نواز شریف نے جی ٹی روڈ پر مختلف شہروں میں ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ نظام وائرس زدہ ہے اسکو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے انھوں نے کہا یہاں معاشی اور سماجی انصاف نہیں اور یہ کہ پاکستان میں انقلاب لانا ہو گا اور نیا پاکستان بنائیں گے‘ مکان دیں گے وغیرہ وغیرہ۔
یہ سب باتیں سن کر ایک بار تو ایسا لگا جیسے اس وقت اور گذشتہ چار سال سے نواز شریف کی نہیں بلکہ آصف زرداری یا عمران خان کی حکومت ہے جنھوں نے اس ملک کی تباہی نکال دی ہے اور ایسے لگا جیسے آصف زرداری نے چار سال حکومت کرتے ہوئے معاشی ناانصافی کی اور سماجی زیادتیوں کی مثالیں قائم کر دی ہیں اور سب سن کر ایسا لگا جیسے نواز شریف ہی اس ملک اور عوام کے مسیحا ہیں اور یہی اس ملک کو مسائل سے نکال سکتے ہیں ۔
پھر اچانک زور سے جھٹکا لگا اور یاد آیا کہ گذشتہ چار سال سے انھیں نواز شریف صاحب کی حکومت تھی بلکہ اب بھی ہے اور ایک سال مزید رہے گی اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں بھی انھیں کے بھائی کی حکومت ہے تو پھر یہ کونسا انقلاب لانے کی باتیں کر رہے ہیں کس کے خلاف باتیں کر رہے ہیں ۔جب حکومت اپنی تھی اور ہے تو لا کیوں نہیں رہے وہ انقلاب؟ اور بنا کیوں نہیں دیتے نیا پاکستان بلکہ اب تک بنایا کیوں نہیں ؟ یہ پہلی بار
حکومت نہیں تھی بلکہ تیسری بار مرکز میں اور پنجاب میں تو ایک دو بار کے علاوہ گذشتہ تیس سال سے انھیں کی تو حکومت ہے تو کہاں ہے انقلاب ؟؟ کیا یہ خود سے شکوے اور شکایات کر رہے تھے ؟؟ کیا خود کو کوس رہے تھے؟ کیا اپنے ہی خلاف تقریریں کر رہے تھے؟؟ یہ خیال اب کیوں آیا عہدے سے اتر کرکیوں آیا؟؟ ۔
عوام کے ووٹوں کی حرمت کے لیے باہر نکلا ہوں، نواز شریف*
آج تک تو آپ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ آپ نے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی ہیں آج تک تو پاکستان کو ترقی دلانے میں صرف آپ کاہاتھ تھا ۔آج تک تو آپ کی ہر تقریر یہ ہوتی تھی کہ مخالفین کو پاکستان کی ترقی کھٹک رہی ہے ۔ پاکستان آگے بڑھ رہا ہے ہر طرف خوشحالی کا بسیرا ہے ۔ آج تک تو آپ قائد اعظم ثانی تھے آج تک تو آپ ہی نجات دہندہ تھے آج تک تو آپ کو نہ سماجی مسائل نظر آئے تھے نہ معاشی ناانصافیاں نظر آئی تھیں نہ ہی انقلاب کا خواب دیکھ پائے تھے ۔
آج تک تو آپ کی نظر میں موٹروےہی ہر مسئلے کا حل تھا سڑکیں ہی ترجیحات تھی ہر تقریر کاآغاز بھی موٹروے سے ہوتا تھا اور اختتام بھی اسی سے ہوتا تھا آج تک تو میٹرو بنانے کا کمال گنواتے آئے تھے وہ بھی ٹھیک طرح نہیں کیوںکہ پنجاب کے چھتیس اضلاع کو دینے اور بتانے کے لیے دو اضلاع کی میٹرو
بس ہی تو تھی رحیم یار خان جا کر بھی یہی بتاتے تھے اور پوچھتے تھے کہ لاہور کی میٹرو بس دیکھی ہے کبھی ۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ رحیم یارخان کے تو قبرستان بھی سیوریج کے گندے پانی سے بھرے پڑے ہیں کسی جگہ مریض ٹھنڈے فرش پر دم توڑ رہے ہیں تو کسی جگہ مریض اور مردہ ایک ہی بیڈ پر لیٹے ہوئے ہیں اور لاہور میں دل کے مریضوں کو چیک اپ کے لیے ایک ایک سال بعد کی تاریخیں مل
رہی ہیں ۔
چلیں آپ کو خیال تو آیا کہ انصاف نہیں ہے مگر اس سب کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ خود آپ ہیں ۔کیا آپ اپنی کارکردگی کے خلاف ریلی نکا ل کر تقریریں کر رہے تھے؟ کیا اپنے ہی خلاف انقلاب لانے کی باتیں کر رہے تھے ؟؟ کیا اتنی باریاں لینے کے بعد بھی آپ شکایات کسی اور سے کر رہے ہیں یا یہ اعتراف ہے اپنی ہی ناکامیوں کا؟؟ کیا اب مزید بھی آپ پر ہی امید رکھنی چاہیےکہ ان مسائل کا حل آپ ہی نکالیں گے جو اصل میں آپ ہی کے پیدا کردہ ہیں ۔
انصاف لینے کی سکت نہیں‘ نواز ریلی میں ہلاک حامد کا والد مایوس*
کہیں آپ انصاف اور ناانصافی کی بات اپنے کیس کی تو نہیں کررہے ؟؟ جس کا جواب آپ نے دینا ہے جو کہ ابھی تک نہیں دے پائے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کو اپنے معاملات کا انصاف ہوتا نظر آرہا ہے تو دوسروں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں نظر آنے لگی ہیں ۔۔کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنے خلاف ہی کوئی
انقلاب آتا نظر آرہا ہے ۔ یہ نظام وائرس زدہ ہو گا بالکل ہوگا آپ نے ٹھیک کہا مگر تین بار حکومت کرنے والوں کا اس نظام کو وائرس زدہ کرنے میں کتنا ہاتھ ہے کبھی یہ خیال آیا ؟؟ ۔
اچھا چلیں مان لیتے ہیں گو کہ ہضم نہیں ہوتا پھر بھی مان لیتے ہیں کہ تین بارحکومت کرنے والوں کا ہاتھ نہیں ہوگا مگر اس کو ٹھیک کرنے کے لیے کیاکیا ؟؟ کیوں نہیں کیا؟؟ اگر ابھی تک نہیں کیا تو اب کیسےکریں گے ؟کیونکر کریں گے ؟کیوں کہ اب تو سال باقی رہ گیا ہے تو کیا خبر آپ آنیوالا الیکشن جیت پائیں کہ نہ جیت پائیں اور بالفرض جیت جاتے ہیں تو آپ کی تقریر توو ہیں سے شروع ہوگی موٹروے دودھ اور شہد کی نہریں وغیرہ وغیرہ ۔یہ جو تقریریں اب آپ نے کی
یہ تو عہدے سے اترنے کے بعد ہی ہوتی ہیں ۔عہدہ ملنے کے بعد آپ کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ یہ نظام وائرس زدہ ہے اور اس ملک کو کسی انقلاب کی ضرورت ہے۔