اخباروں میں پڑھتا ہوں، ٹی وی پر دیکھتا ہوں۔ اجنبی دیس کے خوش پوش، خوشحال اور خوش باش مردو زن گلیوں میں نکل آئے ہیں اور ایک دوسرے کو دیوانہ وار گلاب کے پھول مار رہے ہیں اوربچوں جیسی معصوم خوشی کے ساتھ ہنس رہے ہیں۔
گلیاں اور بازار گلاب کے پھولوں سے مہکتے فرش بن گئے ہیں۔ کسی چہرے پر ملال نہیں، فکر و غم نہیں تعصب نہیں، ہونٹوں پر حرف ملامت نہیں شکایت نہیں، زندگی جو مسلسل بقاء کی خود غرضانہ سفاک جنگ ہے ایک دن کے لیے گلابوں کی جنگ بن گئی ہے ،گلاب کی خوشبو اور ہونتوں پر مہکتے گلابوں کی ہنسی بن گئی ہے۔
اور یہ کیا کم پاگل ہیں جو جھولیاں اور بوریاں بھر بھر کے ٹماٹراٹھائے اپنےگھروں سے نکل آئے ، ہیں آج ٹماٹروں کی جنگ کا تہوار ہے۔ کیا عورت کیا مرد سب ایک دوسرے کو تاک تاک کے ٹماٹر مار رہے ہیں ان میں عوام بھی ہیں خواص بھی۔ سرکاری حکام بھی اور تاجر صنعتکار بھی ۔وہ ایک فتنہ محشر نے دادا جان کی عمر والے کو تاک کے آدھا پاو ٔکا ٹماٹر مارا جو ناک کے نشانے پر لگا اور مونچھوں کی لالی بن گیا۔ دادا نے ذرا دیر نہ کی اور در جواب آں غزل پاو ٔبھر کاٹماٹر فی البدیہ عرض کیا تو ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتی حسینہ کا چہرہ ہی ٹماٹر ہوگیا ۔شام تک گلیوں بازاروں میں ٹماٹر کا کیچڑ بھر جاتا ہے جس میں لوگ گرتے ہیں اور اٹھتے ہیں تو کسی کے منہ پر بھی وہ کیچڑ مل دیتےہیں ۔جب صبح ہوگی تونہ کہیں ٹماٹر کی بو ہوگی نہ کوئی بدنما داغ نظر آئے گا۔
یا اللہ خیر۔۔ یہ کون دیوانے ہیں؟ جان بچانے کے لیے ایک ہجوم گلی کوچوں میں دوڑ رہا ہے اور خطرناک سینگوں والے ناک سے خوں خواری کے جھاگ اڑاتے تندرست و توانا بیل ان کا تعاقب کر رہے ہیں کہ خوفزدہ شکار کو سینگوں پر اٹھالیں اور بھاگنے والوں کو روند ڈالیں، جو انہیں ڈاج کر رہے ہیں۔ دائیں بائیں ہوکے پسلیاں ٹوٹنے سے بچا رہے اور ہنستے بھی جارہے ہیں۔ پھر بھی جو نشانہ بنتا ہے اور زخمی ہوتا ہے اسے فورا سرکاری انتظام والی ایمبولنس ہسپتال پہنچاتی ہے۔ کھیل میں پولیس بھی شامل ہے۔
اس منظر پر کچھ لوگ تو ہنس ہنس کے دہرے ہوجائیں گے۔کچھ اس بے حیائی پر لاحول پڑھیں گے۔شوہروں کی دوڑ میں سب اپنی اپنی بیویوں کو کمر پر لادے دوڑے جا رہے ہیں۔کیا جوان کیا عمر رسیدہ۔۔ چھوٹی بڑی گوری کالی ہلکی بھاری بیویاں گلے میں ہاتھ ڈالے کمر پر سوار ہیں ۔۔سب کا ہنس ہنس کے براحال ہے۔ کچھ ریس شروع ہوتے ہی گر جاتے ہیں۔کچھ درمیاں میں لیٹ جاتے ہیں ۔جوان شوہر اور ہلکی پھلکی بیوی کا ریس جیتنا لازمی نہیں پریکٹس زیادہ کام آتی ہے ۔
اور کیا بتاؤں۔۔یہ اسی دنیا کی مختلف اقوام کے تہوار ہیں آپ نے بھی ٹی وی کے خبرناموں میں ان کی جھلک ضرور دیکھی ہوگی۔یہ تو مجھے بھی معلوم نہیں کہ کون سا تہوار کس قوم کا ہے۔۔ لفظ قوم پرتوقف فرمائیے۔ کہیں کسی تہوار میں مذہب کی قید نہیں، عقیدے اور گورے کالے کی شرط نہیں، تہوار کا متبادل مجھے انگریزی میں فیسٹول ملا۔تہوار وہ ہے جس میں ایک ملک کی جغرافیائی حدود میں سب رہنے والے شریک ہوں۔۔ہم عید بقرعید مناتے ہیں تو ہندو دیوالی دشہرہ جبکہ کرسچن ایسٹر اور کرسمس کی مبارک بادیں سمیٹتے ہیں ۔ باقی قومی دن ہیں جو سب کے لیے ہیں۔۔23 مارچ۔۔14 اگست۔۔6 ستمبر وغیرہ۔
