لالو کھیت کب لیاقت آباد میں تبدیل ہوا اس کا سہی طور پہ مجھے بھی علم نہیں، لیکن ہم اسے لالوکھیت کے نام سے ہی کہتے سنتے بڑے ہوئے۔
لالوکھیت کا دس نمبر بہت ہی مشہورتھا ایک زمانے میں کراچی کا سیاسی درجہ حرارت ناپنے کا بہترین پیمانہ لالوکھیت ہی ہوا کرتا تھا، قیام پاکستان کے بعد ہند سے آئے مہاجرین کی بڑی تعداد شہر کے اس وسطی علاقے میں آباد ہوئی، یہیں فیڈرل کیپٹل ایریا بنایا گیا جہاں کے خستہ حال سرکاری کواٹر گئے دنوں کی داستان سناتے ہیں۔
لالوکھیت دس نمبر بسوں کا بڑا جنکشن تھا شہر کے مرکزی علاقے صدرکو جانے والی ساٹھ فیصد بسیں یہیں سے گزرتی تھیں ، جن میں کراچی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کی لال بسیں سرفہرست تھیں جبکہ فائیو سی، سکس بی ، سکس سمیت دیگر بڑی چھوٹی بسیں یہاں کے مکنیوں کو دوسرے علاقوں سے جوڑے رکھنے کا اہم ذریعہ بنیں۔
لالو کھیت کے بازار میں کیا نہیں ملتا تھا ؟ نچلے متوسط طبقے کی پہلی ترجیح آج بھی تنگ گلیوں پہ پھیلا لالو کھیت کا بازار ھے ، جہاں شادی کے کپڑے، فرینچر، پرچون، جوتے، پنسار، پنکھے، واشنگ مشین، گاڑیاں، کتے، بلے، طوطے، مرغے اورنجانے کیا کیا ملتا ہے۔
لالوکھیتیوں کی اپنی مخصوص زبان اورانداز ہے جسے سن کراوردیکھ کر لطف آتا ہے، یہاں اہل علم کثیرتعداد میں پائے جاتے تھے لیکن بنیادی طورپریہ محنت کرنے والوں کا علاقہ تھا۔ جہاں اردو بولنے والوں کی مختلف برادریوں کی آبادیاں قائم تھیں۔
ابتداء سے ہی اس کی شہرت اپوزیشن والے علاقے کی رہی ایوب خان کی آمریت کے خلاف یہاں کا احتجاج خوب زوروں پہ رہا، لالو کھیتی مادرملت کے چاہنے والے تھے اور ایوب خان کی آمریت کے سخت خلاف، پی این اے کی تحریک ہو یا متحدہ کے جلسے لالوکھیتی پہلی صف میں ہوتے۔
ماضی کی ہڑتالوں میں سب سے پہلے کہیں گاڑی جلتی تھی یا پتھراوٗ تو ان میں لالو کھیت سرفہرست ہوتا تھا۔
گزرے عرصے میں یہ ضرور ہوا کہ لالوکھیتیوں کے روایتی جذباتی انداز میں کمی واقع ہوئی ھے لیکن اس کے باوجود یہاں راج متحدہ ہی کا ھے۔
جمعیت علمائے پاکستان اپنے اچھے دنوں میں یہاں موثر تھی لیکن اب اس کا وجود تقریبا ناپید ہے۔ پیپلز پارٹی بھی کبھی یہاں اپنا اثرو رسوغ رکھا کرتی تھی لیکن وہ بھی گئے دنوں کا فسانہ ہوا، جماعت اسلامی کی بھی قابل ذکر حیثیت رہی ہے ٹارگٹ کلنگ کی بھیٹ چڑھنے والے ڈاکٹر پرویز محمود، مشرف کے دور میں یہاں کے ٹاون ناظم تھے اور انہوں نے ایم کیو ایم کی موجودگی کے باوجود دبنگ انداز رکھا۔
لالو کھیت میں میری یاداشت کی حد تک پہلا ہائی پروفائل قتل ولی خان بابر کا ہوا تھا ، امجد صابری کی رہائش گاہ ولی بابر کے جائے قتل سے بمشکل پانچ سات منٹ کے ڈرائیو پہ واقع ہے البتہ لسانی فسادات کے زمانے اور بعد میں ٹھیک ٹھاک قتل و غارت گری یہاں ہوئی، ریحان کانا جیسے لوگ انہی علاقوں میں پیدا ہوئے، شہداء قبرستان میں اس کی قبرکے کتبے پہ لکھا ہے کہ ’’مہاجروں گواہ رہنا میں بکا نہیں جھکا نہیں دبا نہیں‘‘۔ ریحان ایک پولیس مقابلے میں اپنے انجام کو پہنچا۔
لالوکھیت کے الکرم اسکوائرسے کون واقف نہیں ؟؟؟ جہاں کئی آپریشن ہوئے خوف کی علامت بننے والے الکرم اسکوائر کی دیواروں پہ آج بھی گولیوں کے نشان دیکھے جاسکتے ہیں ، لیاقت آباد سے متصل کھجی گراونڈ کا علاقہ طویل عرصے تک خوف و دہشت کی علامت بنا رہا۔ بانوے کے آپریشن میں یہاں کی آبادیوں کے محاصرے ہوتے اور بچوں بوڑھوں و نوجوانوں کی تفریق کے بغیر انہیں حراست میں لیا جاتا تشدد ہوتا قید یا جعلی مقابلہ مقدر بنتا۔
امجد صابری کے بعد لیاقت آباد کے گویا بھاگ جاگ گئے وہ جو کئی دھائیوں تک یہاں سے گزرنا پسند نہیں کرتے تھے آج روزانہ کی بیناد پہ یہاں کے چکر لگاتے ہیں ، اسی بہانے صفائیاں ہوگئیں اور لالوکھیتیوں کو احساس ہوا کہ جیسے تیسے سہی سرکار نے انہیں اپنا تسلیم تو کیا یہ اور بات ھے کہ اسکے لئیے امجد صابری کو اپنا خون دینا پڑا۔
جب اعلیٰ شخصیات نے لالو کھیت کا رخ کر ہی لیا ھے تو اچھا نہ ہوگا کہ وہ سیاسی لسانی اختلافات ایک طرف کرکے لالوکھیت کو ماڈل ٹاون بنانے کا اعلان کریں جہاں بہترین تعلمی و طبی سہولتیں میسر ہوں ؟؟؟؟ لگے ہاتھوں اگر مئیر کے الیکشن کراکے فنڈز کا اجراء کردیا جائے تو نہ صرف شہر کا بھلا ہوگا بلکہ کچھ لوگوں کو گٹر کی نالیوں میں کچرا پھینکنے اور مصنوعی پانی کا بحران پیدا کرکے اپنے مطالبات منوانے سے بھی نجات مل جائے گی۔
نیت صاف اورحکومتیں پرخلوص ہوں تو اس خلیج کو پاٹنے کا موقع ملے گا جو نسلی لسانی سیاست کے طفیل پیدا ہوئی اور وسیع آبادی کو آسیب کی مانند جکڑ رکھا ہے۔