سال1960کی بات ہے، میں چائے پینے پاک ٹی ہاؤس میں گیا تو ایک کونے کی میز خالی نظر آئی، کچھ دیر بعد سامنے والی کرسی پر بھی ایک شخص آ بیٹھا، رسمی سلام دعا کے بعد گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو پتا چلا کہ وہ نقوش کے مدیر محمد طفیل ہیں، کہنے لگے ’’حلقہ ارباب ذوق کا میرا جی ڈے ہے، چلو گے؟‘‘ میں ان کے ساتھ ہولیا۔
چند قدم دور موڑ پر مال روڈ تھی جس کے کونے پر اسلحہ فروش آج بھی ہیں، اوپر وائی ایم سی اے ریسٹورنٹ میں تقریب تھی جس میں گنتی کے چند شرکاء تھے۔ فیض صاحب1949کے پنڈی سازش کیس میں چار سال کی جیل کاٹ کر مزید محترم ہو گئے تھے، وہ آئے تو ان کے ساتھ سبط حسن بھی تھے اور ان کے ساتھ سائے کی طرح رہنے والے سی آئی ڈی کے دو کارکن بھی۔
انہیں اس کی ذرا پروا نہ تھی، لباس کے معاملے میں فیض صاحب ہمیشہ کی طرح ایک بشرٹ اور پتلون میں اور سبط حسن بہترین سوٹ اور فیلٹ ہیٹ میں پائپ پیتے ہوئے، اس مثلث کا تیسرا ضلع خواجہ خورشید انور بعد میں آئے۔ اب میں نے انجمن ترقی پسند مصنفین میں بتایا کہ سبط حسن سے مل چکا ہوں تو خود بے حد محترم ہوگیا۔
فیض صاحب آخری بار چین کے قومی دن پر سفارت خانے میں نظر آئے تو ایک صوفے پر تنہا بیٹھے تھے، ایک ہاتھ میں جام دوسرے میں سلگتا سگریٹ۔ اِرد گرد دس بارہ افراد نیم دائرے میں کھڑے ان کو عجیب عقیدت اور محبت سے بس دیکھے جا رہے ہیں، کسی میں ہمت نہیں کہ وہ اتنے بڑے آدمی کے ساتھ جا بیٹھے حالانکہ ان کی انکساری اور خوش مزاجی وہ صفت تھی جس کا اعتراف ان کے دشمنوں نے بھی کیا ، وہ ساتھ بیٹھنے والے کی عزت و تکریم کرتے لیکن پرستش کرنے والوں کے نزدیک وہ دیوتا سمان تھے، ان کے ساتھ کیسے بیٹھا جا سکتا تھا۔
بہت بعد میں یہی منظر میں نے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے ساتھ بھی دیکھا، ڈاکٹر منظور احمد کی بیٹی کی شادی تھی اور وہ تنہا صوفے پر تھے، تین وائس چانسلر جمیل جالبی، احسان رشید اور ڈاکٹر منظور ان کے سامنے دست بستہ کھانے کی پلیٹ لیے کھڑے تھے کہ وہ کسی ایک سے لے لیں، وہ تینوں شاگرد تھے اور استادِ محترم کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے تھے، شادی کے کچھ شرکا آئے، جھک کر ڈاکٹر سلیم الزماں سے ہاتھ ملایا اور چلے گئے، ان میں راقم بھی تھا۔
عزت کیا ہوتی ہے جو اَز خود دل سے ملتی ہے، کسی تبلیغ اور لابی یا میڈیا کی سپورٹ کے بغیر۔ اس کی ایک جھلک میں نے فلم فیئر ایوارڈ کی کسی تقریب میں دیکھی جب مفلوج اور بوڑھے استاد بسم اللہ خان سفید پاجامہ کرتا اور ٹوپی میں وھیل چیئر پر لائے گئے (ان کو پنڈت نہرو نے15 اگست1947کو پرچم کشائی کے وقت شہنائی بجانے کے لیے ساتھ رکھا تھا)۔
اُسی وقت شوبز کے گلیمر سے چمکتا دمکتا، تالیاں بجاتا خوش پوش مجمع ایک دم کھڑا ہو گیا، استاد بسم اللہ خان جھک جھک کے تسلیمات بجا لاتے آگے بڑھتے گئے لیکن نوجوانوں کا وہ مجمع اس وقت تک عقیدت سے کھڑا تالیاں بجاتا رہا جب تک وہ اسٹیج پر نہیں پہنچ گئے۔
اسٹیج پر کیمرے نے فوکس کیا تو ان کی بوڑھی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، سونے یا چاندی کا ایک تمغہ اس عزت کے آگے کیا چیز ہے، سرکاری طمطراق اور بینڈ باجے یا اکیس توپوں کی گھن گرج کے ساتھ ملنے والی مصنوعی عزت کی کیا اوقات ہے؟
عزت جو مرنے کے بعد بھی ملی، ان میں چار افراد کا شمار کیا جاسکتا ہے، شرکا کی تعداد کے ریکارڈ کے حوالے سے چرچل کا جنازہ، یوگو سلاویہ کے مارشل ٹیٹو کا جنازہ، مصر کے صدر ناصر کا جنازہ اور لیڈی ڈایانا کا جنازہ۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں