کراچی میں راج کرنے والے نامعلوم افراد اب تک کئی قیمتی جانیں نگل چکے ہیں جن میں پروفیسرز ، ڈاکٹرز، علما سمیت ہزاروں لوگ نامعلوم افراد کی اندھی گولیوں اور حکمت عملی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ بات یہی ختم نہیں ہوئی بلکہ نامعلوم افراد فلاحی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے پولیو ورکرز اور خواتین کی زندگیوں کے چراغ گل کرچکے ہیں۔خبروں سے مشہور ہونے والا یہ نامعلوم افراد کا گروپ 1999 کے بعد میڈیا کی زینت بنا جس کے ہاتھوں آج تک کئی افراد کو قیمتی جانوں سمیت نقدی اور اشیاء سے بھی محروم کرچکے ہیں۔
ہزاروں خاندانوں پر قیامت صغریٰ برپا کرنے والا یہ نامعلوم گینگ آخر کون ہے جو آزادانہ طور پر شہر میں گھوم پھر لیتا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حکمت عملی کو ناکام بناتا نظر آتا ہے۔ ہر دور میں مضبوط رہنے والے اس گروپ سے شہری ناصرف خوفزدہ ہیں بلکہ عاجز بھی ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ اداروں کو شکایات کرنے کے باوجود ان کے خلاف کوئی خاص کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔
ان نامعلوم افراد نے اسلحے کے زور پر رات کے اندھیرے میں کئی گھروں کی چار دیواری اور تقدس کو پامال کرتے ہوئے کئی افراد کو اغواء کیا جس کے بعد وہ لاپتہ ہوئے اور اُن میں سے کئی لوگوں کی تشدد زدہ نعشیں برآمد ہوئیں جن کی تعداد 69 کے قریب ہے جبکہ 130 گھرانے تاحال ایسے ہیں جن کے پیارے گزشہ کئی عرصے سے لاپتہ ہیں اعلیٰ ادارے بشمول عدلیہ بھی اُن کی گمشدگی یا بازیابی کے لیے اہل خانہ کو استخارہ یا اگلی سماعت میں پیش ہونے کا حکم دے دیتی ہے۔آج سے 24 سال قبل شہر میں ان نامعلوم افراد کا کوئی تصور موجود نہیں تھا بعد ازاں ان سالوں میں کئی آپریشنز کے باوجود یہ نامعلوم گروپ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا دکھائی دیا۔
کراچی کی سیاست میں 3 مارچ کو ہونے والی تبدیلی نامعلوم افراد کے ہاتھوں اغواء ہونے والی فیملیز کے لیے اچھی ثابت ہوئی کیونکہ اداروں کی چھان پٹک اور انٹیلی جنس کی ناکامی کے بعد اغوا ہوجانے والے نوجوان منظر عام پر آنا شروع ہوئے اور عہد و پیماں تبدیل کرتے نظر آئے۔
عام طور پر کراچی کے عوام میں نامعلوم افراد کا نام آتے ہی “کراچی کی بڑی جماعت” کا نام ذہن میں آتا تھا اور تاثر یہ قائم ہوتا تھا کہ شاید یہ صفت انہی لوگوں کے پاس ہو مگر گزشتہ سال نمائش پر پیپلزپارٹی کے منعقد ہونے والے جلسے سے قبل قرب و جوار کی دکانیں بند ہونے پر نامعلوم افرد کی گونج سنائی دی علاوہ ازیں کسی مذہبی اسکالر کے انتقال پر نامعلوم افراد اسپتال میں عملے کو تشدد کا نشانہ اور توڑ پھوڑ کرتے نظر آئے تو کہیں میڈیا ہاؤسز پر حملوں میں بھی پیش پیش رہے۔
گزشتہ ماہ کی 22 تاریخ کو پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد یہ نامعلوم افراد صرف کراچی ہی نہیں بلکہ حیدرآباد، سکھر، میرپور خاص، نوابشاہ وغیرہ کے علاقوں میں تصاویر پھاڑتے ہوئے بہت متحرک نظر آئے۔ جس کے بعد ان افراد کی جانب سے “پی آئی بی” اور گرد نواح میں “بدلہ گروپ” کے نام سے دیواریں خراب کیں اور اب کل کراچی کے انتہائی حساس علاقے میں واقع سندھ ہائی کورٹ کے باہر سیکیورٹی ہائی الرٹ کے باوجود باآسانی بینرز لگا کر کامیابی سے فرار ہوگئے۔
کراچی میں گزشتہ تین سال سے جاری آپریشن کے بعد امن و امان کی صورتحال قدرے بہتر ہوئی ہے جس کا سہرا عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جاتا ہے مگر ایک دم ان نامعلوم افراد کا متحرک ہوجانا شہریوں کے لیے باعث تشیوش ہے اور عوام ان سے نجات حاصل کرنے کےلیے دعا گوء بھی ہیں۔