The news is by your side.

نورمحمد کا آخری سفراور اسپتال کی بے حسی

عثمان کو آکسیجن ماسک لگا ہوا تھا ڈاکٹر اس کے ارد گرد جمع تھے ڈاکٹروں کے علاوہ عثمان کے والدین پریشانی کی حالت میں بیڈ کے پاس تھے جبکہ باقی رشتہ داروں کو نرس نے یہ کہہ کر باہر نکال دیا تھا کہ ایمرجنسی ہے سب باہر چلے جائیں اور بالکل بھی شور نہ کریں۔یہ شہر کا سب سے بڑا نجی اسپتال تھا جو ہر قسم کی سہولتوں سے مزین تھا ۔عثمان اس وقت انتہائی نگہداشت کی وارڈ میں تھا‘  عثمان کی والدہ کی آنکھیں آنسوں سے بھری ہوئی تھی اور زیرِلب دعا جاری تھی جبکہ عثمان کے والد نے پریشانی کے عالم میں پورے وارڈ پرنگاہ ڈالی۔

ایک طرف ایک اور مریض کی حالت خراب تھی اور وہاں بھی ڈاکٹر جمع تھے اور وہاں اچانک ذرا سی کھسر پھسر کے بعد ایک نرس نے آکر اس مریض کے بیڈ کے ارد گرد پردے گرا دیئے تھے اس سے ظاہر تھا کہ مریض کی حالت خطرے میں ہے اور پھر وہ مریض دم توڑ گیا اس مریض کے گھروں والوں کو جب پتہ چلا تو انھوں نے چیخنے چلانے کی کوشش کی مگر وہاں موجود عملے نے سختی سے خاموش رہنے کی ہدایت کی کہ باقی مریضوں کو معلوم نہیں ہونا چاہیے کہ موت ہو چکی ہے اس سے دوسرے مریضوں پر نفسیاتی طور پر خوف پیدا ہوتا ہے اور حوصلہ ٹوٹتا ہے پھر ایک اسٹریچر آیا اور لاش کو لے جایا گیا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ یہ مریض نہیں ایک لاش گئی ہے سب نے سمجھا کہ سی ٹی اسکین یا کوئی اور ٹیسٹ کروانے لے جایا گیا ہے۔

دوسری طرف گوجرانولہ شہر کا ایک سرکاری ا سپتال تھا جہاں نور محمد نامی ایک مریض کو ہسپتال لایا گیا اس کی سانسیں اکھڑ رہی تھی اس کی اہلیہ اور بچے پریشانی کے عالم میں تھے اور اسپتال کا عملہ بھی پریشان تھا کیونکہ بڑے ڈاکٹر نے کہا تھا کہ فوری طور پر آکسیجن لگائی جائے مگر اسپتال میں کے سلنڈرز کم تھے اور جو تھے وہ دوسرے مریضوں کو لگے ہوئے تھے نور محمد کی سانسیں مسلسل اکھڑ رہ تھی اور اسپتال میں ہر طرف شور تھا ۔


سرکاری اسپتال کا خاکروب سرجن کے فرائض انجام دینے لگا


ہرکوئی اپنے مسائل کو سلجھانے میں لگا تھا اور اسی دوران نورمحمد کی سانس ڈوری اورزندگی کی لکیر ٹوٹ کر ختم ہو گئی۔ نور محمد کے گھر والوں پرقیامت برپاہوگئی تھی۔ اس کی اہلیہ پریشانی کے عالم میں لاش کے پاس بیٹھی تھی پریشانی کے ساتھ ساتھ سوچوں اور یادوں کا سمندرآنکھوں سے نکل کر فرش پر گر رہا تھا اور وہ اپنے جیون ساتھی کے سفرآخرت کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ گھر میں موجود کس نئی چارپائی  پر نئی چادر کے ساتھ اس میت یعنی اپنے مجازی خدا کو رکھنا ہے اور کس احتیاط اور عزت کے ساتھ رخصت کرنا ہے۔

آخری پنتالیس منٹ سے وہ ان سوچوں میں تھی کہ اچانک اس کے خاوند کی لاش کے ساتھ اسی بیڈ پر کسی اور شخص کو لٹا دیا گیا پہلے ایک دم تو وہ ڈر گئی پھر نرس نے بتا یا کہ ایک مریض ہے اور اسپتال میں مزید کوئی بیڈ خالی نہیں ہے لہذا اپنے خاوند کی لاش کو یہاں سے اٹھائیں۔ نور محمد کی اہلیہ اور بچے ہکا بکا یہ سب دیکھ رہے تھے۔ وارڈ میں موجود باقی مریض بھِی یہ سب دیکھ رہے تھے ۔وارڈ میں پینتالیس منٹ سے ایک لاش موجود تھی اور اسی لاش کے ساتھ اسی بیڈ پر ایک اور مریض پڑا تھا ۔

 

وہ مریض ہوش میں تھا اور اسے معلوم ہو گیا تھا کہ اس وقت وہ ایک لاش کے ساتھ لیٹا ہو ہے اس مریض کے گھر والے ڈرے سہمے یہ سب دیکھ رہے تھے سمجھ نہہں آرہی تھی کہ نور محمد کی بیوہ کو تسلی دیں یا اس پر غصہ کریں ساتھ والا مریض جس نے خود کو لگی گلوکوز کی بوتل اسٹینڈ نہ ہونے کی وجہ سے خود ہی ہاتھ میں اٹھا رکھی تھی وہ کانپتے ہاتھوں کے ساتھ یہ سب دیکھ رہا تھا نور محمد کے گھر والوں نے اسپتال کے عملے سے کہا کہ لاش کو مردہ خانہ کیوں نہیں بیھجا گیا اگر بیڈ نہیں تھا اور جب تک ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنتا اور ایمبولینس کا بندوبست ہوتا تب تک مردہ خانہ میں رکھ دیتے مگر اس اسپتال والوں کے لیے سب روزمرہ کا کام تھا سووہ ٹینشن کیوں لیتے۔

اس مریض کے گھروالے جو لاش کے ساتھ لیٹا تھا وہ وارڈ کے باقی مریضوں کی حالت دیکھ کر اندر سے شکر کر رہے تھے لاش کے ساتھ مریض لیٹا ہے مگر شکر ہے بیڈ پر تو ہے ۔انھیں کیا معلوم تھا کہ جس حلقے میں یہ اسپتال ہے اس حلقے کا ایم این اے ایک وزیر ہے اور سب وزراء سے زیادہ باہر کےممالک کے ریکارڈ ٹور کرتا ہے اور ساتھ اس کا پورا خاندان جہاز کی بزنس کلاس میں سفر کرتا ہے اور وہ وزیر ہر ٹور کے بعد اسلام آباد بیٹھ کر پریس کانفرنس میں بتاتا ہے کہ پاکستان کتنا آگے چلا گیا ہے یہ جانتے ہوئے کہ پچاس لاکھ کی آبادی کے شہر گجرانوالہ میں صرف ایک سرکاری اسپتال ہے جس میں دو سو بستر ہیں۔  غلطی سے اگر کوئی مشین ہے بھی تو خراب ہے اور یہاں  مریض فرش پر یا لاشوں کے ساتھ لٹائے جاتے ہیں۔

رہ گئے نور محمد اور اس مریض کے گھر والے تو وہ بیچارے ہر مصیبت اور مشکل میں بھی خوشی کا پہلو ڈھونڈ نکالتے ہیں کہ شکر ہے لاش فرش پر تو نہیں شکر ہے مریض لاش کے ساتھ ہے دوسرے مریض کے ساتھ تو نہیں دوسرا مریض کھانستا ہلتا جلتا تو ہمارا مریض ڈسٹرب ہوتا لاش ہے بے جان ہے کیا مسئلہ ہے کوئی بھی تو نہیں شہر میں ایک اسپتال ہے تو صحیح۔ میٹرو دوسرے شہر میں ہے تو کیا ہوا سکولوں میں مناسب تعلیم نہیں مگر نہ ہونے سے تو بہتر ہے اور جب اسی شہر کا ایم این اے چم چم کرتی دھول اڑاتی گاڑی میں گذرتا تو یہ لوگ یہ ضرور کہتے ہیں کہ زندگی تو ان کی ہے اور ان پر غصہ کرنے کی بجائے رشک کرتے ہیں ۔ پتہ نہیں کیسے برداشت کرتے ہیں یہ لوگ اورآخر کب تک کریں گے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں