The news is by your side.

جھنگ کی بقا کے لیے ناگزیر اقدامات کیوں ضروری ہیں؟

ضلع جھنگ کا شہری صوبائی حلقہ پی پی 126 سیاسی اورمذہبی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ گنجان آباد ہونے کی وجہ سے یہاں مسائل میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جب بے روزگاری اور شعور و وسائل کا فقدان ہو گا تو ایسا ہونا فطری عمل ہے ۔ اس کا پسِ منظر دیکھیں تو نوے کی دہائی میں جو حالات یہاں پر گزرے انہو ں نے اس کی تعمیر و ترقی کو شعوری و اقتصادی سطح پر بہت زیادہ متاثر کیا ۔ لوگوں کی آپسی لڑائیوں میں مذہبی تعصب کو ہوا دی گئی ۔ یہاں کے لوگ مذہبی معاملات میں زیادہ عقیدت پسند ہیں یہی وجہ ہے کہ آج تک یہ لوگ جاگیر داروں اور وڈیروں کے چنگل سے نکل نہیں پائے ہیں۔

یہ ایک عالمی سچ ہے کہ دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلے انسان اپنی جان بچانے کیلئے تگ و دو کرتا ہے ، اس کے بعد اپنے پیٹ کیلئے، پھر وہ اپنی دیگر نفسانی و نفسیاتی خواہشات تک رسائی کیلئے جد و جہد کرتا ہے ۔ یہاں کے لوگوں کو اپنی جان کے لالے پڑے رہے ، پھر معاشیات کی فکر نے آ لیا اور یہی فکر ان کی چار نسلیں نگل گئی۔ لیکن اب جیسے جیسے شرح خواندگی میں اضافہ ہو رہا ہے، تعلیم عام ہو رہی ہے اور جو لوگ یہاں سے کوچ کر کے دوسرے شہروں میں منتقل ہونے کے بعد جینے کا رنگ ڈھنگ سیکھ چکے ہیں ان کی اولادیں اب آواز اٹھانے کے قابل ہو چکی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں جھنگ کی شہری حدود میں کئی تحریکیں اور تنظیمیں زور پکڑ رہیں ہیں جو جھنگ کی فلاح و بہبود کیلئے ایک پیج پر ہیں ۔ انہیں کی بدولت حالیہ انتخابات میں تمام امیدواروں نے اپنے منشور میں ان مطالبوں کو بھی حصہ بنایا جو جھنگ ڈویژن بناؤ تحریک اور دیگر جماعتیں پہلی حکومتوں سے کرتی آ رہی ہیں ۔

جھنگ کے شہری حلقے میں مولانا معاویہ اعظم بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے ہیں لیکن ان کے مقابل اپوزیشن کے لوگ سب سے بڑی رکاوٹ ہمیشہ سے جھنگ کی تعمیر و ترقی میں رہے ہیں ۔ ان کے نزدیک گلیوں ، سڑکوں اور نالیوں کی تعمیر ہی ترقی کا کام ہے اور ذہنیت بھی عوام کی یہیں پر آ کے رک جاتی ہے جو ان مطالبوں کے ایوض انہیں اپنا مینڈیٹ تھما دیتی ہے حالانکہ یہ ایک انتہائی لا قانونی عمل ہے ۔ اداروں میں سیاسی دباؤ بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے ادارے آزادانہ اپنے کاموں کو سر انجام نہیں دے سکتے۔ لوگوں میں شخصیت پرستی کی مثال اس سے بڑھ کر کوئی نہیں ہو سکتی کہ وہ اداروں میں اپنا حق لینے کیلئے بھی قانونی طریقہ اختیار نہیں کرتے بلکہ پہلے کسی منتخب عوامی نمائندے کی منت سماجت کر کے اس کی سفارش کرواتے ہیں پھر جا کر کام کی درخواست دیتے ہیں ۔اس طرح استحصال و بدعنوانی تو یقینی ہو جاتی ہے۔

اس وقت جھنگ شہر کی آبادی 14 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور شہری مرکز گنجان آباد ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ بنیادی مسائل میں گھر ا ہوا ہے۔ ان مسائل میں اعلیٰ سطح کی سہولیات سے مزین ہسپتال کی تعمیر ، یونیورسٹی ، شہر میں کمرشل ایریا کو بڑھانا ، روزگار کی فراہمی ، سیوریج کا مسئلہ سب سے بڑا مسئلہ ہے جس نے جھنگ کے میٹھے پانی کو گندا کر کے رکھ دیا اور اس میں سنکھیا زہر بھی کافی مقدار میں شامل ہو چکی ہے ۔آبادی کے زیادہ ہونے کی وجہ سے ادارے بہت زیادہ مجبور ہیں جس کی وجہ سے عوامی مسائل حل کرنا ہنو ز ناممکن ہے۔

شہر کے جنوب مغرب میں گھومتی سیم نہر نے زیر زمین پانی کو بالکل بھی پینے کے قابل نہیں چھوڑا لیکن وہ شہر کی ضرورت بھی ہے۔ اگر جھنگ میں سیوریج نئے سرے سے ڈالی جائے تو سب سے پہلے جو طبقہ اس سے متاثر ہوگا وہ اشراف ہے کیونکہ انہوں نے ایسی زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے جو محکمہ آبپاشی کی ہیں اور قدرتی بہاؤ بھی اسی راہ سے ممکن ہے کہ سیوریج کا پانی نکالا جائے کیونکہ وہ آبپاشی کے خالے اب شہر میں اس کے سوا کسی کام نہیں آ سکتے ۔ جس قدر آبادی اور عمارتوں میں اضافہ ہو چکا ہے اب پرانی سیوریج کو کھودنا ناممکن ہے ۔ لیکن اس کے بر عکس کچھ نالے شہر کے بیچوں بیچ موجود ہیں جو سیوریج کیلئے با آسانی استعمال ہو رہے ہیں اور ہو بھی سکتے ہیں۔ سیم نہر کو پختہ کرنے سے زیر زمین پانی میں گندگی نہیں پھیلے گی اور اسی سیم نہر کے ذریعے شہر کی سیوریج کا مسئلہ با آسانی کم وقت اور کم اخراجات میں حل کیا جا سکتا ہے۔اس کیلئے بلدیہ کو اعتماد میں لیتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا انتہائی ضروری ہے۔

آئندہ بلدیاتی انتخابات سے قبل مولانا معاویہ اعظم سے درخواست ہے کہ وہ اپنا کردار جھنگ کے مستقبل کیلئے ادا کریں ۔ جھنگ کے جو نوجوان ترقی و فلاح و بہبود کیلئے متحرک ہیں ان کا ساتھ دیتے ہوئے سب سے پہلے جھنگ کے شہری حلقے کو کارپوریشن بنانے کیلئے ہاؤس میں قرارداد جمع کروائیں اور قانون سازی کے ذریعے اسے کارپوریشن کا درجہ دلوائیں ۔ شہری علاقے میں جو ڈی سی ہاؤس ، ڈی سی آفس ، ججز کالونی، کچہریاں ، ضلع کونسل ہال، میرج ہال وغیرہ جنہوں نے اتنی زیادہ جگہ گھیر رکھی ہے کو خالی کروا کر کمرشلائز کروایا جائے ، اس کے ساتھ پولیس لائینز اور جیل کو بھی یہاں سے شفٹ کیا جائے اور کمرشلائز کیا جائے تاکہ کاروبار، روزگار ، اور حاصل ہونے والے ریونیو سے آمدن میں اضافہ ہو سکے ۔

قبضہ شدہ کمرشل ایریاز کو واہگزار کروا کے وہاں سمال انڈیسٹریز اور کارباری طبقے کو انویسٹمنٹ کرنے کا موقع دیا جائے۔ جھنگ کا لاری اڈا ایک عرصہ سے ویران پڑا ہے ایوب چوک اور دیگر مصروف شاہراؤں پر بنے غیر قانونی اڈوں کو ختم کروا کے لاری اڈے کو آباد کیا جائے تاکہ ریونیو میں اضافہ ہو سکے۔ ڈسٹرکٹ ہسپتال جھنگ کی اب الائیڈ ہسپتال کی طرز پر ڈویلپمنٹ کی جائے جبکہ سٹی ہسپتال جھنگ سٹی کو ڈی ایچ کیو ، ہلال احمر ہسپتال کو ٹی ایچ کیو اور سیٹلائٹ ٹاؤن ، سول لائنز ایوب چوک کے قریب سٹی ہسپتال طرز کے مختلف ہسپتالوں کی تعمیر نو کی جائے تاکہ صحت جیسی بنیادی سہولت تک رسائی ہر طبقے کی بلا تفریق ممکن ہو سکے۔

سرکاری سطح پر انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کی لائبریری بنوائیں تاکہ ہمارے شہر کی قابلیت جو تعلیمی نصا ب تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی ہے کو آگے بڑھنے کا موقع مل سکے اورنوجوانوں کی توانائیاں سوشل میڈیا کی فحاشی، موبائل جیسی معاشرتی برائی میں ہی صرف نہ ہوتی رہے اور ان کو دوبارہ کتابوں کے ساتھ جوڑا جا سکے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں