The news is by your side.

ننھے اقبال مسیح پر گولی کس نے چلائی؟ پاکستان میں بننے والی ایک حساس ڈاکیومنٹری

تاریخ ایک ایسی شے ہے جس کے بارے میں ہمیشہ کہا جاتا رہا ہے کہ لوگ اس سے سبق لیتے ہیں، کیا واقعی ایسا ہے؟ ایسا کون سا نمایاں سبق ہے جو گزشتہ پانچ سو سالوں سے نہایت تیزی سے ترقی کرتے انسان نے تاریخ سے حاصل کیا ہے، اور اسے مد نظر بھی رکھا؟

تاریخ ایک ایسا اندھیرا ہے جس میں چلنے والی گولی کے بارے میں کبھی پتا نہیں چلتا کہ ٹریگر دبانے والا کون تھا! اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تاریخ کے صفحے پر جا بہ جا روشنی کے دائرے بنے نظر آتے ہیں لیکن ان روشن دائروں کے آس پاس ایسے ان گنت دائرے بھی بنے ہوئے ہیں جو تیز روشنیوں میں دکھائی نہیں دیتے، یہی تاریخ کے صفحے کے وہ اندھیرے دائرے ہیں جن میں رونما ہونے والے درد ناک واقعات صدیوں سے سسک رہے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جن پر ابھی زیادہ وقت بھی نہیں گزرا، محض چند عشروں کی سیاہی کے آگے بھی یہ ’سچ سنانے کی ہمت‘ جٹا نہیں پائے۔ ایسے واقعات میں ایک واقعہ 14 سالہ ننھے جاں باز اقبال مسیح کا بھی ہے، جس کا سینہ منھ اندھیرے رائفل سے داغ دیا گیا۔ بندوق کی دھمک تھی یا ایک روشن روح پر اندھیرے شیطان کا بھیانک حملہ، کہ پیچھے کھڑی پرانی سی سائیکل لرز کر مٹی پر گر پڑی۔

قصہ ایک ڈاکیومنٹری کا

راوا (Rava) ڈاکیومنٹری فلمز کے تحت کچھ عرصے سے تسلسل کے ساتھ پاکستان کی تاریخ کے ایسے گوشے ’بے نقاب‘ کیے جا رہے ہیں، جو اپنے وقت پر تو اخبار کی محض ایک سُرخی بن کر رہ گئے تھے، تاہم کہیں پر ان روشن اور کہیں پر ان تاریک دائروں میں بہت سارا ’سچ‘ یا تو ہمیشہ کے لیے دب گیا، یا اس طرح لوگوں کے سامنے ابھر کر نہ آ سکا، جس طرح آنا چاہیے تھا۔ راوا فلمز نے یہ کہانیاں تاریخ کی مٹی کھود کر نکالیں اور انھیں اسکرین کی زینت بنا دیا۔ دل چسپ امر یہ ہے ایک طرف جب کہ پاکستان میں سنیما انڈسٹری تباہ ہو چکی ہے، دوسری طرف راوا فلمز کے تحت بننے والی ڈاکیومنٹری فلموں کی باقاعدہ طور پر سنیما اسکریننگ ہو رہی ہے؛ یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور جرات مندانہ قدم ہے۔ راوا نے اپنا مشن بنایا ہوا ہے کہ پاکستان میں اس ژانرا کو فروغ ملے، اسی لیے تواتر کے ساتھ نہایت منفرد موضوعات پر ڈاکیومنٹریز بنائی جا رہی ہیں۔

راوا نے اپنے یو ٹیوب چینل پر جو تازہ ترین ڈاکیومنٹری جاری کی ہے، اس کا عنوان ہے: ’’قتل معصوم _ اقبال مسیح _ ننھا جاں باز‘‘ جس کی اسکریننگ حسبِ سابق طارق روڈ پر واقع ارینا سنیما میں کی گئی۔

یہ ڈاکیومنٹری سید عاطف علی نے بنائی ہے، ڈراما انڈسٹری میں اپنا آخری ڈراما ’خان‘ بنانے کے بعد انھوں نے اگلے پڑاؤ کی طرف سفر شروع کیا، انھوں نے فلمیں ’پری‘ (2018) اور ’پیچھے تو دیکھو‘ (2022) بنائیں، اور اب راوا ڈاکیومنٹری فلمز کے تحت انھیں ’فری ہینڈ‘ مل گیا ہے کہ وہ جس موضوع پر چاہے ڈاکیومنٹری بنا لیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ڈراما ہو یا فلم میکنگ، ناظرین کو نئے تجربات سے روشناس کرایا جائے، انھیں سماج کے ایسے گوشوں اور ایسے تصورات سے متعارف کرایا جائے جو انھیں کچھ نیا سوچنے پر مائل کر سکے، چناں چہ انھوں نے سرپھری عشق کے نام سے بھی ایسا ہی ایک ڈراما بنایا تھا جو محرم پر ہم ٹی وی سے آن ایئر ہوا تھا۔ اب انھوں نے ڈاکیومنٹریز کی دنیا میں قدم رکھا ہے اور یہ ایک ایسی دنیا ہے جو مختلف رنگوں کے ان گنت شیڈز سے بھری ہوئی ہے۔ راوا کے روح رواں سابق بریگیڈیئر طارق رفیق کے ساتھ مل کر عاطف علی نے متعدد ڈاکیومنٹریز ’تخلیق‘ کی ہیں۔ اس سلسلے کی تازہ ترین تخلیق ایک ایسے 14 سالہ بچے کی کہانی ہے جس نے پاکستان میں ’بونڈڈ لیبر‘ کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک کہانی جو درد بھری ہے اور آنکھوں میں آنسو بھر دیتی ہے۔ اس کا اسکرین پلے بھی سید عاطف علی نے بلال حسین کے ساتھ مل کر لکھا ہے۔

فیکٹری میں بچے گروی رکھیں

آج جب کہ پاکستان کے جدید شہروں بلکہ دیہات تک میں بھی کوئی اس بات کو سوچ نہیں سکتا کہ ننھے بچوں کو گروی رکھ کر بھی سرمایہ داروں سے قرض کا حصول کیا جا سکتا ہے، اس کے باوجود یہ قبیح حمل کہیں نہ کہیں جاری ہے۔ یہ مزدوری کی ایک نہایت غلیظ شکل تھی جس میں ایک شخص کارخانہ دار سے قرض لیتا اور اسے چکانے کے لیے پھر اپنے بچے بہ طور مزدور گروی رکھ کر لگوا دیتا۔ یہ بچے اپنے باپ کے لیے گئے قرض کی رقم اپنی محنت سے چکاتے۔ اسے ’بونڈڈ چائلڈ لیبر‘ کہا جاتا ہے، جو زیادہ تر ملک میں قالین بافی کی صنعت میں رائج تھی۔ اس نے ہزاروں بچوں سے ان کی معصومیت چھینی، کھیلنے کودنے کے دن چھین کر ان پر گھر کا قرض چکانے کا سنگین ترین بار ڈالا۔ پاکستان میں بننے والے قالین بیرون ملک جاتے تھے اور ملکی برآمدات کا یہ ایک اہم ذریعہ تھا، ایک ایسا ذریعہ جس میں مصنوعات بچوں کے خون سے رنگ تھیں۔
خون کا یہی رنگ دکھانے کے لیے سید عاطف علی اور راوا فلمز نے ’’اقبال مسیح‘‘ کے نام سے یہ ڈاکیومنٹری بنائی ہے۔

اقبال مسیح سے ملیے!

16 اپریل 1995 ک شام تھی جب رکھ باؤلی کے اطراف کھیتوں میں دو فائر گونجے اور ایک چودہ سالہ بچے کی لاش مٹی پر گر گئی۔ یہ ضلع شیخوپورہ کے قصبے مریدکے کے گاؤں رکھ باؤلی کا قصہ ہے جہاں 1983 میں اقبال مسیح پیدا ہوا تھا۔ اس کے بڑے بھائی کی شادی پر والد نے ارشد نامی ایک قالین باف سے قرض لیا اور پھر ادائیگی نہ کر سکنے پر اقبال مسیح کو محض 4 سال کی عمر میں اس کے ہاتھوں گروی رکھ دیا اور وہ اس طرح دن میں چودہ گھنٹے قالین بنانے کے کام پر لگ گیا لیکن وہ قرض کبھی ادا نہ ہوا۔ دس سال کی عمر میں وہ ایک دن آخر کار غلامی کا یہ پھٹہ اتار کر بھاگ گیا لیکن نو آبادیاتی نظام کو مستحکم رکھنے کے لیے مامور پولیس نے اسے پکڑ کر پھر کارخانے دار کے حوالے کر دیا۔ بھاگنے کی کوششوں میں آخرکار ایک دن وہ کامیاب ہو گیا، اور چائلڈ لیبر کے خلاف سرگرم ایک تنظیم کے پاس جا پہنچا، جس کا نام تھا ’بونڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ‘ (بی ایل ایل ایف)۔ یہ تنظیم اس دکھ بھری کتھا کا ایک اہم حصہ ہے اور خود اس پر بھی الزام ہے کہ اس درد بھری کہانی کو جنم دینے میں اس کا بھی کوئی ’نادیدہ کردار‘ ہے۔

گیارہ سال کی عمر میں بھی 4 فٹ سے کم قد والے اقبال مسیح کی آنکھوں میں ایسی چمک تھی، اور چہرے مہرے کے ایسے نقوش تھے کہ جبری مشقت کے شکار بچوں کے لیے جب وہ تحریک کا حصہ بنا تو جس طرح جنگل میں آگ پھیلتی ہے، اسی طرح اس کی شہرت پاکستان سے نکل کر عالمی سطح پر پہنچ گئی۔ اسے عالمی سطح پر زندگی میں اور بعد از مرگ کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ جس دن اس کی ننھی زندگی کا چراغ گُل کر دیا گیا، وہ دن پاکستان میں قالین سازی پر بہت بھاری پڑا، اور دنیا نے جلد ہی پاکستانی قالین قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ اس میں معصوم بچوں کے ارمانوں اور ان کے مستقبل کا خون شامل ہے۔

اقبال مسیح کو کس نے مارا؟

یہ وہ سوال ہے جس کے جواب کی تلاش میں جتنی بھی کوششیں کی گئیں، بار آور نہ ہو سکیں۔ عالمی دباؤ اور اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی خصوصی ہدایات کے باوجود ایک دن اس کیس کو ہمیشہ کے لیے فائلوں میں بند کر دیا گیا۔ معروف صحافی سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جس ملک میں لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کا آج تک کوئی تعین نہیں ہو سکا، تو وہاں اقبال مسیح کے قاتل کیسے پکڑے جائیں گے۔ لیکن راوا ڈاکیومنٹری فلمز نے اس موضوع کو ایک بار پھر بند فائلوں کی گرد جھاڑ کر باہر نکال لیا ہے۔ اور سید عاطف علی نے اپنی فلم میکنگ اور ہدایت کاری کے شان دار ہنر کو بروئے کار لا کر اتنی خوب صورتی سے اسے ’تخلیق‘ کی سطح پر لا کر پیش کیا ہے کہ دیکھنے والا آخری لمحے تک یہ بھول جاتا ہے کہ وہ کوئی فیچر فلم نہیں ایک سچی کہانی ایک ڈاکیومنٹری دیکھ رہا ہے، جس میں کوئی فکشن نہیں ہے جو اسے حقیقت کی دنیا سے دور لے جا کر مبہوت کر دینے والے مناظر میں گم کر دے۔ فلم اور ڈرامے کے معروف نقاد حنیف سحر نے اس ڈاکیومنٹری کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’راوا ڈاکیو منٹریز میں مسلسل نکھار آ رہا ہے، ہر نئی ڈاکیومنٹری پہلے سے زیادہ مستند اور سنیما ٹوگرافی کے کمالات کے اضافے کا ایک اطلاع نامہ ثابت ہو رہی ہے۔‘‘ انھوں نے مزید لکھا ’’پہلی بار ایسا معلوم ہوا کہ عاطف علی نے اپنے ڈرامے کے تجربے کو بہت ہی مہین اور خاموش پیرائے میں نفاست سے استعمال کیا، وہ بھی ایسے کہ احساسات درہم برہم ہوئے اور پتا بھی نہیں چلا کہ آپ ڈراما نہیں بلکہ ایک دستاویزی فلم دیکھ رہے ہیں۔‘‘

آپ ڈاکیومنٹری دیکھ لیتے ہیں اور سوال پھر بھی قائم رہتا ہے کہ اقبال مسیح کو کس نے مارا؟ اور ایک ضمنی سوال یہ بھی کہ گولی کس نے چلائی تھی؟ اس بات سے یہ غلط فہمی نہ ابھرے کہ اگر جواب فراہم نہیں ہوا تو اس ڈاکیومنٹری کا مقصد کیا تھا۔ مقصد تو بہت واضح ہے کہ تاریخ کے ایک تاریک دائرے میں چھپے اس دردناک کہانی کے ’سچ‘ کی تلاش میں جنھوں نے امیدیں تج دی تھیں، اور تھک ہار کر بیٹھ گئے تھے، انھیں پھر چونکایا جا سکے کہ ان پر ایک قرض یہ بھی ہے کہ وہ اقبال مسیح کے قاتلوں کا پتا چلائیں۔

