جب ہم چھوٹے تھے تو سارے دن کی ہماری کارگزاری رات کو والدہ ماجدہ ہمارے سامنے کام سے تھکے ماندے گھر لوٹے والد گرامی کو ضرور بتلایا کرتی تھیں‘ ہماری ان معصوم لیکن بڑی شرارتوں میں جہاں انہیں لطف ملتا اور والدین کی ہنسی دیکھ کر ہمارے چہرے پر بھی شرمیلی سی مسکراہٹ پھیلتی‘ وہیں شرمندگی اس بات سے ہوتی کہ والدہ ماجدہ‘ والد محترم کو کیوں یہ سب بتا رہیں ہیں، کہیں اگر کسی بات سے والد گرامی ناراض ہو گئے تو؟؟ لیکن ہم نہیں سمجھ سکتے تھے کہ ایسا امی جان کیوں کرتی ہیں!! جب تھوڑا بڑے ہوئے اور لڑکپن میں داخل ہو گئے تو امی جان کہ یہ حرکت دشمنی سے کم نا لگتی، کیونکہ ڈانٹ اور مار کا ڈر رہتا تھا۔لیکن ہم پھر بھی نہیں سمجھ پائے کہ امی جان ایسا کیوں کرتی ہیں!۔
کچھ اور بڑے ہوئے تو امی جان کی شکایتوں والی حرکت اور بھی دل سوز اور روح فرسا لگتی، کیونکہ اس وقت تک ہم بھی عزت و آبرو کے مالک بن چکے تھے، تعلیم سے شعور و آگہی میں اضافہ ملا اور ہمیں بھی بات کی سختی اور نرمی کا اندازہ ہونے لگا، غلط اور صحیح کا فرق محسوس ہونے لگا اور ایک معیار جو ہم خود ہی بنا چکے ہوتے ہیں اس سے کم یا زیادہ جو بھی ہوتا ہمارے لئے چیلنج بن جاتا، انا کا مسئلہ بن جاتا، جو حقیقی بگاڑ کا سبب ہے۔وہ ساری تعلیم اور شعور جو ہم حاصل کرتے ہیں اس کے اسباق مٹی میں مل جاتے ہیں کہ جب امی جان ہماری شکایت لگا کر ابا جان سے ڈانٹ ڈپٹ کروائے گی اور کئی تو اتنے ہٹ دھرم ہوتے ہیں کہ ماں باپ کے سامنے اونچی آواز میں جواب دینے، غلاظت بکنے یہاں تک کہ ہاتھ اٹھانے سے بھی بعض نہیں آتے،! یہ سب کیوں ہوتا ہے؟ ہم کیوں نہیں سمجھ پاتے؟ بس ایک جھوٹی انا کی خاطر؟ نام نہاد معیار زندگی کی خاطر؟ بے مقصد طرزِ زندگی کی خاطر؟ اللہ اکبر۔
کتنا تباہ کن ہے یہ۔۔ اور پھر جب کسی کی اولاد ایک چھوٹی سی بات کی خاطر جھوٹ بولتی ہے اور پھر پکڑے جانے کی ڈر سے جھوٹ پہ جھوٹ بولتی چلی جاتی ہے صرف اس لیے کہ میرا پول نہ کھل جائے اور میں والدین، ہمسر اور معاشرے میں ذلیل نہ ہو جاؤں! جب کسی بچے کو والدین پر تعیش زندگی دیتے ہیں تو وہ اپنے معیار زندگی بھی ویسے ہی بنا لیتا ہے اور کھوکھلی برانڈز اور عصری عیش کے آلہ جات کے حصول کیلئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے، اور جب اس کی زندگی میں موڑ آتا ہے تو وہ حالات کے ساتھ ڈھل جانے اور ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرنے کی بجائے، جرائم اور چوری پر اتر آتا ہے، صرف اس لیے کہ ریاکاری قائم رہے!!! جب کسی اولاد کو اللہ پاک لوگوں میں عزت دیتا ہے اور اسے عوام میں مقبول و حاکم چنتا ہے تو اس کے بعد اگر وہ جرائم کرنے لگے اور پھر ایک دن اللہ کی پکڑ میں آجائے تو وہ اپنی جھوٹی شان و شوکت بچانے کیلئے ہٹ دھرمی اور ہرزہ سرائی پر اتر آتا ہے، خود کو بچانے کیلئے، اپنی جھوٹی شان کو قائم رکھنے کے لیے اگر کسی کی جان بھی لینی پڑ جائے تو اس سے گریز نہیں کرتا، صرف اس لئے کہ اگر عوام کے سامنے اس کے گناہ آگئے تو وہ کسی کو کیا منہ دکھائے گا؟؟!!۔
یہ سب تو دنیا داری کی باتیں ہیں، لیکن کیا کبھی کسی نے یہ بھی سوچنے کی کوشش کی ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا ایمان کامل ہی تب ہوتا ہے کہ آخرت پر ایمان اسی طرح سے رکھنا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ پر بغیر دیکھے ایمان لانا اور اس کے رسولﷺ کو آخری نبی ماننا۔حشر جب بپا ہوگا تو ہم دوبارہ اٹھائے جائیں گیاور پھر خدائے متعال کے روبرو کھڑے ہونگے تو اس وقت اسے کیا منہ دکھائیں گے؟ اس وقت یہ مادیت اور جھوٹی شان و شوکت اور انا سب کس طرح بچائیں گے؟اس وقت ایک ایک عمل کا حساب دینا ہوگا اور حقوق العباد سے جان بخشی نہیں ہو گی ! نہ تو اس وقت دولت ہو گی اور نا ہی کوئی مادی فیصلے !بلکہ نیکیاں جائیں گی ہاتھ سے ۔ اللہ پاک سورۃ ق میں فرماتے ہیں: ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں، ہم اس کی شہہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں، دو کاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کر رہے ہیں، کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کیلئے ایک حاضرباش نگران موجود نہ ہو۔
اس آیت میں واضع طور پر پیغام موجود ہے کہ اللہ پاک آخرت امکان کے اور اس کے وقوع ہونے کے دلائل بیان کر چکا ہے۔اب اس کے بعد اگر ہم نہیں مانتے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آخرت نہیں آئے گی۔یہاں نا ماننے کا لفظ میں زبانی اقرار سے نہیں بلکہ عملی کردار سے منسوب کر رہا ہوں۔ہم سے حماقت میں جو سرزد ہوتا ہے اور یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا داری ہی میں ساری جزا و سزا ہے ، آخرت میں کچھ نہیں تو ہمارے انکار سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اگر ہم اپنا آج آخرت کی فکر کے ساتھ بسر کریں تو ہماری زندگی کی تمام تر دشواریاں، مسائل اور انا کا عنصر ختم ہو جائے گا۔اس وقت امی جان کی شکایت لگانے والی حرکت سمجھ سے بالا تر ہوتی ہے لیکن ہم شاید اس پر توجہ ہی نہیں دینا چاہتے، وہ ہماری بھلائی کیلئے اور آخرت کے ڈر سے ایسا کرتی تھیں، کیونکہ ہمارے ابا جان ہمیں ان کے پاس امانت کے طور پر سونپ کر جاتے ہیں اور ہماری برائی اور بھلائی سب کا اختیار ماں کے پاس ہوتا ہے، اگر وہ ہماری دن بھر کی کارگزاری ابا جان کو نہ بتائیں تو جو گناہ ہم بچپن میں چھوٹی سطح پر کرتے ہیں وہی بڑے ہو کر بڑی سطح پر کریں گے، بچپن میں غلطی کا احساس ہونا اور اس پر ندامت کا احساس کروانے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ بڑے ہو کر اسی احساس ندامت سے ڈرتے ہوئے ہم گناہ سے دور رہیں، کیونکہ مائیں جانتی ہیں کہ آج ہم اگر اپنے شوہر کی امانت میں خیانت کریں گی تو آخرت میں تو سب کے سامنے پول کھلنا ہی ہے! اس وقت اللہ کو کیا منہ دکھائیں گی؟؟ ہمیں اپنی ماؤں کے کامل توکل سے سیکھنا چاہئیے۔ وما علینا الاالبلاغ المبین۔
شاعر وسیم عباس نے کیا خوب کہا ہے
جس کی ہر آدمی کو حسرت ہے
ماں کے پاؤں تلے وہ جنت ہے
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں