آج سے پہلے بھی میں فریاد کناں تھا کہ کیسےکیسے بے ادب جہلا جو وزن‘ قافیے‘ ردیف یا بحرکے وجود کولغو قراردیتے ہیں ۔۔۔۔ کیسےاردو شاعری کوادب کے کوٹھے پربٹھا کر اس کی آبروریزی کر رہے ہیں اوران کی ضمیر فروشی کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنی فکری جریان کی ناپاکی سےغالب اور اقبال سے فیض اور فراز تک سب کو آلودہ کرتے ہوئے نہ احساس گناہ کا شکار ہوتے ہیں نہ ندامت جرم محسوس کرتے ہیں۔ان کی مثالیں دیگر احباب کے لیےجتنا باعث تشویش ہیں ادبی کرپشن کا یہ کاروباراتنی ہی تیزی سے فروغ پذیر ہے۔
یہ فیس بک ہے مری عدالت
جہاں پہ دائرہے کیس میرا
مجھے یقیں تھا صداقتوں کو
گواہ کی یا وکیل کی تو
کوئی ضرورت نہیں پڑے گی
معاملہ کچھ عجب ہوا ہے
تمام مجرم بنے ہیں منصف
گواہ سب منحرف ہوئے ہیں
اکیلا میں رہ گیا ہوں مجرم
میں نے آج وقفے وقفے سے دو پوسٹ اس صورت حال کی سنگینی کو مزید واضح کرنے کیلۓ اپنی وال پر ڈالیں ۔۔ایک میں علامہ اقبال کے ساتھ جو بد فعلی ـ(میں یہ لفظ استعمال کرنے پر اللہ سے مرحوم سے اور آپ سب سے معافی کا خواستگار ہوں) کی گئی ہے وہ ’شاعر‘ کے نزدیک ذاتی مذہبی وابستگی کے موثراظہار اور تبلیغ حق کیلے ’’ایک دم جروری‘‘ تھی۔دوسری عبرتناک مثال ایک حدیث کی ایجاد ہے جس کا پردہ کسی نامعلوم محسننے چاک کیا ورنہ میرے جیسا ہرابو جہل اس کی صداقت پر ایمان نہ لاتا تو کیا کرتا۔
۔اپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اپنے ’علم‘ سے معاشرے میں نمایاں ہونے کی دیوانہ وار آرزو نے کس طرح دین کا وہ استعمال رائج کر دیا ہے جس کے سامنے خواتین کی آبرو کے دلال بھی معزز محسوس ہوتے ہیں۔
اس کے بعد کیا ہوگا؟ قرب قیامت کی نشانیوں پرسے تو خلق کا اعتبار بہت پہلے اٹھ چکا جب نسل بعد نسل ہم جیسے پچھلی صدی کے لوگوں کی بات مذاق بنتی چلی گئی۔ایسا سوچنا بھی مجھے تو گناہ کبیرہ ہی لگتا ہے کہ (نعوذ باللہ) کہ کوئی عربی زبان میں فیس بک پر کوئی قرآن کی آیت نعوذ بااللہ اپنے پاس سے بنا کے ڈالدے اورفیک آئی ڈی کے باعث اس کا توہین مذہب اورتوہین رسالت کا قانون بھی کچھ نہ بگاڑ سکے لیکن اس مقدس کتاب الہٰی کو طاق نسیاں پر سجا کے مسلمان رہنے والوں میں وہ عالم قرار پائے۔آپ کیا سمجھتے ہیں اس دن قیامت آجائےگی؟۔
میرا عقیدہ کامل ہے کہ وہ دن کبھی نہیں آئےگا لیکن حدیثِ رسول ﷺ کی حرمت بھی بحیثیت مسلمان ہم پرواجب ہے اور میری خواہش اور درخواست ہے کہ آپ اس وڈیو کو زیدہ سے زیادہ شیئر کریں اوراس کارخیر کو جہاد سمجھیں۔برائی کو روکوجب تک تم خود نہیں مٹ جاتے۔