یہ پشاور کا وحشیانہ حملہ تھا جس نے ریاست پاکستان کو طالبان سے لڑنے کی نئی قوت عطاء کی دھشتگردی کیخلاف اس جنگ میں تمام تر امریکی وسائل کے استعمال ھونے میڈیا نے کئی بار یکطرفہ پروپیگنڈہ بھی کیا لیکن اس سب کے باوجود پاکستانی قوم کی اکثریت اس جنگ کو اپنی جنگ نہیں سمجھتی تھی (نواز و عمران کے بنیادی نعرے جس کی بنیاد پہ ووٹ ملے مذاکرات کے حوالے سے تھے )یہی وجہ تھی کے جماعت اسلامی جے یو آئی اور دیوبندی و سلفی مدارس کے علماء نے ھمیشہ آپریشن کی مخالفت اور مذاکرات کی حمایت کی ، لیکن پشاور حملے نے سب ختم کردیا مفتی رفیع عثمانی جیسے علماء نے طالبان کو ظالمان قرار دے دیا ، طالبان کو کسی نہ کسی درجے میں حمایت فراھم کرنے والے سب کے سب خاموش ھیں اور مذمت کررھے ھیں۔
گزشتہ بارہ برس میں کمانڈو المعروف مشرف جیسے صدر کی ھمت نہ ھوئی کہ طالبان و القاعدہ قیدیوں کو پھانسی دے سکے لیکن اب یہ سلسلہ شروع ھوا چاھتا ھے (آرمی چیف نے چھے قیدیوں کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کر دئے ) میڈیا نے جس طرح سانحہ پشاور کو کوریج دی اور ایک ایک پہلو نمایاں کیا اسکے نتیجے میں اب چوکوں چوراھوں پر طالبان کیخلاف مظاھرے ھورھے ھیں اور طالبان کے اصل فریق یعنی کے فوج کیلئے اطمینان بخش صورتحال ھیکہ آپریشن مخالف حلقوں کے پاس بھی جنگ کے آپشن کی حمایت یا پھر خاموش رھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ، اپنے تابوت میں یہ کیل خود ھی ٹھونکی گئی ھے ورنہ تو کئی کئی آپریشنز طالبان بھگت چکے ھیں ، اس فعل نے خطے میں جہادی تحریک کی ساری ساکھ داو پر لگا دی بلکہ یوں سمجھئے کہ ختم ھی کردی ، من پسند فیصلوں کو درست سمجھنے کا یہی نتیجہ نکلنا تھا(افغان طالبان و حزب اسلامی اسے غیر اسلامی قرار دے چکے لیکن اب رائے عامہ اسے تسلیم نہیں کر رھی ) باوجود اس حملے کے طالبان کے جنگجو اپنی کالعدم قرار دی گئی تنظیم سے الگ نہیں ھونگے لیکن اب رائے عامہ تقریباً بدل چکی یہی طالبان کے مخالفین کی اصل کامیابی یہی ھے اس صورتحال میں سب سے اھم کردار القاعدہ کا ھوگا کہ وہ ایسے حملوں کی بابت کیا کہتی ھے داعش کی جارحانہ مہم سے اس نے لاتعلقی اختیار کرکے اپنا منہج (طریقہ کار) واضح کرنے کی کوشش کی ھے ، دیکھنا یہ ہے کہ اس حملے میں ملوث گروپ کے ساتھ کیا سلوک اختیار کیا جاتا ھے اور کیا موقف اپنایا جاتا ھے ، مولانا عبدالعزیز کیخلاف سول سوسائٹی کی جانب سے احتجاج شروع کردیا گیا ھے اس بیان کیخلاف جس میں انکا کہنا تھا فوجی آپریشن اور ڈرونز حملے میں شہید بچوں کی بھی مزمت کی جائے ، یہ مظاھرہ روازنہ کی بنیاد پر کرنے کا اعلان کیا گیا ھے کچھ بھی ھو یہ حقیقت ھیکہ پاکستان میں مذھبی قوتیں دیوار سے لگتی جارھی ھیں پشاور حملے نے آپریشن کے حامیوں کو آکسیجن کی فراھمی کا کام کیا ھے پھر داعش کی صورت میں ایک خوفناک تنظیم ویسے بھی پاکستان پر قدم جمانے کی تیاریوں میں ھے جامعہ حفصہ کی (بعض )طالبات ابوبکر البغدادی کو خلیفہ تسلیم کرچکی ھیں ، اس صورتحال اور پس منظر کو دیکھتے ھوئے لگتا ھیکہ پاکستان کی دینی قیادت سخت مشکل میں ھے مصر و شام کی صورتحال نے بھی انہیں تشویش میں مبتلا کر رکھا ھے کیونکہ دور پار ھی سہی لیکن کچھ نہ کچھ ایسے آثار دکھ رھے ھیں کہ یہاں بھی سب اچھا نہیں
فیض اللہ خان اے آروائی نیوز سے وابستہ سینئر صحافی اور وارز ون ‘ ایکسپرٹ ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان قدرتی حدِ فاصل کا کام دینے والے قبائلی علاقے میں جاری جنگ اوراس سے ملحقہ امور پر خصوصی گرفت رکھتے ہیں
شاید آپ یہ بھی پسند کریں
نوٹ: اے آروائی نیوزکی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں ناظرین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں ای میل ایڈریس: [email protected] آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