The news is by your side.

داعش – ابتدا اورارتقاء

فرانس کے تاریخی شہر اور دارالحکومت پیرس اورپھر امریکہ میں گزشتہ مہینے ہونے والی
خوفناک حملوں کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ عراق وشام میں سرگرم دہشتگرد اب یورپ جیسی محفوظ دنیا تک بھی پہنچ چکے ہیں۔ ان حملوں کی ذمہ داری مشرقِ وسطیٰ میں موجود دنیا کی سب سے امیراورخوفناک دہشتگرد گروپ داعش(آئی ایس آئی ایس) نے قبول کرلی ہے۔سوال یہ ہے کہ آخریہ داعش کس بلاکانام ہے اور اسکا جنم کیوں اورکس طرح ہوا؟

سن2003ء میں امن،جمہوریت اورانسانی آذادیوں کا خودساختہ ٹھیکیدارامریکہ اپنے یورپی حواریوں کے ہمراہ عراق پر حملہ کردیا وجہ یہ بتائی گئی کہ چونکہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والی کیمیائی وجراثیمی ہتھیارموجود ہیں جس سے دنیا کے امن کو شدیدخطرات لاحق ہیں بالاخر طویل خون ریزی کے بعد جب ان ہتھیاروں کاکوئی سراغ نہ ملاتوپھر یہ شوشہ چھوڑاگیا کہ گزشتہ تین دھائیوں سے عراق صدام حسین کی آمریت کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے اب مہذب دنیا کافرض بنتا ہے کہ عراقی عوام کو صدام کی آمریت سے نجات دلاکر جمہوری روایات سے روشناس کراسکے۔اس وقت برطانیہ،فرانس،جرمنی،آسٹریلیاسمیت نیٹو کے 48ممالک امریکہ کے شانہ بشانہ اس جنگ میں شریک تھے۔ان نام نہاد مہذب ممالک کی جانب سے امریکہ کو یہ کہنے کی توفیق نہ ہوئی کہ بھئی آمریت وجمہوریت عراقی عوام کا مسئلہ ہے آپ یا ہم کون ہوتے ہوعراق کوجمہوری بنانے والے بلکہ امریکہ کے فرعون صفت صدر جارج ڈبلیوبش کی ہربات پر لبیک کہتے رہے۔عراق پر قبضے کے بعد امریکہ اور ان کے نیٹواتحادیوں نے عراقی فوج،سول بیوروکریسی سمیت سارے حکومتی اور ریاستی اداروں کو تہس نہس کرکے رکھ دیاجس سے عراقی معاشرے میں ایک تباہ کن خلاء پیداہوان حالات میں سرزمینِ بغداد دنیا بھرکے دہشتگردوں کی آماجگاہ بن گئی۔

عراق میں القاعدہ کا قیام:

داعش کی ابتداء وارتقاء کو سمجھنے کے لئے پہلے ہمیں ان عوام اور محرکات پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے کہ جس کی وجہ سے بغداد اس’کالی آندھی’کی لپیٹ میں آیا۔عراق پرامریکی حملے کے ایک سال بعد2004ء میں القاعدہ نے وہاں پراپنی شاخ قائم کی۔چونکہ عراق کے سماجی ڈھانچے میں بہت بڑی سیاسی وانتظامی خلاء کے علاوہ شیعہ سنی کشیدگی بھی موجودتھی جبکہ صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد عراقی سنی آبادی خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگییہی وجہ ہے کہ اس سرزمین میں القاعدہ کو پنپنے میں بڑی آسانی رہی

نومبر 2015 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق آئی ایس آئی ایس دنیاکی سب سے طاقتوراورامیر ترین دہشتگردگروپ ہے جو کہ سن2003ء کو امریکہ کے عراق پر حملے کے بعد وجود میں آئی۔اس حملے نے عراقی سماج کے سارے مظاہر کو تہس نہس کرکے رکھ دیاجس سے عراق طوائف الملوکی اور انتشارکی لپیٹ میں آیا۔ بیرونی دنیا کے دہشتگرد عراق کی جانب راغب ہوگئے۔عراق پر قبضےکے بعد امریکہ نے صدام حسین کی مستحکم سنی فوج کو برباد کرکے رکھ دیا۔جب عراق میں القاعدہ نے اپنی شاخ قائم کی تو وہ صدام دور کے فوج کے جنگی ماہر لیکن بے روزگاروں کے لئے دلچسپی کا ذریعہ بنی۔2004ء ہی میں الزرقاوی کی گروپ نے بھی القاعدہ کی حمایت کردی اوراسکا نام ‘عراقی القاعدہ’رکھاگیا۔ جنہوں نے عراقی اہلِ تشیع کے مساجد،مقبروں،عوامی مقامات پر حملے اور مشہور شیعہ اشخاص کو چن چن کر قتل کرناشروع کیا۔جسکابنیادی مقصد شیعہ سنی فسادات کرواکر خانہ جنگی کو ہوادینا تھا یہی عمل داعش اب بھی سرانجام دے رہی ہیں۔

نوری المالکی حکومت اور داعش:

عراق پر قبضے اور صدام حکومت کے خاتمے کے بعد امریکہ نے عراق میں جمہوری نظام رائج کرنے کے حوالے سے انتخابات منعقد کئے ان انتخابات میں شیعہ مکتبہء فکر سے تعلق رکھنے والی نوری المالکی کوکامیابی ملی چونکہ عراق کی کل آبادی کا 60فیصدشیعہ،22فیصد صدام حسین کے حامی عرب سنی اور 18فیصد صدام مخالف کردسنی آبادی پر مشتمل ہیں،یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں مسلکی بنیادوں پر شیعہ حکومت قائم ہوگئی تجزیہ نگاروں کے مطابق نوری المالکی نے اعتدال پسند سیکولرآئینی وسیاسی نظام قائم کرنے کی بجائے مسلکی تعصبات پر مبنی حکمرانی کی روش پر گامزن ہوگئےاوریوں سنی اقلیت جو سینکڑوں برسوں سے عراق پر حکمرانی کرتے آئے تھے اور اب بھی عراق پر اپنا پیدائیشی حق سمجھتے تھے،جمہوری طرزِحکمرانی سے حکومت سے باہر ہوگئے جس کی وجہ سے وہ خود کو غیر محفوظ سمجھنے کے علاوہ انہوں نے شدت پسند گروہوں میں اپنی بقاء کی تلاش شروع کردی۔یہی وہ مظاہر تھے جنہوں نے سنی شدت پسندی کے استحکام میں اہم کرداراداکیا۔ تقریباَ 9برس یعنی 2003ء سے لیکر 2011ء تک عراق میں رہنے کے باوجود امریکیوں نے مستحکم عراقی فوج اور قانون نافذ کرنے والی اداروں کے قیام میں ناکام رہی اور جونہی 2011ء کو امریکی افواج کا عراق سے انخلاء شروع ہوادہشتگردی بڑھنے لگی۔

زید علی نامی ایک تجزیہ نگارThe Struggle for Iraq’s Futureکے عنوان سے لکھے گئے مضمون میں وضاحت کرتے ہیں۔

‘بالآخر2010ء کوعراق سیکیورٹی لحاظ سے نسبتاَبہتر پوزیشن میں آگیا اور ملک کے مختلف مذہبی ونسلی گروہوں کے درمیان مثبت تعلقات استواء ہوگئیں لیکن یہ تبدیلی دیرپا ثابت نہ ہوئی کیونکہ نوری المالکی نے سیاسی وانتظامی شعبوں سے اپنے مخالفین کوبے دخل کردیا فوج میں من پسند افرادکا تقررکیا جبکہ پرامن احتجاجیوں کو کچل ڈالایہی وہ وجوہ تھی جس نے داعش کو پھلنے پھولنے میں مدد دی”۔

داعش کا ارتقاء:

Crethiplethi.com   ایک آن لائن میگزین ہے جو کہ 2009ء سے مشرقی وسطیٰ،اسرائیل،عرب دنیااورجنوب مغربی ایشیاء وغیرہ کی صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے۔20نومبر2015ء کوThe Historical Root’s and Stages in the Development of ISISکے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی جس میں اس ساری صورتحال کو یوں بیان کیاگیا ہے

‘عراق میں امریکیوں نے نوری المالکی کی قیادت والی شیعی اور قوم پرست جمہوری طرزِ حکمرانی کی حمایت کی تاہم اس دور میں تاریخی لحاظ سے عراق پر (برسوں سے قابض)سنی آبادی کوحکومت سے باہررکھاگیا کیونکہ وہ (عددی اعتبار سے)اقلیت میں تھے’۔عراق میں القاعدہ کے قیام سے لیکرداعش تک کے مراحل کو اس رپورٹ میں چاردرجوں میں تقسیم کیاگیا ہے ‘عراق اور شام میں القاعدہ اورآئی ایس آئی ایس کا قیام چارمرحلوں میں مکمل ہوا’۔

1:پہلا مرحلہ(06-2004ء): پہلے مرحلے میں عراق میں ابوموصاب الزرقاوی کی قیادت میں القاعدہ کی شاخ کا قیام عمل میں آیا جس نے امریکہ اور اتحادی فوجیوں اور شیعہ آبادی کے خلاف گوریلا جنگ شروع کی پہلا مرحلہ اس وقت اختتام پزیر ہواجب (القاعدہ کے راہنما)ابوموصاب الزرقاوی جون 2006ء کو امریکہ کے فضائی حملے میں ہلاک ہوگئے۔

2:دوسرا مرحلہ(11-2006ء):دوسرے مرحلے میں’عراقی اسلامی امارات’یعنی آئی ایس آئی کا قیام عمل میں آیا۔آئی ایس آئی نے دوسری دہشتگرد تنظیموں کے لئے چھتری کا کام دیا جس نے امریکہ، اسکے اتحادیوں اور اہلِ تشیع کے خلاف گوریلا حملوں کوجاری رکھاامریکہ کی موجودگی اور ان کے عسکری حرکات نیز اس دورکے کامیاب خارجہ وداخلہ پالیسی جس میں سارے طبقوں بشمول سنی عراقیوں کو بھی ساتھ لیاگیاتھا کی وجہ سے آئی ایس آئی کمزوررہی۔

3:تیسرامرحلہ(2012سے جون 2014ء): اس دوران اسلامی امارات برائے عراق یعنی آئی ایس آئی نے خود کو مستحکم بنادیا اوراپنا نام تبدیل کرکے اسلامی امارات برائے عراق و شام یعنی آئی ایس آئی ایس رکھ دیا۔جب سن 2011ء میں عراق سے امریکی افواج کا انخلاء ہوگیا تو داعش مزید مضبوط ہوگئی۔ ٹھیک اسی دوران افریقہ اور مشرقیِ وسطیٰ کے مسلمان اکثریتی ممالک میں عرب بہارکے نام پر آمریت مخالف تحریک شروع ہوئی تو شام بھی اسی تحریک کے زیرِاثر آگیا، اور شامی ریاست خانہ جنگی کی لپیٹ میں آئی ۔جس کی وجہ سے داعش کو وہاں بھی اپنے پاؤں جمانے کا موقع ملا جنہوں نے النصراء فرنٹ کے نام سے شام میں اپنی شاخ قائم کی۔

4:چوتھامرحلہ(جون 2014ء کے بعد):داعش کو عسکری فتوحات میں ڈرامائی کامیابی:اس مرحلے میں داعش نے عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل کو فتح کیاجبکہ مشرقی شام کے مختلف حصے بھی داعش کے قبضے میں آئے،جہاں حکومتی مرکزیعنی الرقہ پر قبضہ کرلیا اس کامیابی کے بعد داعش نے اسلامی امارات آئی ایس یا اسلامی خلافت کے باقاعدہ قیام کا اعلان کردیا جسکی قیادت داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کررہے ہیں سمتبر 2014ء کو امریکہ نے داعش کے خلاف بھرپورمہم کا آغاز کیا”۔

ابوغُریب جیل پر حملہ:

21جولائی 2013ء کو البغدادی نے ایک بڑے منصوبے کے تحت بغداد کے قریب واقع ابوغُریب جیل پر حملہ کردیا اس جیل میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے 500کے قریب خطرناک دہشتگردموجودتھے حملے میں صرف 50داعش اہلکاروں نے حصہ لیااور ان 500 دہشتگردوں کو رہاکرکے اپنے ہمراہ لے گئے۔حملے کے وقت جیل کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی اہلکاروں نے ذرہ برابر بھی مزاحمت نہ کرسکےاور بغیر کسی بڑی رکاؤٹ کے داعش جنگجوؤں نے جیل توڑ ڈالی۔

بی بی سی انگریزی سروس میں 2اگست 2014ء کوشائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اگرچہ داعش اور القاعدہ کے درمیان زیادہ ہم آہنگی موجود نہیں البتہ عراق اور شام کی حد تک دونوں مل چکے ہیں اس گروپ میں شامل افراد کی کل تعداد کا صیحح اندازہ لگانا ممکن نہیں البتہ اندازتاَ30 ہزار افراد اس گروپ سے منسلک ہیں۔ داعش کے سربراہ ابوبکرالبغدادی میدانِ جنگ کے بہترین کمانڈر اور منصوبہ ساز ہیں جوکہ مڈل کلاس کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو راغب کرنے میں بہت حد تک کامیاب نظرآتے ہیں’۔ بعض تجزیہ نگارداعش اورالقاعدہ وطالبان کا تقابلی جائزہ یوں پیش کرتے ہیں کہ القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن ایک امیرکبیر گھرانے سے تعلق رکھنے والا امریکہ کے اعلیٰ تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل تھے یعنی القاعدہ کا سربراہ جدید تعلیم یافتہ جبکہ ان کے پیروکار جاہل قبائلیوں پر مشتمل تھی۔ اسکے برعکس داعش کی قیادت ناخواندہ جبکہ اس گروپ کے جنگجو اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ بی بی سی انگریزی سروس کی اس رپورٹ میں لندن کے کنگ کالج کے پروفیسر پیٹر نغمان کے حوالے سے لکھاگیا ہے ‘البغدادی کے گروپ(داعش)میں 80فیصد غیرملکی جنگجوشامل ہوکرشام میں لڑرہے ہیں جن میں سے اکثریت فرانس،برطانیہ،جرمنی،یورپین ممالک ،امریکہ اورعرب دنیا سے تعلق رکھتے ہیں’۔

بشارالاسد کی گمراہ کن پالیسیاں:

واکس ڈاٹ کام کی اس رپورٹ میں مزید لکھاگیا ہے کہ سن 2011ء میں جب عرب بہار کی لہرشام بھی پہنچنا شروع ہوگئی اور عوام سڑکوں پر نکل کر بشارالاسد کی آمریت کے خلاف مظاہرے شروع کئے تو عین اسی وقت اس عوامی تحریک کو(اسدنے)خود یرغمال بنایااوراسے مذہبی شدت پسندی کی جانب موڑدیا اسد نے انہی لمحاتمیں انتہائی خطرناک جواء کھیلا یعنی ان کاخیال تھا کہ اگر ان کے مخالف مذہبی شدت پسند ہوتو یورپ وامریکہ اس مذہبی تحریک سے خوفزدہ ہوکران(اسد) کا ساتھ دینگے اور یوں شام کی جمہوریت نوازسیکولر تحریک بشارالاسد کی غلط اور گمراہ کن پالیسیوں کی بابت مذہبی شدت پسندی میں تبدیل ہوگئی،جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سن 2013ء کو شام کے شہر رقہ داعش کے قبضے میں آگیاجو کہ ہتھیار ڈالنے والاشام کا پہلا بڑا شہرتھا۔

داعش کے مالی وسائل:

مبصرین کے مطابق داعش دنیا کا سب سے امیر ترین دہشتگردگروپ ہے جومختلف طریقوں سے لوٹ مار کے ذریعے اپنی دولت میں مسلسل اضافہ کررہے ہیں۔ شروع میں داعش کی مالی مدد سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اورکویت کے امیرطبقات کررہے تھے جوشامی صدر بشارالاسد کی حکومت کاتختہ الٹاناچاہتے تھےاوراب جبکہ مشرقی شام میں موجودتیل کے ذخائرپران کا قبضہ ہوچکاہے جس سے ان کی دولت میں بے تہاشہ اضافہ ہوا۔ بعض تجزیہ نگاروں کاخیال ہے کہ ترک صدررجب طیب اردوان کا خاندان داعش سے سستے دانوں تیل خرید رہے ہیں جس کی بنا پر ترکی بالخصوص ترک صدرداعش کے حوالے سے نرم گوشہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ روسی صدر ولادمیرپیوٹن نے بھی کئی مرتبہ ترکی پر داعش کی مدد اور ان سے تیل خریدنے کے الزامات عائد کرچکے ہیں لیکن افسوس اس بات پرکہ ابھی تک روس اس سلسلے میں کوئی ٹھوس ثبوت بین الاقوامی برادری کے سامنے نہیں لاسکے۔ اسکے علاوہ داعش عراق وشام کے تاریخی مقامات کو لوٹ کر وہاں موجود نواردات بیچ کر بڑی مقدارمیں رقم حاصل کر رہے ہیں۔ پروفیسرنغمان کاخیال ہے کہ’موصل پر قبضے سے قبل جون2014ء میں داعش کے پاس 900ملین ڈالر کی نقد رقم موجود تھی موصل پر قبضے کے بعد ان کے اثاثوں کی مقدار2بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے،کیونکہ موصل میں موجود عراق کے مرکزی بینک کی شاخ کولوٹ کر وہاں سے اربوں ڈالرحاصل کئے گئے جبکہ شمالی عراق کے تیل کے ذخائر پر قبضے کے بعد ان کےاثاثوں میں مزید کئی گنا اضافہ ہوا’۔

یہی وہ تاریخی حقائق ہے کہ امریکہ اور نیٹو کے خودساختہ مہذب جمہوری ممالک کی گمراہ کن پالیسیوں کی بنا پرنہ صرف مستحکم معاشرے تباہ وبرباد ہوکررہ گئے ہیں بلکہ وہاں سے دہشتگردوں کی آبیاری بھی ہوئی اورنتیجہ ہم سب کے سامنے ہیں آج پوری دنیا ان انتہا پسنددہشتگردوں کے قبضے میں چلی گئی ہیں جس کامظاہرہ عراق،شام،لیبیا،افعانستان وغیرہ میں برسوں سے ہورہاہےلیکن گزشتہ مہینے فرانس اورامریکہ میں ہونے والے واقعات سے دہشت گردی انتہا پر پہنچ چکی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ اور اس کے یورپی حواری دہشتگردی کے ان وجوہات سے سبق سیکھنے کے لئے تیار ہیں؟

شاید آپ یہ بھی پسند کریں