بچپن میں چار لکھنا نہیں آتا تھا مگر ڈرائینگ اچھی تھی تو امی نے کرسی الٹی بنوا کر4 لکھنا سکھایا جس ماں نے بولنا لکھنا سکھایا وہ اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ والدہ طویل علالت کے بعد انیس نومبردو ہزارپندرہ کواس جہانِ فانی سے کوچ کرگئیں۔ ان کے ووٹ کی آخری پرچی بلدیاتی انتخاب سے پہلے جوہرٹاون لاہورمیں میرے گھر پرموصول ہوئی جبکہ ان کے شناختی کارڈ پرعارضی پتہ کراچی اورمستقل چونیاں کا لکھا ہوا تھا اوراُس کی معیاد دو ہزارچار میں ختم ہو چکی تھی۔ نہیں جانتا کہ یہ تحفہ نادرا کی طرف سے تھا یا الیکشن کمیشن کی طرف سے، بہرحال میرے لیے امی کے ووٹ کی وہ آخری پرچی تبرک کی حیثیت رکھتی ہے۔ ماں دنیا سے رخصت ہوئی اورمیں ادھورا رہ گیا۔ اب باقی زندگی اپنے اس ادھورے پن کے احساس کو ختم کرنے کے لیے اس دھرتی ماں اور اس کے باسیوں کے لیے سچ لکھنے کی کوشش جاری رکھوں گا کہ جس نے مجھے، میری ماں اور ہم سب کو پالا۔ ہمیشہ یاد رہے کہ مٹی اور قومیت سے وفاداری جھوٹ بول کر نہیں ہوتی۔
خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف، پنجاب میں مسلم لیگ نواز، دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی اور اس کے تین بڑے شہریعلاقوں میں متحدہ کامیاب رہی۔ گویا سب سیاسی جماعتوں کی کارکردگی اپنی اپنی جگہ مثالی رہی۔ کچھ تجزیہ نگاروں کی نظرمیں ووٹنگ ٹرینڈ دو ہزار تیرہ والا تھا۔ یعنی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات بھی صاف شفاف تھے۔
سردیوں میں نہ گیس ہے نہ بجلی مگر ووٹ پھر بھی ن لیگ کا۔ یا تو میاں صاحبان نے پنجابیوں پرکالا علم کروا رکھا ہے یا پھرہم خود ہی اندر سے کالے ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں پولیس مثالی بن چکی ہے کہ تاریخ کے دو بڑے جیل بریک تحریک انصاف کی حکومت میں ہی ہوئے۔ سندھ کے ہرگوٹھ میں ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی ذیلی شاخیں کھل چکی ہیں۔ لاڑکانہ اورگڑھی خدا بخش کی گلیاں پیرس کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ متحدہ پررینجرز کی مہربانیاں کہ اب وہ امن پسند جماعت بن چکی ہے۔
مسلم لیگ ن سے وابستہ ضلع قصور کا ایک سیاسی گھرانہ جب انیس سو سینتالیس میں ہندوستان سے پاکستان آیا تو ان کی کل جائیداد ساڑھے بارہ ایکڑزرعی اراضی بتائی جاتی تھی۔ آج جب پوتوں پڑپوتوں کے بعد وراثت کی نئی تقسیم ہوئی ہے تو بعض دوستوں کے مطابق خاندان کا ہرفرد سو مربع سے اوپر کا مالک ٹھہرا۔ نسل درنسل زمین تقسیم ہوکرکم ہوتی سنی تھی مگریہاں بڑھ رہی ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ دلچسپ حقیقت یہ کہ مزکورہ خاندان کا سیاست کے علاوہ کوئی معروف کاروبار نہیں رہا۔ یعنی کبھی کوئی لوہے کی دکان بھی نہیں رہی جو ترقی کرتے کرتے فیکٹری اور سٹیل مل بن گئی۔ اور کبھی گنے کے رس کی ریڑھی بھی نہ لگائی کہ ترقی کرتے کرتے شوگر ملز کے مالک بن بیٹھے۔
بلا شبہ نجی چینلز کے معصوم شہری اینکرز کی اکثریت کو یہ علم بھی نہیں ہوگا کہ ایک ایکڑ میں کتنی کنالیں اور ایک مربع میں کتنے ایکڑہوتے ہیں۔ تاہم کنال، ایکڑاور مربع کے فرق سے وہ صاحب لوگ اچھی طرح واقفیت رکھتے ہیں جو مربعے خرید کر پلاٹنگ کرتے اور ہاوسنگ سوسائٹیاں بناتے ہیں، جو اپنے اعلی افسران کو شہری پلاٹوں کے ساتھ زرعی اراضی کے ایکڑ اور مربعے بھی الاٹ کرتے ہیں، وہی جنھیں پیپلز پارٹی سے وابستہ وڈیروں، جاگیرداروں اور سرداروں کے عوام پر جبر اورتسلط کا بہت دکھ رہتا ہے کہ ان کی کرپشن کی وجہ سے ان کے علاقوں کی غریب عوام پسماندہ رہ گئی۔ مگر حیرت ہے کہ اس تمام علمیت اور رئیل اسٹیٹ بزنس کے وسیع تجربے کے باوجود ان کے ایجنسیوں اور احتساب کمیشن میں بیٹھے لوگوں کی عقابی نگاہوں سے یہ پہاڑ ہمیشہ اوجھل رہے۔ یا پھر وہ شاید دانستہ طور پر وسیع تر قومی مفاد میں خاموش رہے۔ اللہ ہی جانے کون بشر ہے۔
بمبینو سینما کے مالک سردارکا بیٹا بہرحال انھیں ہمیشہ درست طورپریاد رہتا ہے۔ واضع کرتا چلوں کہ کسی کی طلسم ہوشربا ترقی اور دولت کو کرپشن کہنے کی گستاخی نہیں کررہا محض سوال اٹھا رہا ہوں کہ اگرکہیں کوئی ریاست ہوتی، کوئی بلا تفریق نظام عدل ہوتا اورکوئی غیرجانبدار خودمختار احتساب کمیشن ہوتا تو وہ پہلے پٹوار خانے سے انیس سو سینتالیس کا ریکارڈ نکلواتا اور پھر اس کا موازنہ آج کی ملکیت سے کر کے سوال پوچھتا کہ وہ کونسی سائنس ہے جس کے استعمال سے بغیر کسی مل فیکٹری کے اعلیٰ حضرات نے اتنی جائیداد بنائی؟ مگرجو احتساب کو انیس سو پچاسی تک نہیں لیجانا چاہتے وہ سنتالیس کے کھاتے کیوں کھولیں گے۔
.
ایک اوردلچسپ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ نون لیگ مخالف سیاستدانوں کے سکینڈلز پر سکینڈلز سامنے لانے والے پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ نے بھی پنجاب کے ان شیردلیروں پر کبھی کچھ لکھنا کہنا مناسب نہیں سمجھا۔ یہی سوچ کراسٹیبلشمنٹ اوراس میڈیا گروپ کے درمیان نورا کشتی پر ہنسی آتی ہے کہ اگر کبھی ان کی واقعی آپس میں کوئی سنجیدہ چپلکش ہوتی تو یہ سب سپریم کورٹ تک اور حقائق منظر عام پر ضرور آتے۔ بد قسمتی سے مقتدر قوتوں نے جب بھی احتساب یا کرپشن کے خلاف نعرہ لگایا وہ محض ان کے اپنے مفادات کے حصول تک محدود رہا اور جیسے ہی احداف حاصل ہوئے سب باتیں اور بڑھکیں جھاگ کی طرح بیٹھ گئیں۔
بہرحال میرا موضوع کوئی ایک خاندان ہرگز نہ تھا کہ سارا کالم اسی پر ختم کر دوں۔ یہ ہزارداستان کراچی سے خیبر تک کسی نہ کسی شکل میں ہر جگہ موجود ہے۔ سندھیوں کو یہ زعم ہے کہ ان کی قوم وفادار ہے اور صرف بھٹو کی پیپلز پارٹی کو ہی ووٹ دیتی ہے۔ تاہم نہ یہ دعوی بھٹو سے وفاداری اور نہ ہی نظریاتی طور پر درست ثابت ہوتا ہے۔ بھٹو سے وفاداری ہوتی تو میر مرتضی بھٹو وہاں الیکشن نہ ہارتا، غنوی بھٹو محترمہ کے جانے کے بعد بھی الیکشن نہ ہارتی اور اگر یہ کہیں بھٹو کی سوشلسٹ جماعت ہوتی تو سندھ میں آج تک وڈیرے حکمران نہ ہوتے۔ متحدہ کی جیت کو کراچی آپریشن کی غلطی کہیں یا پڑھے لکھے مہاجروں کی داناعی اور وفاداری کہ ووٹ تو ہمیشہ انھوں نے الطاف بھائی کو ہی دیا۔ پڑھی لکھی قوم آج تک برسوں سے لندن میں بیٹھے الطاف بھائی کا کوئی متبادل پیدا نہ کر سکی۔ روایت شکن اینٹی سٹیٹس کو تبدیلی کے نعرے والی جماعت کا وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور ٹکٹ ہولڈرعلیم خان۔ ضلع قصور میں خورشید قصوری تو پہلے ہی تحریک انصاف میں جا چکے تھے اب سابق وزیراعلی پنجاب سردار عارف نکئی مرحوم کے خاندان کے سردار آصف بھی اب تحریک انصاف کا حصہ ہیں۔
یعنی تحریک انصاف ’سٹیٹس کو‘ کو نہیں بلکہ اس پرانے نظام کے بندے توڑرہی ہے۔
والدہ کی وفات پرچونیاں گیا تو پتہ چلا کہ ایک پرانے جاننے والے کا بڑا بھائی بلدیاتی انتخاب سے دو روز پہلے لاہور سے چونیاں آیا اوراپنے گھرکے پانچ ووٹوں کا سودا پانچ ہزارفی کس کے حساب سے کرکے چلتا بنا۔
موصوف کا کہنا تھا کہ اسے بچوں کے پرائیویٹ سکول کی فیس دینا تھی طاقت کا سرچشمہ وہ عوام ہے جس نے چونیاں جیسے چھوٹے سے شہر میں بھی امیدواروں کی طرف سے دیے گئے سیل فون پر اپنے ووٹ کی وڈیو بنا کر ہزارسے پانچ ہزارروپے تک فی ووٹ وصول کیا۔ مجھ سمیت بہت سے لوگ این اے122 کے ضمنی انتخاب کے ناجائزاخراجات پر روتے رہے مگر جہاں ایک گمنام سے شہر کی کونسلر کی سیٹ پر بیس سے چالیس پچاس لاکھ روپے خرچ کیے گئے ہوں وہاں کم از کم مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ہماری اکثریت ڈرائنگ روم تجزیہ نگار بن چکی ہے۔ جمہوریت بہترین انتقام ہے یا تجارت؟ فیصلہ بہت مشکل ہے۔