کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کو آج بھی ایک وہم سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب برطانوی شہزادہ چارلس نے کہا کہ شام میں جنگ کی بنیادی وجہ کلائمٹ چینج ہے تو اکثر لوگوں نے اسے ہوا میں اڑا دیا۔
کلائمٹ چینج اینڈ انوائرنمنٹل رسک ایٹلس Climate Change and Environmental Risk Atlas
کی تحقیق کے مطابق کلائمٹ چینج کی وجہ سے پیدا ہونے والی تبدیلیاں اور آفات جیسے سیلاب، قحط، غربت وغیرہ کسی علاقے میں تشدد Violence اور شدت پسندی Extremism کو فروغ دے سکتے ہیں جو آگے چل کر دہشت گردی Terrorism کا سبب بنتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ شدت پسند گروہوں جیسے داعش، الشباب، طالبان وغیرہ کے لیے ظلم و زیادتی کے نئے راستے بھی کھول سکتے ہیں۔
بات صرف اتنی سی ہے کہ فطرت ہماری بنیاد ہے۔ جب کسی عمارت کی بنیاد کمزور ہوجاتی ہے تو اس پوری عمارت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ ہماری دنیا بھی ایک عمارت ہے جس کی بنیاد فطرت ہے۔ جب ہم بنیاد (فطرت) سے چھیڑ چھاڑ کریں گے اور وہ ہلنے لگے گی تو پوری عمارت یعنی دنیا کو خطرہ ہوگا۔ پھر چاہے وہ معیشت ہو، سیاست ہو، تعلیم، سماجیات، اخلاقیات، اور اس میں رہنے والا ہر جاندار انسان، جانور، پرندے، حشرات الارض، درخت سب ہی کی بقا کو خطرات لاحق ہوجائیں گے اور یہی اس کی ایک مثال ہے۔
کراچی کلائمٹ چینج کی سب سے بڑی مثال ہے۔ کراچی کے کچھ سال پہلے کے موسم اور آج کے موسم میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کراچی کے شہریوں نے کبھی اتنی گرمی نہیں دیکھی جتنی پچھلے تین چار سالوں میں دیکھی ہے۔ اسی طرح سردی کی شدت میں فرق بھی معمول کی بات ہے۔ 2013 میں شدت کی سردیاں جبکہ 2014 میں معمولی شدت کی سردی دیکھی گئی۔ اس سال بھی دسمبر کا مہینہ شروع ہونے کو ہے لیکن موسم میں صرف معمولی سی خنکی ہے جسے سردی ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ کراچی نے اس سال قیامت خیز گرمی بھی دیکھی جسے ہم ’ہیٹ ویو‘ Heat Wave کہتے ہیں۔ شروع رمضان میں پڑنے والی قیامت خیز گرمی تقریباً 1700 جانیں لے گئی۔ زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ کراچی کے باسیوں کو اب ہر سال، سال میں کئی دفعہ اس گرمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گو کہ ابھی گرمی میں چند ماہ باقی ہیں لیکن اس گرمی سے نمٹنے کے لیے ابھی سے تیاری کرنی ضروری ہے۔
اسی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ماحولیاتی ادارے لیڈ پاکستان LEAD Pakistan نے اربن یونٹ The Urban Unit اور کلائمٹ اینڈ ڈویلپمنٹ نالج نیٹ ورک The Climate & Development Knowledge Network کے اشتراک سے ہیٹ ویو کے بارے میں معلوماتی ورکشاپ کا انعقاد کیا۔ ورکشاپ میں شہریوں، صحافیوں اور متعلقہ سرکاری اداروں کے نمائندگان نے شرکت کی۔
ورکشاپ میں پیش کی جانے والی پریزینٹیشن میں بھارتی شہر احمد آباد اور فرانس کی مثال دی گئی جب ان دو جگہوں کو قیامت خیز گرمی نے اپنا نشانہ بنایا۔ اگست 2003 میں یورپ کے متعدد شہروں میں شدید گرمی پڑی جس میں کئی ہزار لوگ لقمہ اجل بنے۔ ابتدا میں کسی کو سمجھ نہیں آیا کہ اس صورتحال میں کیا کرنا چاہیئے۔ جب یہ موسم گزرا تو آئندہ ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے گئے۔ سب سے پہلے یہ تعین کیا گیا کہ ایسی صورت میں کون سے ادارے اور محکمے ذمہ دار ہوں گے۔ محکمہ موسمیات کے ڈیٹا کو از سر نو مرتب کیا گیا اور ایسی کسی صورتحال میں فوری خبردار کرنے کے لیے الرٹ سسٹم بنایا گیا۔ اخبارات اور ٹی وی کے ذریعے بڑے پیمانے پر عوام تک احتیاطی تدابیر اور علاج کا طریقہ کار پہنچایا گیا۔ احمد آباد میں بھی 2010 میں جب ہیٹ ویو آئی تو 1300 اموات ہوئیں جس کے بعد فرانس کی طرح بڑے پیمانے پر وہاں کام کیا گیا اور 2015 میں جب دوبارہ ہیٹ ویو آئی تو ہلاکتوں کی تعداد صرف 7 تھی۔
ماہرین کے مطابق اسپتالوں میں خصوصی سینٹرز کا قیام، امداد کی فوری فراہمی، ٹھنڈی پناہ گاہوں کا قیام (جیسے ائیر کنڈینشنڈ مساجد) پر زور دیا۔ ایسے موقع پر متعلقہ اداروں جیسے کے الیکٹرک اور واٹر بورڈ کو ان کی ذمہ داریاں پوری کرنے کی بھی ضرورت محسوس کی گئی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایک طویل المدتی منصوبے یعنی لانگ ٹرم پلاننگ کی ضرورت ہے جس کے تحت کشادہ گھر بنائے جائیں، بڑی تعداد میں درخت لگا کر شہر کو سر سبز بنایا جائے، گرین روف یعنی گھروں کی چھتوں پر سرسبز باغ بنائے جائیں۔ اس ضمن میں محکمہ موسمیات اور میڈیا کے کردار پر خاص طور پر زور دیا گیا۔ تجاویز کے مطابق محکمہ موسمیات روزانہ کی بنیاد پر موسم کا ریکارڈ رکھے اور جیسے ہی گرمی کی شدت بڑھے الرٹ جاری کردیا جائے۔ میڈیا بھی فوراً آگہی و معلوماتی پروگرامز نشر کرے۔
کاربن کا اخراج کلائمٹ چینج کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ دنیا میں کاربن کا اخراج کرنے والے ممالک میں پاکستان کا نمبر 32واں ہے اور اس کا حصہ بہت کم ہے۔ دوسرے ممالک میں ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ اس مد میں ہونے والے نقصانات کی کمی کہیں اور سے پوری کرلیتے ہیں جبکہ پاکستان میں چیزیں تباہی کی طرف جارہی ہیں۔ کوئی شعبہ ایک بار تباہی کی طرف گامزن ہوجائے تو مشکل ہی سے دوبارہ ترقی کی راہ پر آتا ہے۔ اقوام متحدہ کے تحت کاربن کے اخراج کے نقصانات سے نمٹنے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے گئے جن میں سے ایک گرین فنڈ کا قیام بھی ہے۔ اس کے تحت امیر ممالک کاربن کے اخراج کی صورت میں ان نقصانات کا ازالہ کرنے کے پابند ہیں جو ان کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کو برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ اس سمیت ماحولیات کے تمام مسائل سے متعلق پیرس میں کانفرنس آف پارٹیز COP21 منعقد ہونے جارہی ہے جو ہر سال ہوتی ہے۔ یہ کانفرنس 30 نومبر سے 11 دسمبر تک جاری رہے گی جس میں اقوام متحدہ اور تمام ممالک مل بیٹھ کر ماحولیاتی مسائل کے حل پر غور کریں گے۔ وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی زاہد حامد کے مطابق کانفرنس میں پاکستان کا ایجنڈا موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے مالی اور تکنیکی تعاون حاصل کرنا ہوگا۔ وزیراعظم نواز شریف بھی کانفرنس میں شرکت کریں گے جس کا مطلب ہے کہ اب پاکستان بھی ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی سے کوشاں ہے۔