The news is by your side.

گرمی میں چائے، سردی میں برف

چند روز پہلے سنا تھا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ، ایران، ترکی اور چین کے ساتھ مل کر (سعودی عرب کے بغیر) نیا اتحاد بنانے جا رہی ہے۔ اگر یہ درست ہے تو قومی اسمبلی کی تقاریر اسی طرف اشارہ دے رہی ہیں۔ یہ بہتر بات ہو گی کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت اور مقتدرہ قوتوں کی سوچ اگر یکجا ہو جائے۔

پاکستان میں سعودیہ مخالف سوچ بھی اب امریکہ مخالف سوچ کی طرح مقبول و معروف ہوتی جا رہی ہے تاہم ان دونوں سوچوں میں ایک فرق ضرور ہے کہ امریکہ مخالف سوچ محض ڈالر پسند جرنیلوں اور ان کی آلہ کار انتہا پسند مذہبی سیاسی جماعتوں کی عکاس یا پھر جہاد افغانستان کے مضر اثرات کا نتیجہ تھی جبکہ سعودیہ مخالف سوچ جہاد افغانستان سے لے کرکے آج تک کی برائیوں کا نتیجہ ہے۔

سراج الحق یا مولانا فضل الرحمن جیسے علماء کی بدلے ہوئے لہجوں کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے پیچھے ماضی کی غلطیوں کا اعتراف ہے یا پھر کوئی نئی سازش چھپی ہے تاہم ابھی تک جو سامنے ہے اسے ہمیں اچھے کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔

اس ضمن میں مولانا فضل الرحمن اور خاص طور پر سراج الحق کا قومی اسمبلی میں بیان کردہ نقطہ نظر کافی متوازن اور حقیقت پسندانہ محسوس ہوا۔

دوسری طرف اب بھی اگر کوئی دو جماعتیں کنفیوژڈ نظر آتی ہیں تو وہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ ہیں۔ نواز لیگ کو تو بہر حال اس بات کا مارجن مل جائے گا کہ اس نے فیصلہ عوام کے منتخب نمائندوں پرچھوڑ دیا لیکن ان حالات میں پیپلز پارٹی سعودیہ مخالف عوام کو کیا جواب دے گی؟ ایسا لگتا ہے کہ جناب آصف زرداری ہرشاٹ پرجان بوجھ کرہٹ وکٹ ہو جاتے ہیں۔ حضرت گرمیوں میں چائے اور سردیوں میں برف بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں