The news is by your side.

کراچی میں پولیس کا ناقص تفتیشی نظام

اول تو کراچی میں کسی عام آدمی کی موت سے حکمرانوں کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی اورمیڈیا بھی عام آدمی کے قتل کو صرف ایک معمولی خبرسے زیادہ اہمیت نہیں دیتا لیکن ہائی پروفائل ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کا جب میڈیا میں شور اٹھتا ہے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت سب کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی بھی بڑے واقعے کے بعد اربابِ اختیار کے پاس کرنے کے کام بس یہی رہ گئے ہیں کہ وزیراعلیٰ سندھ نوٹس لےکرآئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کرتے ہیں اور آئی جی سندھ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے کر 24گھنٹوں میں رپورٹ طلب کرتے ہیں جس کے بعد نچلی سطح کے افسران ایف آئی آر درج کرکے واقعاتی شواہد کی بنیاد پرایک تجزیاتی رپورٹ اعلیٰ حکام کو ارسال کردیتے ہیں۔

رواں سال بڑے واقعات کی تفتیش و تحقیق کی بنیاد پرملوث ملزمان کی گرفتاری کی حوالے سے کراچی پولیس کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ حالیہ واقعات جن میں ڈیفنس میں سماجی کارکن سبین محمود اور پولیس افسر اعجاز خواجہ کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ملزم گرفتارہونا تو دور کی بات اب تک پولیس اس رخ کا تعین بھی نہیں کرسکی جس پرچل کر ملزمان کی گرفتاری کی امید پیدا ہوسکے۔امریکی ڈاکٹر ڈیبرا لوبو پر حملے کے بعد سے ہی پولیس یہ دعوی کرتی رہی کے ملزمان کا سراغ لگا لیا ہے جلد پکڑ ے جائیں گے۔ یوسف پلازہ تھانے کی حدود میں پروفیسروحید الرحمان کے بہیمانہ قتل کیس میں بھی اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی، گلشن حدید میں ڈی ایس پی عبدالفتح سانگڑی سمیت 3 پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹ کرنے والے کون تھے اس بات کا تعین کرنے میں تفتیش کاراب تک ناکام ہیں۔

کراچی پولیس کی تفتیش میں ناکامی کی کئی وجوہات ہیں جن میں ایک بڑی وجہ پولیس کے پاس جدید تفتیشی سامان کی عدم دستیابی ہے۔ پولیس کی روایتی تفتیشی طریقوں سے اب جرائم پیشہ افراد پولیس سے زیادہ باخبر ہیں لہذا وہ ان روایتی طریقوں کا توڑ نکال چکے ہیں۔ کراچی پولیس کے پاس جدید تفتیشی سامان میں کمی کو حکومت کے پاس فنڈزنہ ہونا قرار دیا جاتا ہے لیکن پولیس کے اندر فنڈز میں خرد برد اورکرپشن کی کہانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

ماضی میں بھی پولیس کی ناقص تفتیشی نظام پرانگلیاں اٹھتی رہی ہیں کئی قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ پولیس گرفتار ملزمان کے حوالے سے بھی پورے شواہد اور ثبوت عدالتوں میں پیش نہیں کرپاتی جس کی وجہ سے عدالتی کاروائی کے دوران عدم ثبوت کی بنا پرملزمان کو چھوڑنا پڑجاتا ہے۔ ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جب پولیس نے تفتیش کے معاملے میں محض خانہ پوری سے کام لیا اور واقعہ کے اصل ذمہ داروں تک نہیں پہنچ سکی، مثلا اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمان کو دو سال قبل 13 مارچ کو کراچی کے علاقے منگھوپیر میں فائرنگ کرکے اس وقت قتل کردیا گیا تھا، جب وہ دفتر سے اپنے گھر واپس جارہی تھیں دوسرے روز ہی اورنگی پولیس سے مقابلے میں مبینہ طالبان کمانڈر مارا گیا تو اس وقت کے ڈی آئی جی ویسٹ جاوید عالم اوڈھو نے دعویٰ کیا کہ پولیس مقابلے میں مارا جانے والا ملزم قاری بلال پروین رحمان قتل میں ملوث تھا اور کچھ عرصے بعد پروین رحمان قتل کیس کی فائل بند کردی گئی۔ بعد میں جب اس معاملے پر تحفظات کو عدالت کے سامنے اٹھایا گیا تو اعلیٰ عدلیہ نے اس کیس کی تفتیش پرعدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس مقابلے میں ہلاک ایک ملزم کو پروین رحمان قتل میں ملوث مان کریہ کیس ختم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ ایک عوامی اہمیت کا معاملہ ہے۔

ڈی آئی جی سلطان علی خواجہ نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ پولیس اس کیس میں اپنی تفتیش جاری رکھے گی اور کہا کہ انٹیلی جنس بیورو کی مدد سے اس قتل میں ملؤث دیگر افراد سے بھی تفتیش کی جائے گی۔ اس موقع پردرخواست گزاروں کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ راحیل کامران شیخ نے افسوس کا اظہار کیا کہ مشترکہ تفتیشی ٹیم (جے آئی ٹی) نے بااثر جماعتوں کے وسیع مفاد میں جان بوجھ کر اس کیس میں لینڈ مافیا کے کردار کو نظرانداز کیا ہے۔

الغرض کراچی پولیس عوام کی انصاف تک رسائی کو ممکن بنانے میں قطعی طور پر ناکام ہوچکی ہے اورسندھ حکومت ہو یا پولیس کے اعلیٰ افسران سب کے سب اس ناکامی کے مشترکہ ذمہ دارہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں