The news is by your side.

’بانٹا کیا تھا اور چھینا کیا تھا‘

ابتدائے آفرینش سے لے کر ساعتِ امروز تک ، دنیا جن اعمال کے تحت جنت اور دوزخ بنتی رہی  ہے اور بنتی رہے گی وہ محض دو بالترتیب بنیادی اعمال ہیں ’بانٹ دینا اور  چھین لینا‘۔ آپ تاریخِ انسانی اُٹھا کر دیکھ لیجے، ہر بڑے سے بڑا واقعہ ء خیر و شر،  انھی دو اعمال کے تحت رونما ہوتا نظر آئے گا۔ اُصول یہی ہیں، باقی تمام فروعات ہیں اور جزئیات ہیں ۔ عہدِ حاضر کی سب سے بڑی کسمپرسی سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اب ’ بانٹنا‘ محدود اور ’چھیننا‘ بڑھتا جا رہا ہے۔

تاریخ کا تسلسل بڑا ہی دلچسپ سائنسی تناظر رکھتا ہے، اگر آپ بغور مشاہدہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ تاریخِ انسانی میں وہ تمام صدیاں جن میں انسان ہر لحاظ سے درست معنوں میں ترقی کے زینے چڑھا ہے ، وہ تمام کا تمام دورانیہ’ بانٹنے‘ کا ہی دورانیہ ہے، علم کے حصول میں کہیں کوئی خاص رکاوٹ نہیں تھی،  مواقع تقسیم کئے گئے، ہنر مندی کے لحاظ سے بھی تبادلہ کیا گیا، اور تاریخ کے اوراق سنہری سے سنہری ہوتے چلے گئے اور انسان ان زینوں کو سر کرتا گیا کہ جس کے بعد اب اس ساعتِ امروز میں اس کے پاس ایک عالمی تنہائی کے علاوہ اور کچھ نہیں بچا ۔

میں یونہی کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ عہد ایک تاریخی قبض کا شکار ھے، ایک ایسی قبض، کہ جس میں دلوں میں محبت تو ہے مگر خوف کے ہمراہ، اور خوف ،  درِ اظہار کو کبھی کھلنے نہیں دیا کرتا، یہ گھٹن ختم ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ کیسے ختم ہو سکتی ہے ؟؟ اس کا جواب بہت ہی آسان ہے۔ یہ گھٹن ہم خاموش لوگوں کی گھٹن ہے۔ جی ہاں۔ یہ آپ کی گھٹن ہے۔ ایک لمحے کے لئے اپنے ارد گرد دیکھئے کہ بانٹنے والے کیا بانٹ رھے ہیں ؟ چلیے ہم اسی جزیرہ ء اشکال یعنی فیس بک کی بات کر لیتے ہیں، جن تمام اچھا لکھنے والوں کو آپ پڑھتے ہیں، وہ ایسا کیا خاص عمل رکھتے ہیں کہ جو آپ میں نہیں ہے ؟؟ کیا آپ کے پاس کوئی ایک جملہ ء خیر ایسا نہیں ؟ کہ جسے آپ ’ تقسیم‘ کر سکیں ؟ صرف ایک جملہ، کوئی مضمون نہیں، کوئی کتاب نہیں، جدلیات کے معیاری اصولوں کے عین مطابق، کہ جن پر میرا اپنے وجود سے ایمان ہے ، کہ ’ ایک وقت پر مقدار ایک خالص معیاری تبدیلی کا سبب بن حاتی ہے‘ کے مطابق، ایک ایک جملہ قیمتی ہے۔ اور بھلا قاسمِ خیر کے اس منصب پر آنے کے لئے کیا ہمیں کوئی راکٹ سائنس سیکھنی پڑے گی ؟ ظاہر ہے کہ نہیں ۔۔ کرنا کیا ہے ؟ صرف اور صرف اتنا کہ جب بھی آپ کہیں اپنے بیرون کچھ ایسا رونما ہوتا دیکھیں جس کا سرا آپ کو اپنے اندر جڑتا ہوا محسوس ہو تو اسے ضبطِ تحریر میں لائیں ۔ بیان کیجے، کہئے ، کیونکہ آپ کے ایک اس جملے کی خاموشی در حقیقت ’ آواز‘ کا وہ خلا پیدا کر دیتی ہے جسے پھر لا محالہ، قدرتی طور پر کوئی بھی بے ہنگم ’شور‘ پُر کرتا ہے۔

بدل دیجے ایسے فضول محاورے کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے، اگر چاروں طرف برپا ایک عالمی بکواس کا ٹنٹا سنا جا سکتا ہے تو یقین جانئیے یقین جانئے، آواز سننے والے بھی بیٹھے ہیں۔

اور بس اتنی سی بات ہے۔ تقسیم کیجے،۔ آپ علم والے ہیں تو علم تقسیم کیجے، پیسے والے ہیں تو پیسہ تقسیم کیجے، کیفیت والے ہیں تو کیفیت تقسیم کیجے، جسے گلہ ہو کہ وہ کسی جگہ’ تسلیم ‘ نہیں کیا جا رہا، اسے فوراً چاہئیے کہ اپنے اندر دیکھے کہ اس نے کہیں کوئی’تقسیم‘ کا عمل تو نہیں روکا ہوا ؟ بانٹنے کا عمل بہت آسان ہے اور آپ کر سکتے ہیں،  اگر آپ سوچ سکتے ہیں، تو آپ بول بھی سکتے ہیں، آپ لکھ بھی سکتے ہیں، یہ بات یہ طلب رکھے بنا کہ کون پڑھتا ہے کون نہیں، کون آتا ہے کون نہیں، نہیں ۔ اس ایک انسان کے لئے خیر تقسیم کیجے جو آپ خود ہیں۔ یہی وہ سب سے بہترین وقت ہے کہ جس میں محبت ،  رواداری اور خیر تقسیم کرنا محض ذمہ داری ہی نہیں۔ ہماری مجبوری بھی  ہے۔

جی ہاں۔ جو وقت ہم اس وقت دیکھ رہے  ہیں، یہ اس فصل کا بویا ہوا  ہے جو برسوں پہلے بوئی گئی، اگر آپ ، ہم ،اپنے بچوں، اپنی نسلوں، کو محض آئی پیڈ ، کلاؤڈ، اور ٹیکنالوجی کے سنگ بہلتا ہوا دیکھ کر مطمئن ہو رہے ہیں تو یہ ہماری غلطی ہے۔ ہم خود بھی تنہا ہیں اور انھیں بھی باقاعدہ تنہائی میں  ملوث” کر رہے ہیں۔ اس لئے بانٹنا ، اور خیر کی تقسیم کرنا صرف ذمہ داری ہی نہیں، ہماری وہ مجبوری بھی ہے جس کا ادراک اگر ہم آج نہیں کریں گے، تو کل وقت کا کوئی خلا یہ نہیں پوچھے گا کہ تم مذہبِ فلاں سے تھے یا مسلکِ فلاں سے۔نہیں۔ وقت کسی کا پیرو کار نہیں ہوتا اور تاریخ ہمارے دو ہی اعمال کو جانتی ہے۔ ’بانٹا کیا تھا اور چھینا کیا تھا‘۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں