The news is by your side.

محنتِ انساں کی قسم

کون کہہ سکتا ہے

کس وقت خُدا برہم ہو

اورپھرابرِکرم، ابرِمصیبت بن جائے

ہے کوئی علم؟

کوئی فکر؟

کوئی صاحبِ دل؟

جو بتا سکتا ہو’معروضِ مشیّت ‘کیا ہے ؟

جن غریبوں کے مکاں لے گئے بپھرے دریا

اُن کے حق میں یہ غضب ناکیِ قدرت کیا ہے ؟

کیا یہی طے ہے؟

کہ جب قہر گرے،ان پہ گرے ؟

وہ معیشت کے ہوں

یا قدرتی آفات کے زخم

بس یہی چاک گریباں ہیں جو یہ بھگتیں گے؟

مثلِ مشہور کہ ہاں ’صبرکا پھل میٹھا ہے‘

کیایہ پھل

صرف غریبوں کے لئے ہوتا ہے؟

ہم غریبوں کی ’تواضع‘کو یہی پھل ہے کیا؟

اِس جہاں گیراذیّت کا یہی حل ہے کیا؟

تجھ سے تو خیر مجھے کوئی شکایت ہی نہیں

تیری قدرت

تو ہراک کے لئے یکساں ٹہھری

یہ سوالات تو ان زہرفروشوں سے ہیں جو

فکرکے نام پہ تخریبِ خرَد بیچتے ہیں

جو غریبوں کو سکھاتے ہیں ’مشیت کے اصول‘

اورامیروں کو ’سخاوت‘کی سند بیچتے ہیں

یہ لڑائی تو ہے اُن رجعَتی طاغوتوں سے

جو کہ ’تقسیم‘کی مسند کے خُدا ٹھہرے ہیں

جو کہ دھرتی کے لئے ننگ ہیں لیکن ازخود

برسر ِعام خُدائی کی ادا ٹھہرے ہیں

بحروبر ملک خُدااست مگرقابض کون؟

کس خُداوند کا فرماں ہے کہ تم ظلم کرو ؟

کس نبی نے یہ کہا پیٹ منافع سے بھرو؟

اُس کی قدرت کے خزانے ہیں برائے ہرجاں

کون ہوتم؟ کہ جو خود کے لئے مخصوص کرو ؟

ربِ جاناں کی قسم !

محنتِ انساں کی قسم !

تم نہیں چاہتے انساں کا بھلا ہوجائے

لوگ بپھرے ہوئے پانی میں بھلے ڈوب مریں

تم تو محفوظ ہوجاگیریں بچا کراپنی

لیکن اے جملہ خبیثان و رئیسانِ زمیں!

وقت آتا ہے کہ اب تم بھی دہائی دو گے
تم کہ جو قاسمِ جمہوربنے پھرتے ہو
اپنے ہرظلم پہ اب آپ صفائی دو گے !

کون کہہ سکتا ہے

کس وقت خُدا برہم ہو

اورپھرابرِکرم، ابرِمصیبت بن جائے

ہے کوئی علم؟

کوئی فکر؟

کوئی صاحبِ دل؟

جو بتا سکتا ہو’معروضِ مشیّت ‘کیا ہے ؟

جن غریبوں کے مکاں لے گئے بپھرے دریا

اُن کے حق میں یہ غضب ناکیِ قدرت کیا ہے ؟

کیا یہی طے ہے؟

کہ جب قہر گرے،ان پہ گرے ؟

وہ معیشت کے ہوں

یا قدرتی آفات کے زخم

بس یہی چاک گریباں ہیں جو یہ بھگتیں گے؟

مثلِ مشہور کہ ہاں ’صبرکا پھل میٹھا ہے‘

کیایہ پھل

صرف غریبوں کے لئے ہوتا ہے؟

ہم غریبوں کی ’تواضع‘کو یہی پھل ہے کیا؟

اِس جہاں گیراذیّت کا یہی حل ہے کیا؟

تجھ سے تو خیر مجھے کوئی شکایت ہی نہیں

تیری قدرت

تو ہراک کے لئے یکساں ٹہھری

یہ سوالات تو ان زہرفروشوں سے ہیں جو

فکرکے نام پہ تخریبِ خرَد بیچتے ہیں

جو غریبوں کو سکھاتے ہیں ’مشیت کے اصول‘

اورامیروں کو ’سخاوت‘کی سند بیچتے ہیں

یہ لڑائی تو ہے اُن رجعَتی طاغوتوں سے

جو کہ ’تقسیم‘کی مسند کے خُدا ٹھہرے ہیں

جو کہ دھرتی کے لئے ننگ ہیں لیکن ازخود

برسر ِعام خُدائی کی ادا ٹھہرے ہیں

بحروبر ملک خُدااست مگرقابض کون؟

کس خُداوند کا فرماں ہے کہ تم ظلم کرو ؟

کس نبی نے یہ کہا پیٹ منافع سے بھرو؟

اُس کی قدرت کے خزانے ہیں برائے ہرجاں

کون ہوتم؟ کہ جو خود کے لئے مخصوص کرو ؟

ربِ جاناں کی قسم !

محنتِ انساں کی قسم !

تم نہیں چاہتے انساں کا بھلا ہوجائے

لوگ بپھرے ہوئے پانی میں بھلے ڈوب مریں

تم تو محفوظ ہوجاگیریں بچا کراپنی

لیکن اے جملہ خبیثان و رئیسانِ زمیں!

وقت آتا ہے کہ اب تم بھی دہائی دو گے

تم کہ جو قاسمِ جمہوربنے پھرتے ہو

اپنے ہرظلم پہ اب آپ صفائی دو گے !

شاید آپ یہ بھی پسند کریں