وہ زمانہ خواب ِفردا ہوا جب ہم صبح منہ اندھیرے گھر سے نکلتے تھے کہ پنڈی کی مال روڈ پر ترجیحاً پلازا سینما کے پاس فٹ پاتھ پر سب سے آگے کہیں جگہ پکڑ لیں مگر کامیابی کم ہوتی تھی ،شاید نصف شب کے بعد ہی باہمت لوگ وہاں جگہ پکڑنے پہنچ جاتے تھے۔
وہ پاکستانی قوم تھی، پر جوش پراورپرعزم۔آٹھ بجے تک سڑک کے دونو ں طرف میلوں تک ٹھٹھ لگ جاتے تھے ۔پھر فوجی پائپ بینڈ کا پہلا دستہ رنگ برنگی پوشاک کے ساتھ نمودار ہوتاتھا، آگے کلف لگی مونچھوں والا اکڑا ہوبیڈ ماسٹر جس کو اپنے گرز جیسے عصا کو گھمانے پھرانے اور دس گز ہوا میں اچھال کے دیکھے بغیرپکڑلینے کی حیرت انگیز مہارت حاصل ہوتی تھی۔اس کے پیچھے مشینی انداز میں قدم اٹھاتے جوان۔۔پھر دوسرا بینڈ،بالکل مختلف وضع قطع کے ساتھ ۔۔ایک بہت بڑے پیٹ پر ٹکے ڈرم کی گونج۔۔اس کے بعد ٹینک اور توپیں۔۔ اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے سنسنی خیز نعرے اکثر بارش برستی اور پانی گرتا رہتا مگرہجوم کو احساس بھی نہ ہوتا۔ یہ ہمارا قومی تہوار تھا جس کی فقط یاد کا عکس باقی ہے۔
میرے بچوں کو یاد ہے کہ 7 ستمبر کو وہ یوم فضائیہ پر ماری پور جاتے تھے تو ہوائی جہازوں پر چڑھ کے کھیلتے تھے۔23 مارچ کی پریڈ پر وہ ٹینکوں پر سوار ہو جاتے تھے جو قائد اعظم کے مزار پر کھڑے ہوتے تھے،اب یہ سب کہیں نہیں ہوتا یا ہوتا ہے تو سخت سیکیورٹی کے حصار میں صرف علامتی طور پر ہوتا ہے۔قوم کی لیے صرف سیکیورٹی ہے جو اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے ہمارے اعصاب پر سوار ہے۔
بسنت کا قومی تہوار کبھی مذہبی نہ تھا۔۔یہ آمد بہار کا موسمی تہوار تھا۔مجھے لاہور کی بسنت یاد ہے جس میں سارا شہر شریک ہو تا تھا دن بھر آسمان پتنگوں کے رنگوں سے بھرا رہتا تھا رات کا اندھیرا آتش بازیوں سے روشن نظر آتاتھا۔ اچانک یہ تہوار غیر مسلم ہوگیا جس کو صدر پاکستان جنرل مشرف بھی لاہور میں میاں صلاح الدین کی ’حویلی بارود خانہ‘ میں رات بھر مناتا رہا تھا۔۔پھر پتنگ’سیکیورٹی رسک‘ اور ممنوع قرار پائی۔
کراچی میں نوجوان نیاسال منانے کچھ ہلہ گلہ کرنے کلفٹن کے ساحل پر جاتے تھے۔ان کے راستے پولیس نے بند کردئے ۔کنکریٹ بلاک اور کنٹینر لگا دئے گئے ۔ ہمارے بچے تخریب کار نہیں ، زندہ دل نوجوان تھے، ان کا ناچنا گانا بھی جرم ہو گیا۔پھر رونق اوردل لگی کی ایک راہ’ویلنٹائن ڈے‘ تھی۔ چاکلیٹ، لال گلاب ، ہنسنا اور محبت کرنا کب ممنوع تھا لیکن اس کو پہلے مذہب نے اور پھر قانون نے جرم بنا دیا سو اب ہمارا کوئی قومی تہوار نہیں۔کیونکہ ہم ایک قوم نہیں، ہمہ وقت خطرات سے گھری بستی کے مکین ہیں جن کے لیے سیکیورٹی ہی سب کچھ ہے۔