The news is by your side.

پاکستان کی سب سے دکھی سیاست داں

رواں ماہ 23 اکتوبر کو بیگم نصرت بھٹو کی ساتویں برسی منائی گئی۔ اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی سمیت ملک کے جمہوریت پسندوں کی جانب سے کسی قسم کے پروگرامات کا انقعاد دیکھنے کو نہیں ملا، البتہ سوشل میڈیا کے چند منچلےجیالوں نے جمہوریت کے لئے بیگم نصرت بھٹو کی خدمات اور قربانیوں کا تذکرہ ضرورکیا۔

بیگم نصرت بھٹو پاکستان میں جمہوری جدوجہد کا استعارہ ہیں۔ آپ 29 مارچ 1929ء کو اصفہان کے ایرانی کردش خاندان میں پیدا ہوئی تھیں ، آپ کے والدین تجارت کے سلسلے میں ممبئی چلے آئے اور قیام پاکستان کے بعد کراچی میں مقیم ہوگئے۔بیگم نصرت بھٹو نے اصفہان یونیورسٹی سے بی اے ہیومینٹرین کی ڈگری حاصل کی ۔ پاکستان آنے کے بعد 1950ء میں خواتین پیرا ملٹری فورس میں شامل ہوگئیں ۔ 8 ستمبر 1951ء کو آپ کی شادی ذوالفقار علی بھٹو سے ہوئی ۔

1971ء کو جب ذوالفقار علی بھٹو شہید صدر پاکستان اور پھر وزیر اعظم منتخب ہوگئے تو آپ نے خاتون ِاول کے طور پر خواتین کو مختلف شعبوں میں آگے لانے کے سلسلے میں کلیدی کردار اداکیا ۔ 1977ء کے مارشل لاء اور پھر بھٹو شہید کو پھانسی دئیے جانے کے بعد آپ مذاہمتی سیاست میں قدم رکھی اور ضیاء الحق کے ظالمانہ آمریت کے خلاف مسلسل جدوجہد کرتی رہی ۔ جس کی پاداش میں آپ جیل اور کال کوٹھڑی میں وقت گزارنے پر مجبور ہوئی ۔ اسی کی دہائی میں قذافی اسٹیڈیم لاہور میں جاری کرکٹ میچ کے دوران جب آپ وہاں گئیں تو تماشائیوں نے جئے بھٹو کا نعرہ بلند کیا۔ یوں جابر حکمران کو موقع ملا اور آپ پر لاٹھیوں کی بوچھاڑ کردی گئی جس کی وجہ سے آپ کے سر پر شدید چوٹیں آئی اور جسم لہولہاں ہوگیا جس کی تصاویر بھی اس وقت کے میڈیا پر شائع ہوئیں اور یہ ضیاء الحق کے ظالمانہ و جابرانہ نظام کو سمجھنے کےلئے کافی تھی۔آپ اور آپ کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو ضیاء آمریت کےد وران الگ الگ جیلوں میں قید رکھاگیا۔ 1981ء میں جمہوری قوتوں نے آپ کی سربراہی میں تحریک بحالی جمہوریت کی بنیاد رکھ کر ضیائی آمریت کے خلاف بھرپور تحریک کا آغاز کیا ۔

بیگم نصرت بھٹو اور چترال

1987ء کو ضیاء الحق فضائی حادثے میں ہلاک ہوگئے تو جنرل اسلم بیگ نے عام انتخابات کا اعلان کردیا اور پاکستان پیپلز پارٹی نے طویل عرصہ بعد دوبارہ انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ پی پی پی نے تاریخی طور پر خطرہ مول کر چترال جیسے دور افتادہ قبائلی علاقے میں قومی اسمبلی کی ٹکٹ بیگم نصرت بھٹو کو دی ، آپ چند دنوں کے لئے چترال آئیں اور یہاں کی تاریخ کے سب سے بڑے مارجن سے یہ انتخابا ت جیت لی ۔ بعد میں بیگم صاحبہ نے یہ نشست خالی کردی اور دوبارہ الیکشن ہوا تو سید غفور شاہ 36 ہزار ووٹ لےکر کامیاب ہوئے جس کے بعد چترال کو منی لاڑکانہ کا خطاب ملا۔ چترالی خواتین کی بڑی تعداد آج بھی پاکستان پیپلزپارٹی کو سپورٹ کرتی ہے اس کی وجہ بیگم صاحبہ کی چترال سے عملی سیاست اور پھر بے نظیر بھٹو کی شخصیت تھی جس نے خواتین کی ہمدردی حاصل کی ۔

نصرت بھٹو ایک غمزدہ خاتون

دنیا بھر کے غمزدہ انسانوں کی لسٹ بنائی جائے تو بیگم نصرت بھٹو کا نام سرفہرست ہوگی۔ پہلے شوہر کو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں تختہ دار پر لٹکا کر آپ کا سہاگ اجاڑ دیا گیا ، پھرچھوٹے فرزند میر شاہ نواز بھٹو کو زہر دے کر قتل کردیا گیا۔ ابھی ایک بیٹے کے غم سے ذرا ہی سنبھلنے لگی تھیں کہ 1996ء میں بے نظیر بھٹو کی دورِ حکومت میں بڑے بیٹے میر مرتضی بھٹو کو پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا ۔

اس کے بعد آپ کے اعصاب بالاخر جواب دے گئے اور اسی سال آپ کو الزائمر کے مرض میں مبتلا ہوکر اپنے ہو ش و ہواس کھو بیٹھیں۔  جب 27 دسمبر 2007ء کی شام محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا  تو آپ اس وقت بھی ہوش میں نہیں تھی ۔ اگر یہ کہا جائے کہ بیگم نصرت بھٹو دنیا کے مضبوط ترین اعصاب کے مالک سب سے دکھی خاتون سیاست داں تھیں تو بے جا نہ ہوگا۔ آپ طویل عرصہ وہیل چیئر پر رہنے کے بعد 23اکتوبر 2011ء کو 82 سال کی عمر میں انتقال کرگئے آپ کے انتقال کے بعد پارلیمان نے آپ کو مادر جمہوریت کے خطاب سے نوازا تھا۔

 

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں