سے کیا اور صرف آخری میچ ہی جیت سکی تو پی ایس ایل 9 میں بھی لاہور قلندر نے ایونٹ کا آغاز اسلام آباد یونائیٹڈ سے شکست کے ساتھ کیا اور پھر پے در پے شکستیں اس کا مقدر بنی رہیں اور انگلینڈ کی طرح صرف آخری میچ میں ہی فتح نصیب ہو سکی یوں یہ بھی انگلش ٹیم کی طرح بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے کے مترادف خالی ہاتھ واپس لوٹ گئی۔
دوسری مماثلت ورلڈ کپ سے یہ رہی کہ بھارت پورے ورلڈ کپ میں ناقابل شکست اور پوائنٹس ٹیبل پر سر فہرست رہا لیکن فائنل میں آسٹریلیا نے شکست دے دی۔ پی ایس ایل 9 میں اگرچہ ملتان سلطانز ناقابل شکست نہیں رہی مگر پوائنٹس ٹیبل پر سر فہرست رہی لیکن فائنل میں آکر غبارے سے ایسے ہی ہوا نکل گئی جیسے بھارت کی نکلی تھی۔
تیسری مماثلت یہ رہی کہ ورلڈ کپ 2023 جیتنے والی ٹیم آسٹریلیا نے ٹورنامنٹ کا آغاز دو شکستوں سے کیا اور راؤنڈ میچ میں فائنلسٹ بھارت سے شکست ہوئی تھی لیکن پھر سب کو پچھاڑتی ہوئی آخر میں میزبان کو شکار کر کے آسٹریلیا نے ورلڈ کپ کی تاریخ میں ریکارڈ چھٹی بار ٹرافی اٹھائی۔ پی ایس ایل 9 کو دیکھیں تو چیمپئن اسلام آباد یونائیٹڈ نے اگرچہ ٹورنامنٹ کا آغاز لاہور قلندرز کو زیر کر کے کیا لیکن پھر پے در پے دو شکستوں سے مورال ڈاؤن ہوا معاملات اوپر نیچے ہونے کے بعد ٹیم نے آسٹریلیا کی طرح دوبارہ دم پکڑا اور اایلیمنیٹرز میں پہلے کوئٹہ اور پھر پشاور کو دھول چٹا کر فائنل میں پہنچی اور حتمی مقابلے میں ملتان سے راؤنڈ میچ کی شکست کا بدلہ ایسا چکایا کہ پھر شاداب خان نے ٹرافی اٹھائی اور یوں پی ایس ایل کی تاریخ میں اسلام آباد یونائیٹڈ کو تیسری بار چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔
صرف میچز کے نتائج ہی نہیں بلکہ ٹورنامنٹ کے بہترین بولر میں بھی یکسانیت رہی۔ ورلڈ کپ میں بہترین بولر فائنل ہارنے والی ٹیم بھارت کے بولر محمد شامی تھے جن کی حاصل کردہ وکٹوں کی تعداد 24 تھی جب کہ پی ایس ایل 9 کے بہترین بولر بھی فائنل کی رنر اپ ٹیم ملتان سلطانز کے اسامہ میر رہے اور ان کی وکٹوں کی تعداد بھی 24 ہی رہی۔