The news is by your side.

اورنج لائن ٹرین منصوبہ‘ چشم کشا حقائق

پنجاب کے حکمران تو اورنج لائن ٹرین کو ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ایک انقلابی منصوبہ قرار دیتے نہیں تھکتے یہ منصوبہ کس حد تک انقلابی اور عوامی مفاد کا ثابت ہو گا یہ تو وقت ہی بتائے گا تاہم اس کی منصوبہ بندی اور تعمیرمیں جو من مانیاں اور قوانین کی خلاف ورزیاں کی گئیں وہ بھی ایک تاریخ ہی ہے۔ اورنج لائن منصوبے کی فزیبلیٹی کے لیے ایم وی ایشیا لیمیٹڈ کمپنی بنائی گئی جس نے دو سال کی محنت کے بعد2007 میں رپورٹ تیار کی جس کے مطابق 27.1 کلومیٹر طویل ٹرین پر 1.6 ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔

رپورٹ میں کمپنی نے سفارش کی اس منصوبے کی جگہ ٹنل ٹیکنالوجی زیادہ بہتر ہے جس سے نہ تو اضافی زمین ایکوائر کی جائے گی اور نہ ہی ثقافتی ورثہ متاثر ہو گا۔ مگر محنت شاقہ سے تیار اس رپورٹ میں تبدیلی کے لیے 2014 میں نیسپاک کو اختیار دے دیا گیا حالانکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ نیسپاک کو اس قسم کے منصونے تعمیر کرنے کا کوئی تجربہ ہی نہیں اور ناتجربہ کار نیسپاک نے دس روز میں ہی فزیبیلیٹی رپورٹ تبدیل کر دی۔

اب اس کے ٹینڈر کی طرف آئیں تو پراجیکٹ کا انٹرنیشنل ٹینڈر2014 میں جاری کر کے اس بنیاد پر واپس لے لیا گیا کہ چینی وزیراعظم کے اعلان کے مطابق چین اس کی تعمیر کے لیے امداد دے گا مگر بعد میں یہ امداد بھی کمرشل لون میں تبدیل ہو گئی جو پیپرا رولز کی خلاف ورزی ہے۔ حکومت نے چین کے ساتھ ایک انٹر گورنمنٹل فریم ورک ایگریمنٹ سائن کیا جس کے تحت  اورنج لائن کو سی پیک منصوبے کا حصہ بنا دیا گیا جبکہ قانونا حکومت کو یہ اختیار ہی حاصل نہ تھا ۔ بعد ازاں چین میں سے ہی دو کمپنیوں سے بڈ لی گئی اور CR۔ NORINCO .کو یہ منصوبہ دے دیا گیا دونوں چینی کمپنیوں نے کمال ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا اور ایسی بڈ دی جس میں چوائس خاصی مشکل ثابت ہوئی۔ ایک کمپنی نے2.30 بلین ڈالر دوسری نے 2.23 بلین ڈالر کی بڈ دی جبکہ فزیبیلیٹی رپورٹ کے مطابق یہ 1.62 بلین ڈالر تھی۔ یہاں یہ امر دلچسپ ہے کہ چائینہ ریلوے 2013 میں قائم ہوئی اور NORINCOایک اسلحہ ساز کمپنی ہے یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ اسے کس طرح یہ ٹھیکہ دے دیا گیا۔ اب سارے معاملے میں نیسپاک کو دیکھا جائے تو اس کو ٹھیکہ دینے کے بعد چینی کمپنی کو دے دینا اس کی اپنی اہلیت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔NESPAK کو کنسلٹنٹ بھی PEPRA قوانین کی خلاف ورزی کر کے لگایاگیا۔منصوبے کا پی سی ون کہتا ہے کہ اس کی لاگت 162 ارب ہی ہے اور وزیراعلی تو دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے قوم کے 78 ارب بچالیے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس پراجیکٹ میں کیا اتنا منافع تھا ؟ ۔۔۔ اگر فرض کریں کہ اتنا منافع تھا جو انھوں نے بچا لیا تو پھر اس کا مطلب ہے کہ یہ منصوبہ انتہائی ناقص اور ریت کی دیوار ثابت ہوگا۔

اب اس منصوبے کو چلانے کے لیے یقینا بجلی بھی چاہیے ہو گی اس پراجیکٹ کے لیے 73 میگا واٹ بجلی کی ضرورت ہو گی ۔ توانائی کے بحران کے شکار عوام کو یہ تو بتایا جائے کہ وہ بجلی کہاں سے آئے گی اگر وہ لاہور کی بجلی سے کاٹ کر دی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ لاہور کی لوڈ شیڈنگ میں گھنٹوں کا اضافہ اور اگر نیا پلانٹ لگایا جائے گا تو اس کے لیے بارہ سے پندرہ ارب روپے لاگت آئے گی۔ دوسری طرف جن سڑکوں پر اورنج لائن تعمیر کی جارہی ہے ا ن میں ملتان روڈ پر گیارہ ارب اور جی ٹی روڈ پر تین ارب خرچ کر کے حال ہی میں ان کی تعمیر کی گئی اور اب یہ سڑکیں دوبارہ بنائی جائیں گی یعنی ستائیس کلومیٹر کی سڑک کی دوبارہ تعمیر ہو گی مگر اس کا پی سی ون سامنے نہیں لایا گیا کہ اب اس پر کتنا ارب روپے خرچ ہوں گے جبکہ اس پر پچاس کروڑ روپے لاگت سے پھول پودے ، ایل ڈی اے کو مشینری کے لیے پچیس کروڑ ، پچیس کروڑ کی میڈیا کمپین یعنی میڈیا پر نوازشات اور پچیس کروڑ منصوبے پر کام کرنے والے چائینیز کی سیکیورٹی پر خرچ ہوں گے۔ اس منصوبے کے ماحولیات پر ہونے والے اثرات پر نظر ڈالی جائے تو وہ بھی خاصی پریشان کن ہیں۔

اس منصوبے سے دس ہزار لوگ متاثر ہوں گے اس سے سکول ، ہسپتال ، پارک اور نجی رہائش گاہیں متاثر ہوں گی۔اس منصوبے سے اہم تاریخی مقامات بری طرح متاثر ہوں گے جن میں شالامار ، بابا موج دریا ، چوبرجی ، سپریم کورٹ ، سینٹ اینڈریو چرچ ، جی پی او بلڈنگ اور گلابی باغ سمیت اہم مقامات شامل ہیں۔ تاریخی عمارات کے تحفظ کے لیے بنائے گئے اینٹی کوئیٹیز ایکٹ کے تحت تاریخی عمارات سے دو سو فٹ کے فاصلے تک کوئی تعمیر نہیں کی جاسکتی مگر اس منصوبے میں اس کی مکمل خلاف ورزی کی گئی اور شالامار باغ جو عالمی ورثے کی حیثیت رکھتا ہے اس کی بنیادوں سے تیس فٹ کے فاسلے پر یہ منصوبہ تعمیر کیا جا رہا ہے ، جس پر یونیسکو کی جانب سے بھی شدید ردرعمل آیا مگر حکومت پنجاب نے ایک کان سے ڈالی دوسرے سے اڑا دی حتی کے لاہور ہائی کورٹ نے تاریخی مقامات کے دو سو فٹ کے فاصلے پر اورنج لائن کی تعمیر پر پابندی عائد کی تاہم اس فیصلے کو بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت کو عدالت عظمیٰ سے کوئی ریلیف مل سکتا ہے یا نہیں۔

منصوبے میں وفاقی حکومت کی دلچسپی بھی حیران کن طور پر نظر آتی ہے اورنج لائن ٹرین صوبائی حکومت کا منصوبہ ہے مگر لاہور ہائی کورٹ میں اس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کے وکلا خصوصا اٹارنی جنرل آف پاکستان جس طرح موجود رہے اور کوشش کرتے رہے کہ فیصلہ پنجاب حکومت کے حق میں آئے وہ بھی ایک الگ ہی داستان ہے۔ اٹارنی جنرل کی کیس میں مسلسل موجودگی فریقین کے لیے حیرت کا باعث بھی بنی رہی کہ نہ تو اس کیس سے وفاقی حکومت کا کوئی تعلق تھا اور نہ ہی عدالت نے اٹارنی جنرل کو طلب کیا اس کے باوجود اٹارنی جنرل ملک بھر کے اہم ترین مقدمات کو چھوڑ کر اس کیس میں پنجاب حکومت کی معاونت کرتے رہے . دلچسپ بات یہ ہے کہ منصوبے پر کام اگست 2015 شروع ہوا اور محکمہ آثار قدیمہ سے این او سی نومبر میں حاصل کیا گیا جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کھربوں روپے کا یہ پراجیکٹ کس طرح غیر سنجیدگی اور شخصی احکامات پر قوانین اور فزیبلیٹی رپورٹ کے برخلاف تعمیر کیا جار ہا ہے اور قانون کی دھجیاں بکھیریں گئیں ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں