The news is by your side.

پاکستان اورافغانستان میں امن- فیصلہ کون کرے گا ؟

جب ہم بچپن میں گلی محلے میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے تو بیٹ کے مالک کو پہلی باری دینے کے پابند ہوتے اور بعض اوقات تو کپتان بنانے پر بھی مجبور ہوجاتے، وقت گزرتا رہا لڑکپن سے عملی زندگی میں آئے اور ادھیڑ عمر کی جانب رواں دواں ہیں مگر یہ اصول آج بھی پوری آب و تاب سے قائم و دائم نظر آرہا ہے۔ آج مملکت خداداد پرمیاں محمد نواز شریف تیسری باروزارت عظمیٰ کے منصب پر براجمان ہیں لیکن ان کی ترجیحات آج بھی وہی پرانی ہیں، یعنی کاروبار کا تحفظ اور اہم قومی امورپرایڈہاک بنیادوں پرفیصلے کرکے امورِ ریاست میں عدم دلچسپی کا اظہار۔

میاں نواز شریف کا طرزِحکومت دیکھیں تو ایٹمی دھماکے ہوں، یا ضربِ عضب ، لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی خلاف ورزیاں ہوں یا کل بھوشن یادو کا رنگے ہاتھوں پکڑا جانا ہو، خارجہ پالیسی کا تعین ہو یا دیگراہم قومی فیصلے، سمت کا تعین اور حتمی فیصلہ کوئی اور ہی کرتا آیا ہے، وزیراعظم تو صرف اعلانات تک ہی محدود رہے ہیں۔

جب حکومتِ پاکستان کو امریکہ کے 22مئی کو بلوچستان میں ڈرون حملے اور اس میں ملا اختر منصور کی ہلاکت پر موثر اور مربوط ردعمل ظاہر کرنا چاہئے تھا ایسے میں میاں نواز شریف لندن میں علاج کے لیے بیٹھے ہیں، پاناما پیپرز پر ردعمل کے لئے لندن میں موجود پاکستانی میڈیا سے تو رجوع کرسکتے ہیں مگر ڈرون حملے پر ردعمل کے لئے نہیں، یہی نہیں حکومت کے ترجمان وزیر اطلاعات پرویز رشید کے خیال میں بھی دفترخارجہ کی ایک پریس ریلیز اس سلسلے میں کافی ہے۔

نجانے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کیوں اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرکے وزیر اطلاعات کے امورکار میں مداخلت کردیتے ہیں، آخر انہیں ہی آگے آکر امریکی ڈرون حملے پر سخت موقف اپنانا پڑا ، ماضی میں بھی کل بھوشن یادیو کی گرفتاری، بھارت کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اوربنگلہ دیش میں پاکستان کے حامی لیڈروں کی پھانسی سمیت کئی موضوعات پر وزیر داخلہ دو ٹوک موقف کے ساتھ منظرعام پرآچکے ہیں لیکن وزیراعظم یا حکومتی ترجمان کو کوئی توفیق نہیں ہوئی۔

اب دیکھیں موجودہ سیاسی حکومت کے برسراقتدارآنے سے اب تک یہ موقف چلا آرہا تھا کہ امریکی ڈرون حملے پاکستان کی داخلی خودمختاری پر حملے تصور کئے جائیں گے لیکن جب اس پر ردعمل کا وقت آیا تو اس پر سخت موقف پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو اپنانا پڑا ، وہ جی ایچ کیو میں امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل سے ملاقات کرتے ہیں اور بلوچستان میں 22مئی کو ہونے والے امریکی ڈرون حملے پر شدید تشویش اور تحفظات کا اظہار کرتے ہیں اور اسے پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے پاکستان کی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کا مطالبہ کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اس سے باہمی تعلقات سمیت افغانستان میں فروغ امن کی کوششیں متاثر ہوں گی۔

بلاشبہ مری میں امن مذاکرات کے بعد دوسرے راؤنڈ کا وقت آتا ہے تو ملا عمر کے انتقال کی خبر آجاتی ہے، ناراض طالبان کو دوبارہ مذاکرات کی میز پرلانے لگتے ہیں تو ملا منصور اختر ڈرون حملے میں مارے جاتے ہیں اورپھرکہہ دیا جاتا ہے کہ پاکستان کی کوششیں ویسی نہیں جیسی ہونی چاہئیں، ایسے میں پھر امن کا دشمن کسے قرار دیا جائے ؟ کون کوششوں میں سنجیدہ نہیں ؟ پاکستان سے تو حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا مطالبہ سامنے آتا ہے لیکن پاکستان میں امن کے دشمن ملا فضل اللہ کے خلاف کارروائی کون کرے گا ؟۔

پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیاں، کامیابیاں اور کردار کسی بھی اتحادی ملک یا پورے اتحاد سے زیادہ ہے ، پاکستان نے 15سال میں 50ہزار سے زائد افراد کی قربانیاں دی ہیں ، ہزاروں کی تعداد میں کیے گئےآپریشنوں میں اپنے سینکڑوں جوانوں اور افسروں کا خون دیا ہے، ہزاروں دہشت گرد مارے اور کتنوں کو ہی گرفتار کرکے قانونی چارہ جوئی کی ہے لیکن امریکہ نے ہر اہم موقع پر شطرنج کی بساط لپیٹ کر ’’ڈو مور‘‘کا مطالبہ دہرایا ہے کیونکہ حتمی فیصلے وہی کرتا ہے جس کے پاس طاقت ہو، یعنی ڈنڈا ہو۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں