شہر میں کوئی بھی بڑا ایونٹ ہو ‘ تمام نشریاتی ادارے مکمل طور پہ متحرک ہوجاتے ہیں‘ آج سے دس برس قبل بھی کچھ ایسا ہی ماحول تھا جب ایک طویل عرصے بعد بے نظیر بھٹو وطن واپس آرہی تھیں۔
شہر میں گہما گہمی تھی ‘ ہمارے ادارے نے تمام تر انتظامات مکمل کررکھے تھے اور ہمیں بھی نجی ہوٹل میں ٹھہرایا ہوا تھا کیوں کہ اگلی صبح ہمیں پو پھوٹنے سے بھی قبل بلاول ہاؤس ، ایئر پورٹ ، مزار قائد اور شارع فیصل کے مختلف مقامات پہ نشریات کو براہ راست عوام تک پہنچانے کے لیے اپنی گاڑیاں کیمرے اور دیگر آلات کے ساتھ اور رپوٹرز اوراینکرز کو ٹی وی پہ اچھی لگنے والی شرٹس کے ساتھ اسکرین پر جلوہ گر ہونا تھا ۔
بہرحال ، میری ابتدائی ذمہ داری شارع فیصل اور اس کے بعد بلاول ہاؤس پر لگی تھی‘ سویرے سویرے مختلف عالمی و مقامی اداروں کے سینکڑوں صحافی اپنے ساز و سامان کیساتھ متعلقہ جگہوں پہ پہنچ چکے تھے ، ملک پر اس وقت ’’بہادر‘‘ کمانڈو کا راج تھا ۔ایسے میں طویل عرصے بعد پیپلزپارٹی کی چیئر پرسن کی آمد بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے کی جانب بھرپور اشارہ تھا ۔
دس برس قبل ، سترہ اکتوبر کو پورے پاکستان سے پارٹی کارکنوں کا جم غفیر ریلے کی صورت میں بلاول ہاؤس تا ائیرپورٹ موجود تھا اور ملک بھر سے مسلسل قافلوں کی آمد جاری تھی۔ یہ آمرانہ دور میں جمہوریت کا خوشگوار جھونکا تھا جس کی قیادت بھٹو کی صاحبزادی کر رہی تھیں ۔
تاحد نگاہ سر ہی سر تھے ، بھٹو کی بیٹی سے اس کے دیوانے والہانہ انداز میں محبت کا اظہار کر رہے تھے، یہ وفاق کی علامت اور ملک کی سب سے بڑی جماعت کی خاتون راہنماء کا استقبال تھا‘ جس نے مردوں کی بالادستی والے معاشرے میں اپنی اہمیت اپنی صلاحیتوں کی بنا پر ثابت کی تھی ۔
یہ کل کی پنکی اور آج کی بے نظیر بھٹو تھی جس کے باپ کو پھانسی‘ ایک بھائی کو پولیس مقابلے میں ہلاک‘ جبکہ دوسرے کو پراسرار حالات میں قتل کیا گیا‘ یہاں تک کے ان کی والدہ نصرت بھٹو ان سانحات سے گزرنے کے دماغی طور پہ مفلوج اور صنم بھٹو سیاست سے ہی کنارہ کشی اختیار کرگئی تھیں ۔
سانحہ کارساز کی قیامت صغریٰ کو 10 برس بیت گئے
ایسے ماحول میں یہ وہی پرعزم بے نظیر تھی جس کی حکومت کو سیکیورٹی رسک قرار دیا گیا تھا ، اُسے مقابلے پر نواز شریف اور ان کے زیرسایہ موجو د بونے ملے تھے‘ جو سرِعام اس کی کردار کشی کرتے آوازے کستے اور ٹھٹھہ اڑاتے ۔ یہ بھی ایک الگ داستان ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے حسین حقانی کیسے نوازشریف کے بعد زرداری کے چہیتے قرار پائے جو کبھی بے نظیر بھٹو کے خلاف گھٹیا الزام تراشی کی مہم چلاتے رہے ۔
بلاشبہ ، بھٹو سول آمر تھے۔ کوئی دو رائے نہیں کہ سانحہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وہ بھی ذمہ وار تھے‘ اپنے مدمقابل الیکشن لڑنے کی جرات کرنے والے جماعت اسلامی کے امیدوار کے مبینہ اغواء میں ملوث تھے۔ مولانا بھاشانی ، شیخ مجیب ولی خان ، میاں طفیل ، مفتی محمود وغیرہ کی جاسوسی ‘ تذلیل مقدمات گرفتاریاں ‘ تشدد غرض سب کچھ کیا وہ بدترین جمہوری دور تھا ، لیکن اس کے باوجود ا ن کی پھانسی غیر منصفانہ تھی جس کا نتیجہ سیاسی انتشار کی صورت میں نکلا ‘ دیکھئے بات کہیں سے کہیں پہنچ گئی ، چلیں دوبارہ دس برس پہلے کارساز کے مقام پر چلتے ہیں ۔
شارع فیصل پر کارکنوں کا جوش دیدنی تھا‘ بےنظیر بھٹو فقید المثال استقبال پہ خوش تھیں مسرت ان کے چہرے سے عیاں تھی اور طویل مسافت کے باوجود تھکن کی کوئی لہر پیشانی پہ نظر نہیں آئی ۔
صبح سے رواں دواں کارواں کی آخری منزل مزار قائد سے متصل باغ جناح تھا جہاں جلسے کے بعد بی بی نے بلاول ہاؤس جانا تھا ، لیکن اس سفر کے دوران کارساز کا مقام آگیا جہاں یکے بعد دیگرے ہونے والے دو دھماکوں نے لگ بھگ دو سو سے زائد انسانوں کی جان لے لی ۔
رات کا وقت تھا جب میں نے شارع فیصل پہ دھماکوں کے بعد دھواں اٹھتے دیکھا ، جیسے تیسے بےنظیر بھٹو کے ٹرک کے قریب پہنچا تو عجب خوں میں غلطاں منظر دیکھنے کو ملا ۔ تڑپتے زندہ و مردہ انسان ، بہتا لہو ، بارود کی بو اور بکھرے اعضاء‘ یہ کُل کہانی تھی اس عظیم الشان جلوس کی ۔
بدقسمتی سے اس حملے سے کچھ عرصہ پہلے نشتر پارک میں سنی تحریک کی پوری قیادت اور جلسے میں شریک کارکنوں کے ایسے ہی چھیتڑے اڑتے دیکھ چکا تھا بلکہ وہ نوجوان اب تک نہیں بھولتا جو محفلِ میلاد میں شریک اپنے باپ کا سر قمیض میں لپیٹ کر دیوانہ وار لاشوں کے انبار میں اس کے جسم کے دیگر ٹکڑے تلاش کرتا پھر رہا تھا ۔
کارساز پہ بھی یہی کچھ تھا ، پل بھر میں خوشی کے رنگ غم میں بدل چکے تھے ۔
بوجھل دل کے ساتھ رپورٹنگ کی‘ اور رات گئے دفتر پہنچے۔ ہمارے ادارے سے منسلک کیمرہ مین عارف بھی کارساز دھماکے کی نظر ہوئے ، دفتر میں سوگوار ماحول تھا ۔رات کا بقیہ پہر دفترمیں ہی گزرا‘ صبح دوبارہ رپورٹنگ کی لیکن دھماکے کے اثرات سے کئی دنوں تک نہیں نکل سکا ۔
بےنظیر بھٹو اس کے بعد جناح و لیاری اسپتال پہنچیں اور کارکنوں کا حوصلہ بڑھایا اس دوران بی بی سے ملاقات کا بھی موقع ملا جس کی تفصیل پھر کبھی سہی ۔
تلخ حقائق بس یہ ہیں کہ بی بی کے بعد آصف علی زرداری نے مواقع ہونے کے باوجود وفاق کی علامت پیپلز پارٹی کو سندھ تک محدود کیا اور کرپشن اور برے طرز حکمرانی کے نت نئے ریکارڈ قائم کیے ۔
وفاق کی علامت سمجھی جانے والی پیپلزپارٹی کا احیاء اب اسی صورت میں ممکن ہے جب بلاول بھٹو ، سابق صدر زرداری کے اندازِ سیاست سے خود کوجدا کرکے پیپلزپارٹی کے سنجیدہ اور مخلص رہنماؤں کے ساتھ پالیسی ترتیب دیں‘ ورنہ یہ ملک گیر پارٹی خود کو سندھی کی کسی قوم پرست جماعت کی سطح پر خود کو محدود کرنے کی راہ پہ تیزی سے گامزن ہے ۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں