The news is by your side.

غربت کی چھری سے ذبح ہونے والے کیا کھائیں

ہر سال جب عیدِ قرباں آتی ہے تو اپنے اپنے خیال کے مطابق کچھ لوگ قربانی کا مطلب اور مقصد اپنی اپنی بصیرت و فہم کے مطابق اخذ کرتے ہیں۔ میں لکیر کا فقیر باپ دادا کے مسلک پر قائم رہنے میں ہی عافیت تلاش کرتا ہوں اوران معاملات میں فیس بک پر اظہار رائے کرنے والوں سے اختلاف یا اتفاق کے جھمیلے میں نہیں پڑتا۔

فیس بک کی ایک شہری خاتون نے بڑے طنزیہ اور پر تمسخر لہجے میں لکھا کہ وہ کون ہیں آخر جو قربانی کے گوشت کو فریزر میں رکھ کے ’دو تین ماہ‘ کھاتے ہیں۔۔’’(اوئے !کون لوگ او تسی؟)‘‘۔۔ تو پہلے میں نے اعتراف کیا کہ ایسے لوگ میرے گھر میں نہ سہی خاندان اور پاس پڑوس میں بہت ہیں جو تین ماہ تک قربانی کے گوشت کو فریزر سے نکال کے استعمال کرتے ہیں اور دلیل بھی رکھتے ہیں کہ سب تقسیم کرنا فرض نہیں۔۔بطور خاص میں نے ایک خاتون کا ذکر کیا (اللہ ان کی مغفرت کرے) جو کراچی میں میرے گھر کے سامنے بالکل اکیلی رہتی تھیں اور ایک بقرعید کے گوشت کو اگلی بقر عید تک چلاتی تھیں۔

عموماً گوشت بچا کے رکھنے کی وجہ گوشت کا بہت مہنگا ہونا ہے۔۔مہنگائی کا بڑھنا ایک مسلسل عمل ہے ۔کتنی ناقابل یقین لگے گی میری بات کہ پاکستان آنے سے پہلے میں ہر روز بکرے کا آدھا پاو گوشت ڈھائی آنے میں لاتا تھا جو ماں باپ اورہم دو بھائیوں کی فیملی کو کافی ہوتا تھا، اس سے زیادہ ہم افورڈ نہیں کر سکتے تھے۔ چار پانچ بوٹیوں کا آلو مولی شلجم کے ساتھ شوربہ دار سالن بنتا تھا۔جب میں دہلی سے پاکستان آیا تو لاہور میں یہی نرخ تھے۔گائے کا گوشت نصف ریٹ پر ملتا تھا یعنی 5 آنے(30 پیسے) سیر جو’غریب‘ کھاتے تھے۔اب اسلام آباد میں گاے کا ریٹ 600 روپے کلو اور بکرے کا 1200 ہے۔

اس وقت وہ جن کے لیے صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا۔۔ گوشت کھانے کی عیاشی کو افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔ غربت کی اس انتہا کا اندازہ مجھے ایک بار کراچی میں ہوا، جب میں نے قربانی کے گوشت کو غربا میں تقسیم کیا۔جہاں میں رہتا تھا وہاں گوشت مانگنے والے آہی نہیں سکتے تھے جو عام محلوں میں گھر گھر دستک دیتے پھرتے ہیں۔میں نے آدھا آدھا کلو کے حصے اخباری کاغذ میں پیک کرائے اور سہراب گوٹھ پر ایدھی سنٹر کے سامنے پہنچ گیا جہاں کثیر تعداد میں واقعی مفلس مرد عورتوں کا ہجوم تھا۔جیسے ہی میں نے گاڑی روکی وہ تاڑ گئے اور میرے ٹوکری نکالنے تک ایک درجن سے زیادہ افراد چیل کوؤں کی طرح حملہ آور ہوچکے تھے۔ ان میں سے ایک عورت بری طرح رگڑی گئی۔ باقی حسرت کی تصویر بنی دیکھتی رہیں۔ میں چلاتا ہی رہ گیا کہ لائن بناو، عورتوں کو بھی آنے دو۔

ایسا وہاں آنے والی ہر گاڑی کے ساتھ ہو رہا تھا۔پھر ایک بار اپنا حصہ لینے والے شکر کر کے چلے نہیں گئے۔ طاقتور کا راج تھا۔۔کچھ دس حصے بھی لے گئے ہوں گے تو کچھ تمام دن کی خواری کے بعد خالی ہاتھ لوٹے ہوں گے اور بچوں کو تسلی دی ہوگی کہ آئندہ سال بقر عید کا گوشت ضرور ملے گا۔۔اس میں ذرہ بھر مبالغہ نہیں۔۔ میرے ایک جاننے والے نے بتایا کہ پرانی سبزی منڈی پر افغان خیمہ بستی میں جب حاجت مندوں کی یلغار ہوئی تو اس کے کپڑے پھٹے،عینک ٹوٹی اورپرس اور موبائل بھی نکل گئے ۔ایک بار رمضان میں مہینے بھر کا راشن مفت لینے والی خواتین کے اژدہام میں 4 کچل کر ہلاک ہوگئی تھیں۔

غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے سفید پوش کی محرومی کا اندازہ مجھے ایک بار کراچی کے ’سرجانی ٹاون‘ میں بھی ہوا۔وہاں ’خدا کی بستی‘ انتہائی مفلوک الحال افراد کی کچی آبادی ہے۔میری جاننے والی ایک نیک دل خاتون پروین راو ٔ وہاں ’ایک روپیہ ماہانہ‘ پر تعلیم دیتی تھیں جس میں کتا بیں کاپیاں بھی فراہم ہوتی تھیں۔کسی نہ کسی کی مدد سے وہ ٹین کے سائبان والی عمارت بنانے میں کامیاب ہو گئی تھیں جس میں کلاس روم الگ الگ تھے۔میں ان کی غریبانہ سی ’سوزوکی ایف ایکس‘ میں گیا تو میرا گزرایک ریگستان سے ہوا جہاں میری آنکھوں نے ایک عجیب نظارہ دیکھا۔ گاڑی کی کھڑکیاں بند تھیں لیکن ریت سامنے والے ونڈ اسکرین پر ایسے بہہ رہی تھی جیسے بارش کا پانی۔

اندر مجھے سانس میں گھٹن محسوس ہوتی تھی۔۔اس ’خدا کی بستی‘ میں 60 یا 80 گز کے پلاٹ تھے جو بیچے نہیں جا سکتے تھے۔ کچی پکی جھگیاں قطاروں میں تھیں اور گلی شاید 20 فٹ چوڑی ہوگی۔مجھے بتایا گیا کہ یہ بستی ٹاؤن پلاننگ میں شہرت یافتہ مرحوم تسنیم صدیقی نے بسائی تھی اور یہ اقوام متحدہ کے ’غربت مٹاؤ‘ پروگرام کا حصہ تھی۔

گھروں میں نلکے نہیں تھے۔اجتماعی ضرورت پوری کرنے کے لیے وہاں زمین سے 3 فٹ اونچا ایک پکا واٹر ٹینک بنادیا گیا تھا تھا جس میں کبھی کبھی کوئی واٹر ٹینکر پانی ڈال جاتا تھا ۔ اس سے قطار میں رکھے برتن بالٹیاں گھڑے جتنے بھر جائیں ،ان کی قسمت ۔ بجلی کا نظام یہ تھا کہ بجلی کمپنی کے مجاز ٹھیکیدار کا کارندہ ہر گھر سے صبح دس روپے وصول کرنے آجاتا تھا۔اس سے دن بھر ایک پنکھا ایک ٹی وی چلانے اور رات کو ایک بلب 60 واٹ کا جلانے کا اجازت نامہ مل جاتا تھا ورنہ فوراً کنکشن کاٹ دیا جاتا تھا ۔ ’کنڈے والی‘مفت کی بجلی کا یہ کنکشن اس بستی کے لیے دو کلو میٹر دور واقع بجلی کے پہلے کھمبے سے لایا گیا تھا تھا۔میں نے سڑک کے ساتھ ساتھ بجلی کے موٹے موٹے تار پڑے دیکھے جو خدا کی بستی تک بجلی فراہم کرتے تھے۔قانونی کارروائی کا کوئی خطرہ نہ تھا لیکن دکھانے کو اس ٹھیکیدار نےایک پرانا جنریٹر لگا رکھا تھا جس کو چلتا کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ اب وہ چلنا جانتا ہی نہیں ہوگا۔ وہاں بھی جو’دولت مند‘تھے۔وہ دس کے بیس دے کر پنکھے کے علاوہ فرج چلالیتے تھے۔

میرے سامنے ایک میٹرک پاس استانی جو گزشتہ ایڈوانس کی قسط کٹوا رہی تھی ایک اور ایڈوانس کے لیے منت سماجت کرتی رہی تاکہ اس کے گھر میں بھی چھوٹا سا ٹینک بن جائے تو چار مل کر خریدے گئے واٹر ٹینکر کا چوتھائی لے لیں۔میری وہاں موجودگی میں ایک خدا ترس صاحب ثروت مولانا سوزوکی میں آٹے کی بوریاں بھر کے لائے ۔ جب وہ تقسیم ہورہی تھیں تو ایک شخص نے پوچھ لیا کہ ’’آپ چاول نہیں لائے‘‘۔ آتا تقسیم کرنے والے کا پارہ چڑھ گیا۔۔’’تم ناکارہ ناشکرے لوگ۔۔آٹا ملے تو چاول مانگتے ہو۔۔چاول ملیں گے تو پلاؤ مانگوگے۔۔پلاؤ ملا، تو کہو گے زردہ نہیں ہے ساتھ؟ ‘‘۔تمہارا انجام اس راندۂ درگاہ قوم کی طرح ہوگا جس پر اللہ تعالیٰ من و سلوےٰ اتارتا تھا تو انہوں نے شکوہ کیا کہ ہم یہ کھا کھا کے اکتا گےؑ ہیں۔”۔۔۔اب یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس نے سخاوت کا اجر زیادہ دیا یا بد کلامی کا گناہ لیکن مجھے معلوم ہو گیا کہ سوال کیوں کیا گیا تھا۔۔خدا کی بستی کے رہنے والوں کے لیے چاول کھانا وہ عیاشی تھی جو وہ افورڈ نہیں کر سکتے تھے۔

اب یہ خود افلاس کی چھری تلے قربان ہونےوالے۔۔۔ جن کو سفید پوشی ہاتھ پھیلانے سے بھی روکتی تھی ۔ کیسے عید پر قربانی کر سکتے تھے اورکیسے گوشت خرید کے کھا سکتے تھے؟ اس پر بھی بھلا یہ قربانی کا گوشت کئی مہینے رکھ کر نہ کھائیں تو کیا کریں۔

 

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں