موقع پرست سیاست دان ہمیشہ چور دروازوں کے ذریعے اقتدار پر قابض رہنے کی تدبیر میں لگے رہتے ہیں ان کے لئے اپنے ذاتی فوائد کی خاطر’’ قوم کے وسیع تر مفاد‘ ‘کے نام پر وفاداریاں تبدیل کرنا روزمرہ کا معمول ہوتا ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں چالیس برس سے زائد چار فوجی آمروں نے حکومت کی ان کے حکمرانی کوطول دینےمیں موقع پرست سیاست دانوں نے کلیدی کردار اداکیا جب بھی جمہوریت پر شب خون مارا گیا نظریہ ضرورت تخلیق کرتے ہوئے عوامی حکومتوں کی بساط لپیٹی گئی اور آمریت مسلط ہوئی فوراََ چڑھنے سورج کے پجاریوں نے اپنا کندھا پیش کیا ۔موقع پرست سیاسی ٹولے کا تعلق کسی مخصوص خطہ یا علاقہ سے نہیں بلکہ ہرجگہ ان لوگوں کی کثیر تعداد رہائش پزیر ہیں جو ہر دم گھات میں بیٹھ کر مناسب مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ افسوس ناک پہلویہ ہے کہ موقع پرستی اور ذاتی مفادات کے لئے سیاسی قلابازی کے اس سارے ڈرامے کو حقیقی سیاست سے تعبیر کیاجارہاہے ۔چترال کی سیاسی تاریخ میں گزشتہ چار دھائیوں سے سیاست کا محورایک ہی خاندان رہاہے ضلع کونسل کی چیرمین سے سیاست کا آغاز کرنے والا شہزادہ محی الدین نے گزشتہ ساڑھے تیس برسوں تک چترال میں سیاہ وسفید کے مالک رہے ۔ بہت سارے لوگ شائد یہ سمجھے کہ محی الدین صاحب کو ملنے والی کامیابی ان کی خدمات کے بدولت ہو لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ۔چترال کی تاریخ کا سیاہ ترین زمانہ 1982ء کا تھا جبکہ بعض افراد نے اپنی ذاتی مفادات کے لئے سنی اسماعیلی اختلافات کو ہوا دی جس کی وجہ سے سنی اسماعیلی فسادات ہوئے گوکہ چند مفاد پرست اسماعیلی افراد نے اس خونی ڈرامے کی شروعات کی تھی جو آج لندن اور کینیڈا بیٹھ کر عیاشیوں میں مصروف ہے جبکہ چترال میں اس سانحہ کے بعد عوام کے درمیان نفرت وعداوت اپنے عروج کو پہنچی ۔ اس سانحہ کے پس پردہ کیا سیاسی وسماجی واقتصادی مقاصد تھے ان پر پھر کبھی ،البتہ حادثے نے چترال کی سیاسیات وسماج کر بری طرح متاثر کیا چترال کا پرامن اور بھارئی چارگی پر مشتمل معاشرہ واضح طورپر دو انتہاؤں میں منقسم ہوگئی ۔
شہزادہ محی الدین کی سیاست کا مرکزومحور یہی سانحہ تھا اورہرالیکشن میں اسے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ چترال کے دور افتادہ پسماندہ وادیوں بالخصوص یارخون ، لاسپور اور لوٹکوہ میں جہاں اسماعیلیوں کی اکثریت تھی انہیں 82ء کے سانحہ سے خوفزدہ رکھ کر ووٹ حاصل کیاجاتارہا ۔ موصوف ضلع کونسل سے صوبائی پھر قومی اسمبلی ، وزارت امور مملکت برائے سیاحت، ضلع ناظم اور آخری دور میں پھر ایم این اے رہے، اسی دوران حروف تہجیوں سے بنے ہوئے مسلم لیگوں کو اپنی گھر کی لونڈی سمجھتے ہوئے انگلیوں کے اشاروں پر نچواتے رہے اپنے آخری دور اقتدار میں پاکستان پیپلز پارٹی میں گھسنے کی کوشش کی لیکن پی پی پی چترال نے بھر پور مزاحمت کی البتہ حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کو خوش کرنے کے لئے صدارتی انتخاب میں مسلم لیگ (ق) کے امیدوار مشاہد حسین سید کے مقابلے میں آصف علی زرداری کو ووٹ دے کر موقع پرستی کا بھر پور مظاہرہ کیا ۔ جب محی الدین کی صحت جواب دینے لگی توآپ جو کہ مسلم لیگ (ق)کی ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوگئے تھے اپنے چھوٹے فرزند خالد پرویز کو لے کر دبئی چلے گئے جہاں سابق صدر پرویز مشرف سے ملاقات کرکے انہیں آل پاکستان مسلم لیگ میں داخل کردیا ۔1890ء کی دھائی میں سابق وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے چترال کا دور کیا تھا اپنے یادداشتوں میں اس وقت کے مہتر چترال امان الملک کے بارے میں یوں رقم طراز ہے ’’کسی کے لئے بھی یہ جاننا مشکل تھا کہ اس کی روٹی کے کس طرح کا حصہ مکھن لگایاہواہے‘‘۔
مئی 2013ء کے عام انتخابات میں جب سابق صدر پاکستان پرویز مشرف نے چترا ل سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا توسابق ایم این اے شہزادہ محی الدین کے
چھوٹے فرزند خالد پرویز پی کے 89سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار جبکہ بڑابیٹا افتخارالدین قومی اسمبلی میں پرویز مشرف کے کورنگ امیدوار کے طورپرمیدان میں آئے جبکہ پی کے 90سے غلام محمد کو صوبائی اسمبلی کی ٹکٹ ملی۔اسی دوران مشرف مختلف کیسوں میں الجھے اور انہیں الیکشن لڑنے کے لئے نااہل قرار دیاگیا توپھر افتخار الدین کوباقاعدہ آل پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار کے طورپر میدان میں اتاراگیا یوں چھوٹا بھائی صوبائی اسمبلی اور بڑا قومی اسمبلی کے امیدوار بن گئے جب مشرف کے گرد گھیرا مزید تنگ ہواتو احتجاجاََانہوں نے پارٹی قیادت کے مشورے سے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا لیکن آل پاکستان مسلم لیگ کے چترالی قیادت نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے مشرف کے نام کو سیاسی مقاصد کے لئے بھرپورطورپر استعمال کیا لیکن بدقسمتی سے نہ تو پرویز مشرف کو انہیں روکنے کی جسارت ہوئی اور نہ ہی آل پاکستان مسلم لیگ کو ۔ کہایہ جاتا ہے کہ اس الیکشن کے لئے پرویز مشرف کی جانب سے کروڑوں روپے پہلے ہی چترال پہنچ چکے تھے اور یوں مشرف کی نااہلی کے بعد بھی انہی پیسوں سے انتخابی مہم چلائی گئی ، البتہ اس حوالے سے کوئی حتمی ثبوت موجود نہیں مگر’ زبان خلق کونقارہ خدا سمجھو‘‘۔
یوں مشرف کارڈ کے ذریعے چترال کے سادہ لوح اور مشرف کے شیدائی عوام کو گمراہ کرتے ہوئے ووٹ حاصل کیاگیا افتخار الدین ممبر قومی اسمبلی جبکہ
غلام محمد پی کے 90مستوج چترال سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔البتہ آل پاکستان مسلم لیگ کے ضلعی صدر کو پی کے 89چترال سے شکست ہوئی ۔
بعد میں پی کے 90سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سید سردارحسین نے الیکشن ٹربیونل میں انتخابی دھاندلی کاکیس لڑااور آخر کار علاقے کے سات
پولنگ اسٹیشنوں میں دوبارہ انتخابات ہوئے جس میں آل پاکستان مسلم لیگ کے غلام محمد کو شکست اورپاکستان پیپلز پارٹی کے سردارحسین کو کامیابی
ملی۔
سن 2013ء کے انتخابات کے بعدایم این اے چترال افتخار الدین نامور صحافی وتجزیہ نگار رحیم اللہ یوسفزئی کو انٹرویو دیتے ہوئے اس کامیابی کا کریڈٹ مشرف کے ساتھ عوام کی والہانہ محبت کو قرار دیاتھا اس کے بعد پی ٹی وی کے ایک ٹاک شو میں جب افتخار صاحب کو بلایا گیا تو آپ کا موقف یوں تھا کہ عوام چترال پرویز مشرف کے احسانات اورمہربانیوں پر ہمیں ووٹ دیا ہے کیونکہ مشرف نے چترال کی تعمیر وترقی کے لئے بے انتہا خدمات سرانجام دی ہے یہ بھی کہا تھا کہ چترال کے عوام نے مشرف کی بے گناہی پر مہر تصدیق ثبت کردیاہے چترال کے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے محسن کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا گیا ہے ‘۔ پھر رفتہ رفتہ ایم این اے صاحب اپنی خاندانی جاہ طلبی اور موقع پرستانہ سیاست کی جانب گامزن ہوگئی الیکشن کے ایک آدھ سال بعد چترال کے ایک موقر انگریزی اخبار ’چترال ٹو ڈے‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے آ پ نے فرمایا کہ مجھے مشرف کے نام پر ووٹ نہیں ملاتھا بلکہ مئی 2013ء کے انتخابات میں مجھے جو تیس ہزار ووٹ ملے تھے اس میں مشرف کی کارکردگی کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔
گویا ایم این اے صاحب بلاواسطہ یہ کہہ رہے تھے کہ ان کو ملنے والی تیس ہزار
ووٹ ان کے خاندان کے ووٹ ہے نہ کہ سابق صدر مشرف کی شہرت کے
جوں جوں ایم این اے چترال افتخار الدین کا وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے ساتھ ملاقاتوں میں اضافہ ہوتاگیا مسلم لیگ (ن) اور میاں نواز شریف کی
تعریفوں سے بھرپور بیانات پڑھنے کو ملتے رہے ۔ مسلم لیگ (ن ) کے ایک کارکن کی جانب سے یہ بھی بتایاگیا کہ ایک مرتبہ جب وہ احسن اقبال کے دفترمیں
بیٹھے ہوئے تھے کہ ایم ین اے افتخار الدین بھی وہاں آئے اور احسن اقبال کے ساتھ بات چیت کے دوران انگریزی میں مشرف کے لئے نازیبا الفاظ بھی استعمال کئے ۔ ساتھ ہی یہ خبر بھی گردش کی کہ اس ٹینیور کے اختتام پر جونہی 2018ء کے انتخابات کا اعلان ہوگا افتخار صاحب فوراََ مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرنے والے ہیں۔ اب وزیر اعظم میاں نواز شریف کے حالیہ دورہ چترال اور وہاں کئے گئے تقریروں سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ آل پاکستان مسلم لیگ کی ٹکٹ سے کامیاب ہونے والی ممبر قومی اسمبلی افتخار الدین صاحب اب اے پی ایم ایل میں نہیں بلکہ عملی طورپر پاکستان مسلم لیگ (ن )میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔
موقع پرست موسمی پرندے ہر دم ہواؤں کارخ دیکھ کر پرواز کے عادی ہوتے ہیں ٹھیک اسی طرح 2014ء کے ضمنی الیکشن میں شکست کے چند ماہ بعد ہی غلام محمد نے اپنے محسن پرویز مشرف کو الودع کہتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام میں شامل ہوگئے البتہ اسی دوران ایم این اے پس پردہ رہ کر قلابازیوں میں مشغول رہے۔جب پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلا تو ساری سیاسی جماعتوں نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا لیکن ان کے اپنے ایم این اے کو لب کشائی کی توفیق نہ ہوئی ۔وزیر اعظم میاں نواز شریف کے حالیہ دورہ چترال کے موقع پر جب ایم این اے چترال افتخار الدین کو تقریر کے لئے اسٹیج پر بلایا گیا تو اس موقع پرانہوں نے میاں نواز شریف کے حق میں جو تعریفی کلمات ادا کئے وہ طلال چوہدری، عابد شیر علی یا دانیال عزیز کو بھی مات دے گئے انہوں نے کہا’’ کہ تبدیلی دھرنوں اور خالی خولی بیانات سے نہیں آتی بلکہ اصل تبدیلی تو وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف لارہے ہیں ‘‘۔ اس کے بعد آل پاکستان مسلم لیگ کے ایم این اے نے نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا’’شیر شاہ سوری کے بعد آپ برصغیر کا واحد عظیم لیڈر ہو جس نے سڑکوں کی تعمیر میں خصوصی دلچسپی لے کر ملک وقوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا،جب میں سن دوہزار تیرہ کے انتخابات کے بعد پارلیمان گیا تو 342کے ایوان میں میں آل پاکستان مسلم لیگ کا واحد نمائندہ تھا ۔ اس ایوان میں مسلم لیگ (ن) کو واضح برتری حاصل تھی اور میاں صاحب کو وزیر اعظم بنتے وقت میری ووٹ کی کوئی ضرورت نہیں تھی پھر بھی میں نے اپنا ووٹ ’علاقے کے وسیع تر مفاد ‘میں میاں نواز شریف کے حق میں استعمال کیا ۔ پارلیمان میں میری کوئی حیثیت نہیں تھی لیکن میا ں نواز شریف نے خصوصی طورپر ہمارے سر پر اپنا دست شفقت رکھا ہمارے ساتھ تعاون فرما کر لواری ٹنل سمیت مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لئے اربوں روپے فراہم کئے ہیں جس کے لئے ہم ان کے مشکور ہے ‘‘۔حیر ت ہوتی ہے کہ 2013ء کے الیکشن میں مشرف کے نام پر عوام کو گمراہ کرنے والے اتنی جلدی کس طرح انہیں بے یار ومددگار چھوڑ کر ان کے دشمن کے کیمپ میں چلے گئے ۔
افتخار صاحب! چترال کے عوام نے دوہزار تیرہ کے انتخابات میں ترقی یا سڑکوں کی بہتری کے لئے آپ کو ووٹ نہیں دیا تھا بلکہ مشرف کے عشق میں
اپنا ووٹ آپ کے حق میں استعمال کیاتھا اس امید پر کہ آپ پارلیمان میں جاکر مشرف کا مقدمہ لڑیں گے۔ اتنی بھی جلدی کیا تھی کہ جس بندے کے مالی واخلاقی احسانات سے آپ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے صرف تین سال بعد ہی انہیں اکیلا چھوڑ کر مخالفیں میں شامل ہو گئے۔ کیا سیاست واقعی ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے وفاداریاں تبدیل کرنے کا نام ہے ؟ ۔ جب افتخار الدین صاحب نے میاں نواز شریف کے لئے ’شیر شاہ سوری ‘ کا لقب استعمال کیاتو 1998ء کا وہ زمانہ یاد آیا جب ایٹمی دھماکوں کے بعد افتخار صاحب کے والد وزارت امور مملکت برائے سیاحت کے قلمدان میں بیٹھے اسی میاں نواز شریف کے لئے’قائد اعظم ثانی ‘ کالقب استعمال کررہے تھے ۔ پھر بعد میں اسی قائد اعظم ثانی کو چھوڑ کے مشرف کے بنائے گئے قائد اعظم کے مسلم لیگ میں شامل ہوکر ایم این
اے منتخب ہوئے۔ افتخار الدین صاحب آپ کی کامیابی بھی مشرف کارڈ کا مرہون منت ہے۔ محترم ایم این اے صاحب ! میاں نواز شریف نے چند ترقیاتی کاموں کا
اعلان کیاکیا آپ تیس ہزار چترالیوں کے جذبات کو میاں نواز کے ہاتھوں نیلام کردیا کل اگر کوئی اور پارٹی اس سے زیادہ فنڈ دے دیں تو کیا آپ میاں نواز
شریف کو بھی لات ماریں گے ؟جناب والا قومی غیرت وحمیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔ افتخار صاحب !جب آپ میاں نواز شریف کے تعریفوں کے پل باندھ
رہے تھے تو مشرف کے شیدائیوں کے دل پر کیا گزر رہی تھی کبھی آپ نے سوچا؟ وفاداری تبدیل کرنے کی روایت آپ کے ہاں کافی پرانی ہے ۔ جب میاں نواز شریف پر1999ء کے بعد براوقت آیا تھا تو آپ کے والد محترم نے بونی میں آکر اعلان کیاتھا کہ ’’ہمارے راہنما ء کو قید کردیا گیا ان کی رہائی ناممکن ہے اب ہم نے اپنے لئے نیا لیڈر چن لیا ہے اور وہ پرویز مشرف ہے ‘‘۔ جونہی پرویز مشر ف پر براوقت آیا تو آپ نے ایک ایسے شخص کو اپنا لیڈر چنا جنہیں آپ کے والد نے ٹھوکر ماری تھی ۔
اس کے عوض میاں صاحب نے چترال پولو گراؤنڈ پر جن الفاظ سے آپ کو یا د فرمایا وہ بھی ذرا ملاحظہ فرمائیں’’ افتخار الدین الیکشن جیتنے کے بعد اسلام آبادمیں دومرتبہ مجھ سے کہا کہ میں پرویز مشرف کی سیٹ سے استعفیٰ دے کر مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ پر دوبارہ الیکشن لڑنے جارہاہوں تو میں دو نوں مرتبہ ان کو منع کیا کہ میں آپ کو کسی بھی قسم کے امتحان میں ڈالنا نہیں چاہتا‘‘۔ افتخار صاحب! آپ اتنے ہی باضمیر ہے اور مشرف سے اتنی نفرت کرتے ہیں تو کیوں ان کے سیٹ سے چمٹے ہوئے ہیں اپنے اندر کے انسا ن سے پوچھ ،اور مستعفی ہوکر اپنے نئے آقا کی ٹکٹ پر الیکشن لڑ یں۔ اپنے بیانات اور میاں نواز شریف کی تقریر کے بعد آپ آل پاکستان مسلم لیگ کی سیٹ پر براجمان رہنے کا اخلاقی جواز کھو بیٹھے ہیں ۔ ویسے جاتے جاتے یہ سوال پوچھنا بھی ضروری ہے کہ ایک سال قبل جب چترال میں تباہ کن سیلاب آیا تھا تو وزیر اعظم میاں نواز شریف نے سب ڈویژن مستوج چترا ل کے ایک گاؤں کوراغ میں آکر جونہی آپ پر نظر پڑی تو طنزیہ انداز سے کہا تھا کہ یہ جرنیل محی الدین کا بیٹا یہاں کیا کررہاہے؟ ۔ اس کے پس پردہ کیا راز تھا ہمیں اتنا معلوم ہے کہ محی الدین جب میاں صاحب کو اکیلا چھوڑ کے جرنیل پرویز مشرف کے سایہ تلے بیٹھ گیا تھا تو میاں صاحب کو بہت رنج ہواتھا اور آپ پراسی بنا پرطنز کیاتھا۔