ڈاکیومنٹری پر سوال

راوا کی اس خوب صورت پیش کش میں سنیماٹوگرافی، ویژولز اور ایڈیٹنگ کا بہترین کام کیا گیا ہے۔ بالخصوص کرائم سین کی پیش کش بے حد عمدہ ہے۔ ساؤنڈ ایفکٹس میں بھی کوئی خامی نہیں رہنے دی گئی ہے۔ ایسا نہیں لگتا کہ ہم کوئی عالمی معیار کی ڈاکیومنٹری نہیں دیکھ رہے ہیں، محدود وسائل میں، بلاشبہ، یہ ایک عالمی معیار کی پیش کش ہے۔

لیکن اس ڈاکومنٹری کا دوسرا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اس کی کہانی/اسکرین پلے میں ایک اہم پہلو کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ بہ طور ریسرچر فہمیدہ یوسفی اور بلال حسین نے اس قصے کے اہم پہلوؤں کو جمع کیا، لیکن بہ طور حساس رائٹر شاید عاطف علی سے بونڈڈ چائلڈ لیبر کا یہ سماجی ثقافتی پہلو نظر انداز ہو گیا کہ ایک خاندان کس طرح اپنے قرضوں کا بوجھ ایک معصوم چار سالہ بچے پر لاد سکتا ہے؟ چناں چہ، اس پیش کش میں ہمیں اقبال مسیح کے بھائیوں کی مظلومیت پوری طرح دکھائی دیتی ہے لیکن ان سے یہ سوال نہیں کیا جاتا کہ ایک بڑے بھائی کی شادی کا قرضہ ایک معصوم بچے کے خون سے ادا کرنے کے لیے انھوں نے رضا مندی کیسے دکھائی؟ ایک غریب ہمیشہ خود کو غریب کہلوا کر بڑے سے بڑے سماجی اور اخلاقی جرائم کی ذمہ داری سے خود کو بچانے کی کوشش میں مصروف نظر آتا ہے۔ یہی ایک موقع تھا جب انھیں اس کڑے سوال کا سامنا ضرور کرنا تھا۔

یہ ڈاکیومنٹری اپنے آغاز ہی سے ناظرین کو پوری طرح جکڑنے کی خاصیت رکھتی ہے۔ اس میں جذبات اور رشتوں اور سیاسی سفاکیوں کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔ اس لیے بلاشبہ یہ سید عاطف علی کی اب تک بہترین کاوش ہے۔ لیکن اپنے مواد (کونٹینٹ) کے اعتبار سے اس میں ایک چونکانے والا موقع وہاں آتا ہے جب اچانک ڈاکیومنٹری کی فضا بدل جاتی ہے اور ایک مجرم ہونے کا سارا فوکس این جی او ’بونڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ‘کے سربراہ احسان اللہ خان پر آ جاتا ہے۔ یہ اتنی چابک دستی سے ہوتا ہے کہ ذہن میں خیال ابھرتا ہے کہ کیا یہی اس ڈاکیومنٹری کا مقصد ہے؟ اسٹیبلشمنٹ کے اسٹائل پر اچانک مرکوز ہوتی یہ توجہ آخر کار دھیرے دھیرے تحلیل ہونے لگتی ہے لیکن ذہن میں اپنے پیچھے دھوئیں کی ایک لکیر ضرور چھوڑ جاتی ہے۔

اور اختتام پر پہنچنے کے بعد ایک ہی سوال ذہن میں رہ جاتا ہے، ایک دکھ بھرا سوال ۔۔۔۔ کیا اس معصوم بچے کے قاتل کا کبھی پتا نہیں چل پائے گا؟ یہ تو ایک اور دھبّا ہوگا جو یہاں کی ۔۔۔۔ ہمارے پاکستان کی ’’مقامی انسانیت‘‘ کو مزید داغ دار کرے گا۔ بلاشبہ جس انسانیت کا معیار دنیا میں اب رائج ہے، ہم ابھی اس سے بہت دور ہیں۔ ہمارے لیے اب بھی دنیا ہمارے نو آبادیاتی سماج میں سمٹی ہوئی ہے جہاں اقبال مسیح کی موت ایک غریب بچے کی موت ہے، ایسی موت جو یہاں روز کسی نہ کسی بہانے واقع ہوتی رہتی ہے۔۔۔ اور اربابِ اختیار کہہ دیتے ہیں اقبال مسیح مر گیا، تو کیا ہوا، اسے مرنا ہی تھا، اب دوسری دنیا میں سکون سے جی رہا ہوگا!

 

شاید آپ یہ بھی پسند کریں