سماجی ارتقاء اور قوموں کا عروج وزال ایک دن یا چند سالوں کی بات نہیں بلکہ اس میں برس ہا برس کی غلط پالیسیوں کا عمل دخل ہوتا ہے ، زندہ قومیں وہ ہوتی ہے جو عروج پہ پہنچنے کے بعد اسے برقرار رکھ سکیں‘ وگرنہ اکثر اوقات تو اقوام اپنے عروج پہ پہنچنے کے فوراًبعد زوال کی جانب سفر شروع کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ترقی کے بعد ان میں پیداہونے والی غرور وتکبر ، خودسری اور گمراہ کن پالیسیاں ہیں جو دیکھتے ہی دیکھتے چوٹی سے نیچے پھینک کر کھنڈرات میں تبدیل کرکے آئندہ نسلوں کے لئے عبرت کا نشان بناتے ہیں ۔
سنہ 1967ء ‘ 30نومبرکو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن خان کی رہائش گاہ پر ملک بھر سے آئے ہوئے 500 کے قریب سیکولر، سوشلسٹ اور ترقی پسند دانشوروں، سیاست دانوں اور ادیبوں کا اجلاس منعقد ہوا جس میں ملکی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک ایسی جماعت بنانے کا فیصلہ ہوا جس کی سیاست خالصتاً عوام دوستی اور ترقی پسندی پر محیط ہو اور جوسیاست کو ڈائننگ ہال سے نکال کر عوام کی دہلیز تک لے آئے ۔ اسی اجلاس میں ’پاکستان پیپلز پارٹی‘ کے نام سے ایک سیاسی جماعت کا قیام عمل میں آیا ، جس کی بنیادیں عوام دوست سیکولرسیاست، اشتراکی معیشت اور سامراج دشمنی پر استوارکی گئی تھیں ۔
ایوب خان کی کابینہ سے الگ ہونے والے وزیر خارجہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کو اس پارٹی کا چیئرمین بنایا گیا ۔دیکھتے ہی دیکھتے جمود کا شکار پاکستانی معاشرے میں اس جماعت نے مقبولیت کے تمام مدارج طے کئے ۔ 1970ء کے عام انتخابات میں پی پی پی کے ٹکٹ ہولڈ جن کی اکثریت مڈل یا لوئر مڈل کلاس کی تھی‘ انہوں نے بڑے بڑے بھوت اکھاڑ کے رکھ دیئے۔
گو کہ اقتدار میں آنے کے بعد پی پی پی بالخصوص ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے اپنے منشور سے انحراف اور بہت حد تک عوامی سیاست کو خیر باد کہہ دیا ، جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ نہ کرسکے اور خود بھٹو خاندان کے پاس لاکھوں ایکڑ زمین آج بھی موجود ہے ، جو کہ ان کے لینڈ ریفامز اور اشتراکی معیشت کے حوالے سے دعووں کی کھلم کھلا نفی ہیں۔ اقتدار کے دنوں میں عوام اور بھٹو کے درمیان خلیج کافی بڑھ گئی لیکن جونہی جولائی 1977ء کو ضیاالحق نے بھٹو حکومت کو برطرف کردیا تو عوام ایک مرتبہ پھر ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ شامل ہوگئے ۔
جب بھٹو کو قید اور پھر عدالتی قتل کرنے کے بعد ملک بھر میں طویل سیاہ دور کا آغاز ہوا تو یہ پی پی پی جیالے ہی تھے جنہوں نے آمریت کے مقابلے میں کوڑے کھائے، ٹکٹکیوں سے باندھے گئے پھانسی چڑھائی گئی، جیلوں میں رہے یا جلاوطنی پر مجبو ر ہوئے ۔ اگلے ساڑھے چار دہائیوں تک عوام بھٹو کے خون پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ ڈالتے رہے۔
جب طویل جلاوطنی کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ اکتوبر 2007ء کو وطن واپس پہنچی تو ایک مرتبہ پھر پاکستان کے پسے ہوئے طبقے کو امید کی کرن نظر آنے لگیں اور وہ جوق درجوق بی بی کے قافلے میں شامل ہوتے گئے ۔لیکن 27دسمبر 2007ء کی شام پسے ہوئے طبقے کے ارمانوں کا خون کیا گیا جب لیاقت باغ میں محترمہ کو لہولہاں کرکے ان کی آواز کو ہمیشہ کے لئے بند کردیا گیا ۔
27دسمبر 2007ء کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کا زوال شروع ہوا جو دس برس بعداپنے نقطہ عروج پر ہے۔ ان دس برسوں میں کبھی کسی رہنما ءنے پی پی پی کے اس زوال کو سمجھنے اور اس کا تدارک کرنے کی شعوری کوشش نہیں کی یا پھر مرکزی قیادت کو سرے سے اس بات کا احساس ہی نہیں ۔ وہ جماعت جو کسی زمانے میں لاہور سمیت پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی قوت تھی‘ اس نے لاہور کے این اے 120 میں صرف 1400 ووٹ لئے ۔
پیپلز پارٹی آج لاہور سمیت پورے پنجاب کے منظر نامے پر فعال نہیں ہے ۔ صرف پنجاب ہی کیا این اے فور پشاور کے نتائج کے بعد تو رہی سہی امید بھی ختم ہوگئی ۔ چاروں صوبوں کی زنجیر بائیں بازو کی اس جماعت کے زوال میں جہاں اس کے بنیادی دستاویزات سے انحراف کا بڑا ہاتھ تھا ‘ وہیں موجودہ قیادت نے عوامی سیاست کو خیر باد کہا اور محلاتی سیاست میں مصروف ہوگئےاور اس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے ۔
اگر 2007ء میں ہی وصیت کی بنا پر آصف علی زرداری کو پارٹی کی قیادت سونپے جانے کے بجائے کسی سینئر رہنما کو پارٹی قیادت سونپتی یا جمہوری انداز سے کسی پرانے ورکر کو آگے لایا جاتا تو شاید پارٹی کی یہ حالت نہ ہوتی ۔ اگر پی پی پی کو بھٹو خاندان سے باہر نہیں نکلنا تھا تو صنم بھٹو یا فاطمہ بھٹو ہی کو پارٹی قیادت سونپ دی جاتی تو آج چاروں ملکوں کی زنجیر پاکستان پیپلز پارٹی دیہی سندھ تک محدود ہو کر نہ رہ جاتی ۔