جب بھی کوئی خونی کھیل پوری قوت سے کھیلا جاتا ہے اور بیک گراؤنڈ پر اللہ اکبر کے نعرے سنائی دے رہے ہوتے ہیں تو سامنے ایک ہی کمنٹ آتا ہے ۔۔ارے نہیں!کوئی مسلمان ایسے نہیں کر سکتا‘ ارے نہیں کوئی مسلمان ایسا کرہی کیسے سکتا ہے ؟۔۔مسلمان ایسا نہیں کرتے یہ ان کے خلاف سازش ہے۔ لیکن سنیئے ایک بار پھر کسی انسان کا خون کئی انسانوں نے بہایا۔ مار مار کے مار دیا‘ اور پھر بھی مارتے رہے۔ اللہ کی تخلیق کو مٹاتے ہوئے اللہ اکبر کے نعرے بھی بلند کرتے رہے اور اللہ کی خوشی کے لئے حقوق العباد کی دھجیاں بھی اڑاتے رہے۔ اللہ جو ستر ماؤں جتنا پیار کرنے والا ہے اس کا نام لے کر کسی ماں کا لال ہلاک کر دینا۔ کسی بھی دین اور مذہب کی خدمت کیسے ہو سکتی ہے مجھے نہیں پتا۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان میں واقع عبدالولی خان یونیورسٹی میں سینکڑوں طلبہ کے تشدد سے ایک طالب علم کی موت ہوگئی جبکہ ایک طالب علم زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ایسے واقعات میں عموماًاطلاعات آدھی ادھوری ہوتی ہیں، اچھی بات یہ ہے کہ آج کل ویڈیوز منطرِعام پر آ جاتی ہیں لیکن وہ جن کو چاہیے کہ وہ ایسے فساد کو روکنے کے لئے آگے بڑھیں وہ کیمرے کا رزلٹ چیک کر رہے ہوتے ہیں۔
ڈی آئی جی مردان عالم شنواری کہتے ہیں کہ ہلاک ہونے والے طالب علم پر الزام تھا کہ اس نے فیس بک پر ایک پیج بنا رکھا تھا، جہاں وہ توہین آمیز پوسٹس شیئر کیا کرتا تھا۔ اسی الزام کے تحت مشتعل طلبہ نے مذکورہ طالب علم پر تشدد کیا، فائرنگ بھی کی، تشدداور فائرنگ کے نتیجے میں طالب علم ہلاک ہوگیا۔ بظاہر واقعہ سادہ اور سیدھا سا ہی ہے کہ ایک لڑکے نے ایک پیج بنایا جس پر ایک بڑا گروہ مشتعل ہوا اور ایک لڑکے کو مار ڈالا۔ طالب علم کی لاش کو پولیس نے تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے منتقل کردیا۔۔۔بس۔
عمران خان کی افسوس ناک واقعے کی مذمت
ہلاک ہونے والا طالب علم شعبہ ابلاغ عامہ میں چھٹے سیمسٹر کا طالب علم تھا۔اب اس واقعے کے نتیجے میں یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دیا ہے اور دوسرے تمام طالب علموں کو بھی اس خوف کی فضا سے سبق سیکھنے کے لئے گھر بھیج دیا گیا ہے۔کہ واپس آؤ تو ایک ایسی لاش کا انجام ذہن میں رکھنا جسے لاش بننے کے بعد بھی برہنہ کر کے مارا گیا۔
ذرائع کہتے ہیں کہ مشعال (جسے ہلاک کردیا گیا ہے )اورعبداللہ(جو پولیس کی حراست میں تاحال محفوظ ہے)دونوں ماس کمیونیکیشن کے طالب علم تھے، ان دونوں پر فیس بک پر تعصب پھیلانے کا یا اپنے فرقے کی تعلیمات کی تبلیغ کرنے کا الزام عائد کیا جارہا تھا۔ (آئین پاکستان کے مطابق کسی بھی فرقے یا مذہب کا اپنے فرقے یا مذہب کی تعلیمات کی تبلیغ کرنا قابل گرفت عمل نہیں ہے)۔ مشتعل طلبہ نے ہاسٹل کے کمرے میں عبداللہ کو گھیرے میں لیا اوراسے زبردستی قرآنی آیات پڑھانے کے ساتھ اسے تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ پولیس بروقت جائے وقوعہ پر پہنچی اور عبداللہ کو اپنی حفاظتی تحویل میں لے لیا جس کے بعد مشتعل ہجوم نے مشعال کی تلاش شروع کردی جو کہ اس وقت ہاسٹل میں ہی موجود تھا۔عینی شاہد کے مطابق ہجوم نے مشعال کو تشدد کا نشانہ بنایا اور گولی بھی ماری جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہوگیا۔
اس واقعے کی سامنے آنے والی ویڈیو میں مشعال زمین پر بے حس پڑا ہوا ہے اس کے ارد گرد لوگ کھڑے ہیں جو مسلسل اس پر تشدد کر رہے ہیں‘ گالیاں دے رہے ہیں‘ باآوازِ بلند اپنی نیکی بیان کر رہے ہیں اور مرے ہوئے کو مار مار کرثوابِ دارین بھی حاصل کررہے ہیں۔ مشعال کی لاش کو برہنہ کرکے تشدد کیا جا رہا ہے اور بالآخر تشدد زدہ برہنہ لاش پوسٹ مارٹم کے لئے پولیس کی تحویل میں چلی جاتی ہے۔یہ سب ہو رہا اورفضا اللہ اکبر کے نعروں سے گونج رہی ہے۔
مجھے صرف یہ سمجھ نہیں آ رہی کس منہ سے کہوں کہ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا! کوئی مسلمان ایسا ہرگز نہیں کرسکتا‘ یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش ہے۔
اگرآپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تواسے اپنی وال پر شیئرکریں
نوشین نقوی اے آر وائی نیوز سے وابستہ صحافی ہیں ‘ سوالوں کے جواب تلاشنا اپنا صحافتی حق سمجھتی ہیں