The news is by your side.

پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ، حکومت بوکھلاہٹ کا شکار

ملک میں پہلے ہی سیاسی خلفشار کم نہیں تھا کہ موجودہ حکومت کے وزیرِ اطلاعات و نشریات عطا تارڑ کا یہ دھماکا خیز اعلان سامنے آگیا کہ وفاقی حکومت نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی)  پر پابندی لگانے اور اس جماعت کے بانی عمران خان سمیت سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری پر آرٹیکل 6 لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کو یہ مشورہ نجانے کس نے دیا ہے۔

شہباز حکومت یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے اکثریتی رائے سے مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو دینے کا حکم دیتے ہوئے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے ماقبل فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور ساتھ ہی یہ رولنگ بھی دی کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت اور حقیقت ہے جس کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔

اس فیصلے کے اگلے ہی روز اسلام آباد کی سیشن عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو باعزت بری کر دیا جب کہ اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ دونوں کی سائفر کیس میں سزا معطل کر کے انہیں رہا کرنے اور سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی سمیت شاہ محمود قریشی کو بری کر چکی ہے۔ عدالت سے مختلف کیسوں میں بانی پی ٹی آئی کے حق میں فیصلوں سے حکومت کے پہلے ہی ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے جس کا اظہار حکومتی نمائندے اپنے بیانات اور پریس کانفرنسوں میں کر رہے تھے، لیکن مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے عدالتی فیصلے سے حکومت دو تہائی اکثریت سے محروم اور اپنے اتحادیوں کی حمایت سے ہر قانون اور بل کو کثرت رائے سے منظور کرانے کی طاقت سے محروم ہوگئی ہے، اس تناظر میں حکومت کا یہ اعلان اہمیت رکھتا ہے۔

مذکورہ یہی تین بڑے کیسز تھے جن میں عمران خان کو سزائیں ہوئی تھیں اور ان ہی عدالتی فیصلوں کے پیچھے حکومت چھپتی آ رہی تھی۔ اب جب ان تینوں کیسز کے فیصلوں کے ساتھ مخصوص نشستوں پر بھی پی ٹی آئی کو ایسا ریلیف ملا جو شاید اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا تو حکومت جو پہلے ہی فارم 45 اور 47 کی پکار، امریکی کانگریس میں انتخابات میں بدعنوانیوں سے متعلق منظور قرارداد اور عالمی سطح پر انتخابی عمل کی شفافیت پر اٹھائے جانے والے سوالات کے باعث پہلے ہی عدم تحفظ کا شکار ہے، اس کا بوکھلاہٹ کا شکار ہونا فطری امر ہے۔ تاہم عدالتی فیصلوں کے جواب میں اگر حکومت نے یہ سوچ کر پی ٹی آئی پر پابندی لگانے اور اس کے بانی سمیت دیگر پر آرٹیکل 6 (دوسرے لفظوں میں غداری) کے مقدمات درج کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، کہیں وہ اس سے قبل اسی حکومت کے کیے گئے فیصلوں کی طرح ان پر ہی الٹ نہ پڑ جائیں کیونکہ شہباز شریف کی سربراہی میں قائم پی ڈی ایم (ون) حکومت اور موجودہ حکومت نے اپنے تئیں اب تک پی ٹی آئی اور عمران خان کو سیاسی طور پر ختم کرنے کے لیے جو بھی فیصلے کیے اس کے نتائج ان کی توقعات اور امیدوں کے برعکس نکلے۔ بجائے بانی پی ٹی آئی اور ان کی پارٹی کو نقصان ہونے کے، ان کی عوامی مقبولیت بڑھی جب کہ حکومت بالخصوص ن لیگ کی مقبولیت کا گراف انتہائی نچلی سطح تک جا پہنچا۔

پی ٹی آئی رہنما کئی ہفتوں سے برملا اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے کہ ان کی جماعت پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ اچانک نہیں بلکہ کہیں نہ کہیں طے شدہ اور بی پلان کے طور پر موجود تھا۔ تاہم عطا تارڑ کی پریس کانفرنس کے بعد جماعت اسلامی، جے یو آئی ف، عوامی نیشنل پارٹی، انسانی حقوق کونسل نے کھل کر اس حکومتی فیصلے کی مذمت اور اسے خلاف آئین و قانون قرار دیا ہے جب کہ امریکا بھی اس پر تشویش کا اظہار کرچکا ہے۔ تاہم اس بحث سے قطع نظر نجانے کس نے حکومت کو یہ ’’دانشمندانہ‘‘ مشورہ دیا، لیکن یہ ایسا نادر مشورہ ہے کہ مخالف سیاسی جماعتیں تو الگ خود حکومتی جماعت ن لیگ میں اس پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ جاوید لطیف، خرم دستگیر سمیت کئی آزادانہ رائے دینے والے پارٹی رہنما اس سے اختلاف کر رہے ہیں۔ حکومت کی بڑی اتحادی جماعت پی پی نے یہ کہہ کر دامن بچا لیا کہ ہمیں اس حوالے سے ن لیگ نے اعتماد میں نہیں لیا جب کہ دیگر اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم، ق لیگ ودیگر نے چپ سادھ لی یا وہ گومگوں کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ اس صورتحال کے بعد یہ اعلان کرنے والے عطا تارڑ تو ٹی وی اسکرین سے غائب ہیں لیکن ان کی جگہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، خواجہ آصف اب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے پر عمل اتحادیوں سے مشاورت کے بعد کریں گے۔

پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی نئی بات نہیں ہے بلکہ مرکزی دھارے کے علاوہ صوبائی دھارے، قوم پرست اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی درجنوں جماعتوں پر پابندی عائد کی گئی اور انہیں کالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔

اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو جس طرح ابتدائی عشرے میں جمہوریت نہیں پنپ پائی تھی اور حکومتوں کا آنا جانا لگا تھا اسی طرح سیاست کو بھی پابند سلاسل کرنے کا سلسلہ اسی دور سے شروع ہوا جب 1954 میں اس وقت ’’سیاسی و جمہوری‘‘ کی حکومت نے پاکستان کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کی۔ تاہم کمیونسٹ پارٹی بعد میں مختلف ناموں سے وجود میں آتی رہی، لیکن 2013 میں ایک بار پھر الیکشن کمیشن میں اس نام سے پارٹی دوبارہ رجسٹر ہوئی۔ ایوب خان کے دور میں کسی ایک سیاسی جماعت پر اس پابندی تو عائد نہیں ہوئی تاہم اس وقت ملک میں تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو کام سے روک دیا گیا تھا، تاہم یہ پابندی بعد ازاں اٹھا لی گئی تھی۔

پاکستان میں پابندی کا شکار ہونے والی دوسری جماعت نیشنل عوامی پارٹی تھی جس پر پہلے 1971 میں یحییٰ خان نے جبکہ 1975 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے پابندی عائد کی تھی جو حرف تہجی کی الٹ پلٹ اور ان ہی پرانے سیاسی چہروں کے ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کے روپ میں ملک کے سیاسی افق پر موجود اور کئی حکومتوں کا حصہ رہ چکی ہے۔ مشرف دور میں پیپلز پارٹی کے لیے الیکشن لڑنا مشکل ہوا تو وہ پی پی پی پارلیمنٹرین کے نام سے سامنے آئی جب کہ 2016 میں جب ایم کیو ایم کا زوال آیا تو وہ ایم کیو ایم پاکستان کے نام سے کام کرنے لگی۔ آج پابندی کا شکار بننے کو تیار پی ٹی آئی نے اپنے دور میں تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دیا لیکن کچھ عرصے بعد یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔

حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے فیصلے کا اعلان تو کرچکی اور آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت وفاقی حکومت کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کا اختیار رکھتی بھی ہے، مگر حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا ہے۔ وفاقی حکومت پاکستان کی خود مختاری یا سالمیت کے خلاف کام کرنے والی کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کا اعلان کر کے پندرہ دنوں کے اندر معاملہ سپریم کورٹ کو بھیجے گی جس پر حتمی فیصلہ عدالت کا ہوگا۔ تو جب یہ گیند سپریم کورٹ کے کورٹ میں جب جائے گی تو حکومت کو وہ تمام شواہد دینے ہوں گے جو ایک سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دلواتے ہیں اور قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ اس میدان میں حکومت کو سبکی ہوگی۔

اگر ن لیگ اپنے اعلان پر عمل کرتی ہے تو اس سے ایسا سیاسی و آئینی بحران اور ہیجانی کیفیت پیدا ہوگی جس کی لپیٹ میں خود ن لیگ کی حکومت اور اس کی بچھی کھچی سیاست آ جائے گی۔ ن لیگ اتحادیوں کی بے ساکھیوں پر وفاق میں کھڑی ہے لیکن خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی دو تہائی اکثریت کے ساتھ حکومت کر رہی ہے۔ پابندی کی صورت میں جمہوری وفاقی حکومت وہاں کیا گورنر راج لگائے گی؟ اگر پی پی کھل کر اس کی مخالفت نہیں کرتی یا دیگر جماعتیں بھی اقتدار یا کسی ان دیکھے دباؤ کے تحت خاموش رہتی ہیں تو یہ درپردہ حمایت تعبیر کی جائے گی اور اس سے وہ راستے کھلیں گے کہ آنے والے وقت میں کوئی سیاسی جماعت اس سے محفوظ نہیں رہے گی اور ہر جماعت کو آج خاموش حمایت کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔

ماضی میں کی جانے والی غلطیاں ایک سبق ہوتی ہیں لیکن اقتدار کے نشے میں مست صاحب اختیار لوگ ماضی سے سبق نہیں سیکھتے اور مسند اقتدار پر آنے کے بعد وہ خود کو عقل کُل اور ہر مسئلے کے حل کی کنجی سمجھتے ہوئے اپنے تئیں نئی تاریخ بنانے والے فیصلے کرتے ہیں جو حقیقت میں مستقبل کے مورخ کے لیے ایک اور تاریک باب اور آنے والوں کے لیے نیا سبق دینے کی داستان رقم کر رہے ہوتے ہیں۔

ہماری روایت ہے کہ نظریاتی اختلاف کو غداری سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن اب سیاسی جماعت پر پابندی کے ساتھ سیاستدانوں پر آرٹیکل 6 لگا کر تو ایک قدم آگے بڑھا جا رہا ہے۔ پاکستانی سیاست میں وقت کا پہیہ گھومتے اور ہوا کا رخ بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ن لیگ کا وتیرہ رہا ہے کہ اس نے ماضی میں جو گڑھے مخالفین کے لیے کھودے وہ خود ہی اس میں جا گری۔ اگر آج وہ اگر آرٹیکل 6 کا شکنجہ مخالف سیاستدانوں کے گرد کستی ہے تو آئین کی کئی خلاف ورزیاں جان بوجھ کر شہباز شریف کی پہلی وفاقی حکومت، نگراں حکومت کرچکی ہے۔ اس لیے یہ راستہ کانٹوں بھرا ہے اور دامن سب کے ہی تار تار ہوسکتے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں