راوی رستہ موڑ
کبھی اس شہر کی جانب ‘ جو جلتا ہے
سن زخمی آواز
جو سینے چیر رہی ہے
جھومر کی وادی میں کس نے پھینکا ہے بارود ؟؟
جھلس گئے بالَوچ
کون’پری پیکر‘ ہیں جنہوں نے ڈسے بلوچی خواب ؟؟
کون ’کرم فرما‘ ہاتھوں نے زہرکیا یہ آب؟؟
ظلم کریں عُہدوں والے اور گالی سنے پنجاب ؟؟؟؟
تَو راوی
اب تُو رستہ موڑ
ذرا اس شہر کی جانب اے بوڑھے دریا
غصیلی خلقت کو سمجھا
کہ میں تو خود روتا ہوں
دیکھ ! مری لہروں نہروں سے نکل رہی لاشیں
اپنے ہی آنچل سے پھندہ لیتی یہ بہنیں
ڈگری پر پٹرول چھڑک کر جلتا مستقبل
دیکھ ! یہ اُجڑے خواب اور خوابوں سے خالی ہر دل
جس کرسی کے پایے تیرے دل میں ہیں پیوست
میری لہروں اور ترے درّوں پر نازل مشترکہ آسیب
جن کی سنگینوں سے ادھڑے سندھ بلوچستان
جن کی خوں آشام ہوس نے لوٹا پاکستان
یار بلوچستان
وہی اپنے مجرم ہیں
راوی رستہ موڑ ‘ بلوچستان کی جانب
پھولوں کے ہمراہ
کہ سب دکھ سکھ سانجھے ہیں
نوٹ: یہ نظم علی زریون نے گزشتہ ماہ سانحہ پولیس ٹریننگ سنٹر کے موقع پرتحریر کی تھی