نسل انسانی کی کسی بھی خود ساختہ شے کی نسبت ’’قوانین ِ حرکت ‘‘ایک بہترین چیز ہیں
یہ الفاظ عظیم فرانسیسی سائنسدان یایلاس نے مشہور زمانہ ماہر ِ طبیعات’آ ئزک نیوٹن‘کے بارے میں کہے تھے ۔ دنیا کا عظیم ترین سائنسداں نیوٹن سنہ 1642 میں کرسمس کے روز انگلستان کے ’’وولز تھورپ ‘‘ نامی مقام پر پیدا ہوا ، اسی برس ’’گلیلیو‘‘کا انتقال ہوا تھا ۔ نیوٹن نے اپنا بچپن انتہائی کسمپرسی کی حالت میں گزارا ، اس کا باپ اس کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو چکا تھا اور کم عمری میں ہی ماں بھی اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔وہ ایک ذہین بچہ تھا مگر اسے مدرسے سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی ، اٹھارہ برس کی عمر میں اس نے کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور پھر اپنی زندگی سائنس اور ریاضیات کے لئے وقف کردی کہ آج صدیوں بعد بھی بچہ بچہ اس کے نام سے آشنا ہے۔
نیوٹن نے ہمیں کائنات کو سمجھنے کے لئے نئی راہیں دکھائیں جنہیں آج بھی بہت عزت و تکریم دی جاتی ہے۔ اِس نے بہت سے نظریات پیش کئے اور اپنے ان نظریات پر تحقیق کرکے بہت سی سائنسی گتھیوں کو سلجھایا ۔ نیوٹن کے یہی قوانین آج سکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جانے والی فزکس کی بنیاد ہیں۔
درسی کتب کے مطابق ایک سیب درخت سے ٹوٹ کر نیوٹن کے سر پر آگرا تو اِس واقعے نے اُسے سوچنے پر مجبور کردیا کہ’’ایسا کیوں ہوا؟‘‘یہ سوال اس کے دماغ میں آنے کی دیر تھی کہ اُس نے جواب تلاش کرنے کے لئے بہت سےمشاہدات و تحقیقات شروع کردیں۔ اِس ’’کیوں‘‘ کا جواب تلاش کرتے ہوئے نیوٹن نے ایک قوت دریافت کی جسے ہم آج ’’گریوٹی‘‘ یعنی کششِ ثقل کے نام سے جانتے ہیں۔
نیوٹن نےہی ہمیں بتایا کہ اِس قوت کی وجہ سے ہی ہم اِس زمینی کرّہ پر ایسے چِپکے ہوئے ہیں جیسے کسی گیند پر کوئی شے چپکی ہو۔ یہ قوت صرف زمین کی ہی نہیں ہے بلکہ سورج بھی زمین سے کئی درجے زیادہ یہ قوت رکھتا ہے جس کے ذریعے نظام ِشمسی کے تمام سیارے سورج کے گرد محو ِ گردش ہیں ۔اس کے علاوہ یہ کشش مختلف کہکشاؤں کے درمیان بھی موجود ہے اور اسی کی وجہ سے بہت سے کلسٹرز یعنی ستاروں کے جھرمٹ بن جاتے ہیں جس میں لاکھوں کہکشاں ہوتی ہیں۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ نیوٹن نے اپنے دماغ میں اٹھے ایک ’’کیوں‘‘ کے سوال سے وہ قوت دریافت کرلی جس کی وجہ سے نہ صرف ہمارا نظام شمسی بلکہ پوری کائنات جڑی ہوئی ہے۔
اگرچہ ہم نہیں جانتے کہ کشش ِ ثقل آتی کہاں سے ہے لیکن ہمیں اتنا ضرور پتا چل چکا ہے کہ یہ موجود ضرور ہے اور باآسانی محسوس کی جاسکتی ہے۔ ایسی قوت کو ’’انٹریسک فورس‘‘ یعنی مخفی(چھپی) ہوئی قوت کہا جاتا ہے۔ نیوٹن نے یہ کششِ ثقل کی باتیں ہوا میں نہیں کی تھیں بلکہ اپنی اِس تحقیق کو اپنی ریاضی کے اصولوں کے فلسلفے پر مرتب کی گئی کتاب Philosophiæ Naturalis Principia Mathematicaمیں لکھا ہے اور فارمولے بھی دیے ہیں جن کی مدد سے ہم کسی بھی دو اجسام کے درمیان اِس قوت کی قدر نکال سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ نیوٹن کے کارناموں میں سے ایک کارنامہ جس نےکائنات کے بارے میں ہماری نظر کے دائرے اور وسیع کردیا ہے۔ یہ کارنامہ ’’دوربین کی ایجاد‘‘ ہے۔ ویسے تو سب سے پہلی دوربین گلیلیو نے بنائی تھی لیکن نیوٹن کی بنائی ہوئی دوربین نئے انداز کی تھی اور زیادہ مفید بھی تھی۔’’ ہبل دوربین‘‘، جو زمین کے گرد چکر لگا رہی ہے، بھی بالکل ایسی ہی ہے۔یہ بھی نیوٹن کی ایجاد کردہ دوربین کے اصول پہ کام کرتی ہے اورآج اسی دوربین سے سائنس کو کائنات کی صحیح عمر کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔ نیوٹن کی دوربین کا انداز اس قدر سادہ اور آسان ہے کہ کوئی بھی آسمان کو دیکھنے کا شوق رکھنے والا اپنے گھر میں بھی ایسی ایک دوربین بنا سکتا ہے۔
نیوٹن نے عام آنکھ کو دکھائی دینے والی سفید روشنی کو بھی چیرکر ہمیں بتایا کہ یہ روشنی سات رنگوں سے مل کے بنی ہے۔ اس دریافت سے ماہرین ِ طبیعات کو روشنی کی ماہیت کے بارے میں بہت سے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے میں آسانی ہوئی اور اس کے علاوہ بہت سی نہ نظر آنے والی روشنی کی قسمیں بھی دریافت کرلی گئی ہیں۔
اگر میں نیوٹن کے تمام کارناموں کی ذکر و تفصیل لکھنا شروع کردوں تو شاید یہ مضمون کسی طویل افسانے کی شکل اختیار کرلے گا۔
ہم نیوٹن کی تحقیقات کی درستی کے دلائل پوری کائنات میں دیکھ سکتے ہیں جہاں بلیک ہول سے لے کر بہت دور کی کہکشاؤں کے حسابات کرنے کے لئے بھی جو بنیادی فارمولے استعمال ہوتے ہیں، وہ نیوٹن اور آئن سٹائن کے تخلیق کردہ ہی ہیں۔