آخر کار نواز شریف واپس آگئے اور ساتھ ہی وہ تمام قیاس آرائیاں بھی دم توڑ گئی کہ میاں صاحب نہیں آئیں گے ۔مریم بی بی نے کہا کہ یہ جانتے ہوئے کہ جو ہو رہا ہے‘ وہ احتساب نہیں ہے پھر بھی واپس آرہے ہیں اور وہ اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ بیس کروڑ عوام کے لیے آرہے ہیں ۔ مریم بی بی نے یہ بھی کہا کہ اس کے لیے بڑی جرات چاہیے اور یہ بھی کہا کہ وہ تبدیلی کے لیے ہر قسم کی قیمت چکانے کو بھی تیار ہیں ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ عدالتوں کو مطلوب ہیں اور وہاں پیشیاں بھگتنی ہیں لہذا ان کو آنا ہی چاہیے تھا ۔انھوں نے واپس آکرکوئی احسان نہیں کیا۔ رہ گیا بیس کروڑ عوام کا غم جس کاذکر مریم بی بی نے کیا وہ چار سال تک تو یاد نہیں آیا تھا‘ ہاں جب خود وزیر اعظم کے عہدے سے اترے تو ’مجھے کیوں نکالا‘ کے غم نے یاد کروا د یا کہ موجودہ نظام وائرس زدہ ہے ۔
مجھے کیوں نکالا کے غم نے انقلاب بھی یاد کرا دیا اور یہ بھی یاد کرا دیا کہ یہاں عام آدمی کو برسوں انصاف نہیں ملتا۔ مجھے کیوں نکالا کا غم یہ بھی یاد کرا گیاکہ یہاں منتخب وزرائے اعظم کے خلاف سازشیں ہوتی رہی ہیں۔ مجھے کیوں نکالا کا غم ‘نظام کا بدلنے کے جملے بھی دے گیا ، ورنہ تو۔۔۔۔ورنہ تو بقول میاں صاحب کےان کے ہر دور میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں ۔ملک ترقی کر رہا تھا سڑکیں بن رہی تھی‘ معیشت دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی تھی۔ وہ تو اگر خود میاں صاحب پر پانامہ کی آفت نہ آتی تو کہاں وائرس زدہ نظام کہاں انقلاب کہاں سازش ۔۔۔۔کیا یہ سب یاد آتا؟؟۔
میاں صاحب جب تک مقدموں کا سامنا کر رہے ہیں‘ سازش کی بات بھی کر تے رہیں گے ‘انقلاب کا راگ بھی الاپتے رہیں گے‘ وائرس زدہ نظام کی رٹ بھی لگاتے رہیں گے مگر جس دن میاں صاحب کی کوئی ڈیل ہوگئی یا کوئی مفاہمت ہو گئی اس دن کون سا وائرس زدہ نظام اور کونسی سازش کیسی ناانصافی ۔۔۔۔ بلکہ اگر حکومت میں ہوئے تو دودھ اور شہد کی نہریں دوبارہ چل پڑیں گی ۔سازشوں کے راستے ہمیشہ کے لیے بند ہوجائیں گے ملک ترقی کرکے راتوں رات آسمانوں پر پہنچ جائے گا۔
اور اگر میاں صاحب مقدموں سے نہ نکل سکے تو انقلاب کا نعرہ طول پکڑے گا ‘ سازشوں کی بازگشت اونچی ہوتی جائے گی اور میاں صاحب کے حواری پجاری اور لکھاری میاں صاحب کے حق میں زمین آسمان ایک کرتے نظر آئیں گے اور شریف خاندان کو انتقام کا نشانہ بنانے کی چیخیں ہر طرف سنائی دیں گی ۔ شریف فیملی کے مقدمے کسی ڈیل یا مک مکا کے تحت اگر معاف ہوگئے توان کی نظر میں انصاف کی اعلیٰ مثالیں قائم ہو جائیں گی ‘ انھیں اس بات یا حقیقت سے کوئی سروکار نہیں کہ حدیبیہ کا کیس اپنے منطقی انجام کو پہنچتاہے یا نہیں، انھیں اس بھی لینا دینا نہیں کہ منی لانڈرنگ کے الزامات پر انصاف ہوتا ہے یا نہیں لندن فلیٹس کی حقیقت سامنے آتی ہے یا نہیں بیس سال پچیس سال پرانے الزامات میں سچ یا جھوٹ سامنے آتا ہے یا نہیں ۔
ان کا مقصد صرف ایک ہے کہ اگر میاں صاحب کو معافی ملتی ہے تو ٹھیک ورنہ میاں صاحب سے ظلم ہو گیا۔اوہو !ٹارگٹ کیا گیا۔۔سازش کی گئی۔ کون مائی کا لال میاں صاحب سے نا انصافی کر سکتا ہے، اگر میاں صاحب بتا دیں کہ لندن فلیٹس کے لیے پیسے کہاں سے آئے اور کیسے دیے تھے ۔کس کی جرات ہے کوئی سازش بھی کر سکے اگر میاں صاحب عزیزیہ مل لگانے کے ذرائع آمدن بتا دیں ‘حدیبیہ ملز کے دستاویزات فراہم کر دیں تو کونسی جے آئی ٹی ہے جو سازش کر سکے ۔
نااہل سابق وزیراعظم نوازشریف وطن واپس پہنچ گئے
عدالت نگران جج ہٹا کیوں نہیں دیتی ‘ پھر دیکھیں کیسے انصاف ہوتا ہے ہفتوں میں نہیں بلکہ دنوں میں ۔یاد نہیں کیسے ملک قیوم نے ایک فون کا ل پر انصاف فراہم کیا تھا میاں صاحب کو ۔بھول گئے خواجہ شریف نے تحفوں کی جو داستانیں سنائی تھیں ۔ یاد نہیں اس عدلیہ کے سامنے نیب چیئرمین نے حدیبیہ کیس دوبارہ کھولنے سے انکار کیا تھا۔
ذرا سا ذہن پر زور دیں تو یاد آئے گا کہ چھیانوے میں کس طرح فاروق لغاری نے تمام مقدموں سے شریف خاندان کو بری کیا تھا۔ ستانوے میں میاں صاحب کی اپنی حکومت تھی تو انصاف کی فراہمی تو یقینی تھی مقدمے پھر دب گئے اور مشرف نے مقدمے کھولے مگر جب سعودی عرب جانے کا معاہدہ ہوا تو بند کردیئے گئے اور کئی بار کھولنے کے بعد تین سال پہلے ہمیشہ کے لیے بند ہوگئے تھے تو اب کیوں کھولے جا رہے ہیں ۔ یہ سازش ہے یہ انتقام ہے یہ نا انصافی ہے۔
اور قربان جاؤں ان صحافیوں پر جو سازش کے قلابے بھی ملا رہے ہیں اور کوئی درمیانہ راستہ نکالنے کی باتیں بھی کر رہے ہیں ۔تو کیا اگر کوئی سازش ہورہی ہے تو کیا درمیانی راستے کے لیے انھیں سازش کرنے والوں سے ڈیل کی جائے گی؟، فرض کریں کہ اگر کوئی ڈیل طے پاتی ہے تو یہ کیسا اصول ہے‘ کیا سچا بندہ اور بے قصور بندہ مک مکا کرتا ہے ؟۔ کیا بقول میاں صاحب کے کہ جب سے پاکستان بناسازش ہو رہی ہے تو کیا سازش کرنے والوں سے جنگ مک مکا پر ختم ہوتی ہے؟۔
اگر آپ خود کو معصوم ثابت کرنے کی بجائے کسی ڈیل کی صورت میں رہا ہوتے ہیں تو کیا دوبارہ آپ کے سامنے یہی مقدمے کبھی کھڑے نہیں ہوں گے؟، اگر آپ کا اپنا دامن صاف نہیں تو کیا آپ سازش اور ناانصافی کی بات کرتے اچھے لگیں گے؟ اور کیا کسی ڈیل کی صورت میں واپس آنے کے بعد آپ سازش کرنے والون کو بے نقاب کر سکیں گے؟۔
اور سوال اس معزز صحافی سے بھی جو عمران خان کو مشورہ دیتے ہیں کہ الیکشن کمیشن سے نہ لڑیں بالکل صیح مشورہ ہے کیونکہ اداروں سے لڑائی نہیں کرنی چاہیے مگر وہی صحافی نواز شریف کو کیوں نہیں کہتے کہ عدلیہ سے نہ لڑیں حالانکہ عدلیہ کا رتبہ تو الیکشن کمیشن سے کہیں زیادہ ہے بلکہ عدلیہ سے محاذآرائی کے حق میں دلیلیں دی جاتی ہیں۔
وہی صحافی ایک طرف تو میاں صاحب کے سازش والے بیانیے پر قائل ہیں اور دوسری طرف درمیانی راستہ نکالنے کی باتیں بھی کر رہے ہیں اور دروازے کھلنے کی باتیں بھی کررہے ہیں اور میاں صاحب کے ہٹنے کی صورت میں نظام کے لوزر ہونے کی باتیں بھی کر رہے ہیں۔ یہ متوازن صحافت نہیں ہے بلکہ یہ بغض اور کینہ ہے اور میاں صاحب تصادم یا ڈیل اصولی سیاست نہیں ہے بلکہ کھوئی ہوئی طاقت اور مقام واپس لینے کے حیلے اور بہانے ہیں ۔اس راستے
پر چل کر آپ کبھی بھی اصولی موقف کی سیاست اور ڈٹ کر سیاست نہیں کرسکیں گے بلکہ سازش کا شور ڈال کر ڈیل اور مک مکا کوجلا بخشتے رہیں گے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں