بالاخر طویل انتظار کے بعد خیبر پختونخواہ صوبائی کابینہ نے ضلع اپر چترال کے قیام کی باقاعدہ منظوری دے دی اور نئے ضلع کا نوٹیفیکشن اگلے ایک دو دن میں متوقع ہے۔ آج سے ٹھیک ایک برس قبل 8نومبر 2017ء کو موجودہ وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر اعلی کے پی پرویز خٹک دو روزہ دورے پر چترال آئے تو پولو گراونڈ چترال میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعلی پرویز خٹک نے چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی جوش خطابت میں یہ بھی کہہ ڈالا کہ’ اگلے چند دنوں میں ضلع اپر چترال کا نوٹیفیکشن کردیا جائے گاجس کی کاپیاں ان مخالفین کے منہ پہ دے مارے جو ہمارے اعلان کو جعلی کہتے ہیں عمران خان اور اس کی ٹیم کبھی جعلی اعلان نہیں کرتی بلکہ ہم آج ضلع اپر چترال کے قیام کا کنکریٹ اعلان کرتے ہیں’۔
اس کے بعد دن ہفتوں ، ہفتہ مہینوں اور مہینے سال میں تبدیل ہوئے لیکن ضلع کا نوٹیفیکشن نہ ہونا تھا نہ ہوسکا۔تاہم سماجی وصحافتی حلقوں نیز اپوزیشن کے دباو میں آکر بالآخر موجودہ حکومت کو ضلع اپر چترال کی باقاعدہ منظوری دینی پڑی۔
اب ذرا ضلع اپر چترال کے تاریخی پس منظر کی جانب جاتے ہیں۔تاریخ چترال کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وسیع وعریض رقبے پر پھیلا ہوا یہ خطہ ریاستی دور میں بھی انتظامی لحاظ سے دو یونٹو ں یعنی مستوج اور چترال میں منقسم تھی۔ قیام پاکستان کے بعد چترال کی ریاستی حیثیت کے خاتمے اور نمائندہ حکومت کے قیام کے لئے چترال مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مولانا نورشاہدین کی قیادت میں ایک تحریک چلی جس نے چترال سے شخصی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ گوکہ یہاں نمائندہ حکومت تو نہ بن سکی البتہ ریاستی اختیارات کو ختم کرکے حکومت پاکستان نے 1953ء میں یہاں ایف سی آر نافذ کردیا۔ اورانتظامی حوالے سے چترال دو اضلاع یعنی ضلع مستوج اور ضلع چترال میں منقسم رہی دونوں اضلاع کے اپنے اپنے ڈپٹی کمشنر ہوا کرتے تھے۔
یہ سلسلہ 1969ء تک جاری رہا یہاں تک کہ جنرل یحیٰ خان کے دور میں چترال سے ایف سی آر کا خاتمہ کرکے اسے براہ راست صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات یعنی پاٹا ) میں ضم کردیا گیا۔ لیکن بدقسمتی سے ضلع مستوج کی حیثیت کو ختم کرکے پورے چترال کو ایک ضلع کی حیثیت دی گئی۔ یہ فیصلہ عوام کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ضلع مستوج کی بحالی کے لئے کوششیں اور جدوجہد ہوتی رہی لیکن قیادت کے فقدان اور چترالیوں میں اتفاق واتحاد ، نیز سیاسی شعور نہ ہونے کی وجہ سے کسی قسم کی کامیابی نہ مل سکی۔ضلع مستوج کی بحالی کے لئے پرتشدد تحریک اس وقت جنم لی جب سابق وزیر اعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ جشن شندور کے موقع پر وہاں تشریف لائی تو عوام نے ضلع مستوج کی بحالی کے لئے احتجاج اور پتھراؤ کیا جس کے باعث محترمہ کو یہ دورہ ادھورا چھوڑ کے واپس جانا پڑا۔
بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ محترمہ اس دورے میں ضلع مستوج کی بحالی کا اعلان کرنے والی تھی ،جس کی اطلاع چترال کے سیاسی گرو شہزادہ محی الدین کوملی اور اپنی سیاست کو ختم ہوتے ہوئے دیکھ کر انہوں نے ڑاپسور اور مستوج کے اپنے ہمدردوں سے مل کر سازش تیار کی اور عوام کو مشتعل کرکے بی بی کے ہاتھوں ضلع مستوج کی بحالی ہونے نہیں دیا۔
عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کے لئے اس قسم کی سازشین بعد میں بھی ہوتی رہی ۔ اکتوبر 2010ء کو جب اس وقت کے وزیر اعلی خیبر پختونخواہ امیر حیدر خان ہوتی اپنے دورہ چترال کے موقع پر بونی تشریف لائے تو ان کے سامنے بھی یک نکاتی ایجنڈہ یعنی ضلع مستوج کی بحالی کا مطالبہ رکھا گیا ۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں امیر حیدر ہوتی نے اعلان کیا کہ ہم پشاور جاکر اس حوالے سے قانونی پیچیدگیوں کو نمٹا کر عنقریب ضلع مستوج کو بحال کریں گے لیکن اس کے تین سال بعد 2013ء کو ان کی حکومت ختم ہوگئی لیکن ضلع مستوج کا قیام عمل میں نہیں آیا۔ جس کا ذمہ دار چترال کے اس وقت کے دونوں ایم پی ایز یعنی سابق صوبائی وزیر سلیم خان اور حاجی غلام محمد تھے، انہوں نے اس سلسلے میں صوبائی اسمبلی میں آواز اٹھانے کی زحمت گوارا نہ کی اور نہ ہی وزیر اعلی ٰکو ان کا کیا ہوا وعدہ یاد دلایا گیا۔
سنہ2013ء کے انتخابات کے بعد جب صوبے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو ایک بار پھر ضلع مستوج کی بحالی کا مطالبہ شروع ہوا جس میں پارٹی کے بعض ضلعی قائدین بھی شامل تھے۔اس مطالبے کو مانتے ہوئے 8نومبر 2017ء کو سابق وزیر اعلی ٰنے ضلع مستوج کی بحالی کے بجائے ضلع اپر چترال کے قیام کا اعلان کردیا لیکن پھر وہ بھی اپنا وعدہ بھول گیا۔ جس کی وجہ بھی چترال کی سیاسی کچڑی تھی ۔ یہاں دونوں ممبران صوبائی اسمبلی یعنی سلیم خان اور سید سردار حسین کا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی سے ، بی بی فوزیہ خواتین کی مخصوص نشست پر پی ٹی آئی کے ایم پی اے ، ضلع ناظم ایم ایم اے کاحاجی مغفرت شاہ ، دونوں تحصیل ناظمین بھی ایم ایم اے کے اور ممبر قومی اسمبلی شہزادہ افتخارالادین آل پاکستان مسلم لیگ کے تھے۔ یہ سارے نام نہاد لیڈرا ن کبھی بھی چترال کے بہتر مستقبل کے لئے اکھٹے نہیں ہوئے ۔
15نومبر 2017ء کو چترال چیمبر آف کامرس اور چترال کمیونٹی ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک کے زیر اہتمام بونی میں ایک اجتماع ہوا جس سے خطاب کرتے ہوئے ایم پی اے سیدسردا ر حسین نے کہا کہ میں ایک ماہ تک اس اعلان کا جائزہ لوں گا ، پھر پی ٹی آئی کو ان کا وعدہ یاد دلاوں گا۔اس قسم کی ڈرٹی پالیٹیکس چترال کے سارے نمائندگان نے کی، جس کی وجہ سے نئے ضلع کی نوٹیفیکشن میں تاخیر ہوئی ۔ صوبائی کابینہ نے 23دسمبر 2017ء کو نئے ضلع کی منظوری دے دی تاہم اس وقت تک الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کے سلسلے میں ہر قسم کی انتظامی یونٹس کے قیام پر پابندی عاید کی تھی جس کی وجہ سے نئے ضلع کا نوٹیفیکشن نہ ہوسکا۔
اس میں قصور پی ٹی آئی چترال کے نااہل قیادت اور خاتون ممبر صوبائی اسمبلی بی بی فوزیہ کا بھی تھا کہ اگر ضلع کے اعلان کے فوری بعد وہ اپنی حکومت کومتوجہ کرتی تو اگلے چند دنوں کے اندر اندر اس کا قیام عمل میں آتا۔
ضلع اپر چترال کے قیام میں تاخیر کی وجہ سے چترال کو اپنی صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ سے بھی محروم ہونا پڑا۔ اگر بروقت ضلع کا اعلان کیاجاتا تو قانون کے مطابق ہر ضلع کوکم از کم صوبائی اسمبلی کی ایک نشست درکار ہے،لیکن چترال ایک ضلع ہونے نیز آبادی مطلوبہ مقدار میں نہ ہونے کی وجہ سے صوبائی اسمبلی کی نشست ختم کردی گئی۔
اب چونکہ ضلع اپر چترال کا اعلان ہوا تو سارے سیاسی حلقوں کو اپنی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر جدوجہد کرنی ہوگی ۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ چترال کی ساری سیاسی جماعتیں ابھی بھی محض کریڈٹ لینے کے چکر میں محض بیان بازی کی حد تک ایک دوسرے پر بازی لے رہے ہیں ، عملی طور پر فی الحال کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آرہا ۔