چند روز پہلے قابل قدر صحافی مطیع اللہ جان نے ایک خوبصورت کالم لکھا جس میں انھوں نے پانامہ لیکس کی سپریم کورٹ میں براہ راست سنوائی یعنی دائرہ سماعت کے بنیادی خیال سے اختلاف کیا اور اسے ٹیڑھی اینٹ قرار دیا۔ میرےاس سوال پر کہ کیا تصویر یا واٹس ایپ ایشو سے جرم یا بے گناہی ثابت ہو گئی؟ رائی کا پہاڑ بنانا بھی بد دیانتی نہیں؟ آپ نے اپنی ایک خوبصورت ٹویٹ میں فرمایا کہ
If “due process of law” is not given more importance than the “ultimate justice” then get ready for more Taseers & Mashaals. #PanamaJIT
مجھے مطیع اللہ جان صاحب کے کالم سے اسی فیصد اتفاق ہے مگر ان کے بنیادی خیال اور ٹویٹ پر زمینی حقائق کی بنیاد پر اختلاف ہے۔ بلا شبہ ان کی ٹویٹ میں لکھی بات کتابی اور مثالی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس کا آپ کے زمینی حقائق سے بھی کوئی تعلق واستہ ہے؟ چلئے ان کی اس ٹویٹ کے آخری حصے سے ابتدا کرتے ہوئے یہ سوال سامنے رکھتے ہیں کہ مشال خان اور سلمان تاثیر کے قتل جیسے واقعات “due process of law” کو فالو نہ کرنے کی وجہ سے پیش آئے یا اس کی کچھ اور وجوہات ہیں؟۔
میری ناقص رائے میں موب جسٹس یعنی ہجوم کی طرف سے قانون ہاتھ میں لینے کی زیادہ بڑی وجہ “Justice delayed is justice denied” کے مصداق تاخیری انصاف ہے۔ کم از کم ہمارے ہاں ڈیو پراسس آف لا حقیقت تاخیری حربوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ دیکھا جائے تو مندرجہ بالا دونوں مغربی اصطلاحیں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ یعنی جب آپ ڈیو پراسس آف لا کی تکمیل میں بال کی کھال اتارنے کی غرض سے غیر متعلقہ، غیر وابستہ اور مفروضوں کی بنیاد پر غیر اہم اشوز میں الجھ کر سیکنڈری اشوز کو بنیادی اشوز پر ترجیح دینے لگیں گے تو حتمی نتیجہ انصاف میں تاخیر کی صورت ہی برامد ہوگا۔ واضع کرتا چلوں کہ یہاں ڈیو پراسس آف لا کے روایتی مثالی تصور کا رد پیش کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ بنا دیکھے جانچے فیصلے دینا شروع کر دیں۔ کہنے لکھنے کا مقصد محض اتنا ہے کہ بال کی کھال اتارنے یا غیر متعلقہ ثانوی بحث میں الجھ کر بنیادی انصاف میں تاخیر کے عمل کی مشق سے پرہیز ہونا چاہیے۔
ہمارے دوست ارمغان احمد داود نے مطیع اللہ جان صاحب کی ٹویٹ کے جواب میں زیادہ درست اور حقیقت کے قریب بات یہ لکھی کہ مشال خان یا سلمان تاثیر کے واقعات کا ڈیو پراسیس آف لا سے کوئی تعلق نہیں یہ برصغیر میں پایا جانے والا مائنڈ سیٹ ہے جو مذہب کے ساتھ فکری سے زیادہ جذباتی وابستگی رکھتا ہے۔ تاہم ان کی اس بات میں حقیقت کے طور پر یہ نقطہ ضرور شامل ہونا چاہیے کہ ریاستی قانون ہی عوام الناس کو یہ بتاتا ہے کہ توہین کے جواب میں موت کی سزا ہے۔ تو اس ضمن میں تاخیری انصاف کی خامی کی بات پھر بھی متعلقہ رہتی ہے۔
سویپنگ سٹیٹمنٹ کے طور پر ان کی بات اسی صورت درست مانی جا سکتی ہے کہ جب آپ ریاست میں موجود توہین کے قوانین پر نظر ثانی کرتے ہوئے دستوری ترامیم کی طرف بڑھ جائیں۔ بصورت دیگر جب عوام حتمی قانونی سزا سے واقف ہوگی اور جرم ثابت ہونے کے باوجود عملدرامد میں ڈیو پراسیس آف لا کے نام پر تاخیری حربے دیکھے گی تو برسوں بے نتیجہ عدالتی کاروائیوں کے تجربات کی روشنی میں وہ اسی طرح کے نفسیاتی عارضہ میں مبتلا ہوگی اور یہی نتائج برآمد ہونگے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔
دوست ارمغان احمد داود کی یہ بات بھی درست ہے کہ عمومی طور پر ڈیو پراسیس آف لا کو فالو کرنے کی بات قتل کے مقدمات میں ہوتی ہے، جبکہ وہاں بھی بعض صورتوں میں دیکھا جاتا ہے کہ لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر خود بدلہ لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی تاخیری انصاف ایک بنیادی وجہ ہے۔ ورنہ کیوں کوئی زندگی سے پیار کرنے والا شخص پھانسی کا پھندا اپنے گلے میں ڈالنا پسند کرے گا؟ بہر حال فکری طور پر یہ بات بھی کوئی بہت مثالی محسوس نہیں ہوتی کہ آپ پانامہ لیکس کے بد عنوانی کے مقدمے کو توہین (ریاستی قانون کے مطابق سزائے موت) کے مقدمے کے ساتھ نتھی کر کے ڈیو پراسس آف لا کی بات کریں۔ پانامہ لیکس کی سپریم کورٹ میں سنوائی کو لے کر پاکستان میں بعض ماہرین قانون اور دانشور حضرات میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں بن سکتی۔
اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ چونکہ سپریم کورٹ اعلی ترین عدالت ہے اور اس کے بعد اپیل کی گنجائش باقی نہیں رہتی تو سپریم کورٹ کا اس مقدمہ کا سننا ہی درست نہ تھا۔ قانون کا طالب علم نہیں ہوں سو میرا ایک سادہ سا سوال ہے کہ موجودہ بنچ میں سپریم کورٹ کے صرف پانچ معزز جج موجود ہیں تو اپیل کے لیے فل کورٹ ہئیرنگ مطلب فل بنچ کیوں تشکیل نہیں دیا جا سکتا؟ جبکہ ماضی میں اس کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ ان ماہرین کا عذر اس طرح بھی غلط ہے کہ سپریم کورٹ تو خود افتخاری چوہدری کی سربراہی میں اپنے دئیے فیصلے set aside کر چکی ہے۔ تو میں ایک عام شہری کے طور پر یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پانچ ججوں کا فیصلہ حتمی کیسے ہو سکتا ہے یا اس کے خلاف اپیل کی گنجائش کیسے باقی نہیں رہتی؟ جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ جب ہائی پروفائل مقدمات ٹرائل کورٹس میں بھیجے جاتے ہیں تو وہاں کسی بڑے کو تو درکنار کسی ایم پی اے ایم این اے کیخلاف بھی کوئی نظر آنے والے دیرپا انصاف پر مبنی فیصلہ سامنے نہیں آ پاتا۔ بڑا شو مچا جعلی ڈگریوں پر، میڈیا نے آسمان سر پر اٹھائے رکھا، مگر نتیجہ کیا برامد ہوا؟ جعلی ڈگری والے نا اہل ہوئے، ساتھ ہی ضمنی انتخاب میں حصہ لیا اور دوبارہ دو دو سیٹوں پر واپس آ گئے۔
برٹش لا کے تحت پاکستانی وکلا کا کردار دیکھا جائے تو اکثریت کی ذہانت جرم کے تحفظ پر خرچ ہوتی نظر آتی ہے۔ حصول انصاف میں معاونت سے زیادہ انصاف کی راہ میں روڑے اٹکانے کا کام کیا جاتا ہے۔ نئے نئے تاخیری حربے متعارف کروائے جاتے ہیں، مفرضوں کی بنیاد پر انتہائی ثانوی باتوں پر سٹے آرڈرز طلب کیے جاتے ہیں اور افسوس اکثر انھیں سٹے آرڈرز مل بھی جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں لوگ قومی اقدار اور کردار کو مد نظر رکھے بغیر بڑی آسانی سے ترقی یافتہ معاشروں، مغربی نظام عدل اور جمہوریت کی مثالیں دے دیتے۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ جن معاشروں سے موازنہ کیا جا رہا ہے وہاں کی قومی اخلاقیات اور ہماری اخلاقیات کہاں کھڑی ہیں۔ وہاں وزیر اعظم پر بھی پرمعمولی سا الزام سامنے آجائے کہ جس کا وہ تسلی بخش جواب نہ دے پائے وہ مستعفی ہو کر خود ہی گھر چلا جاتا ہے۔ اور ایک ہم ہیں کہ یہ سوچ سوچ کر پاگل ہوئے جاتے ہیں کہ آخر وہ کونسا الزام، کونسی بات ہوگی کہ جس پر کبھی کوئی پاکستانی سیاستدان مستعفی ہونا پسند کرے گا؟ فقط آئینے کے سامنے کھڑے کہہ رہے ہوتے ہیں کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے، محسوس کبھی نہیں کرتے۔
خیر آج وزیر اعظم صاحب جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے جا رہے ہیں اور انصار عباسی جیسے لوگ میاں صاحب کو ہیرو ثابت کرنے کے لیے کچھ ذہن سازی کر رہے ہیں کہ ’’نواز شریف جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونگے اور قانون کی حکمرانی قائم ہوگی‘‘۔ قوم کو پاگل سمجھنے والوں کو صرف اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ وہ خود بہت بڑے پاگل ہیں۔ یہاں وزیر اعظم پھانسی لگا، وزیر اعظم توہین کے دو نمبر مقدمے میں گھر گیا، پولیس تشدد سے آصف زرداری کی زبان کٹ گئی، گیارہ سال بنا کوئی مقدمہ ثابت ہوئے جیل میں محض اس لیے رہا کہ وہ وزیر اعظم کا شوہر تھا، مرتضیٰ بھٹو کو قتل کر دیا گیا کہ وہ بھٹو کا بیٹا اور وزیر اعظم کا بھائی تھا اور کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف کے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے ڈرامے سے قانون کی حکمرانی قائم ہوگی۔ بد دیانت بد کردار منافق لوگ آخر یہ نہیں کہتے کہ میاں صاحب صاف شفاف منی ٹریل یا طرفین کے لیے قابل قبول تسلی بخش جواب پیش کر دیں تو قوم کی گزشتہ ایک سال سے جاری ہیجانی کیفیت ختم ہو جائے گی۔