ہر روز چیخیں بلند ہوتی ہیں،پھر کم ہو کر آہیں بن جاتی ہیں ،پھر سسکیاں سنائی دیتی ہیں اور پھر سکوت،طویل سکوت ،اور پھر چیخیں،،لیکن کسی نئی آواز میں ،آہیں اور سسکیاں لیکن نئے لوگوں کی اور پھر سب کی خاموشی ،،لیکن شائد کوئی نہ مانے مگر یہ سلسلہ تو ستر سالوں سے جاری ہے ۔ پوری دنیا کی جدید تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں جہاں سات لاکھ فوجی نہتے عوام کو امن کی رام رام بندوقوں سے سکھا رہے ہوں ۔ اس کی بھاشا کو اپنی بندوق کی آشا سے خاموش کر ارہے ہوں اور اپنے سیکیولرازم کا پرچار جنونی ہندو سرکار بن کر کر رہے ہوں ۔
کشمیر میں خوش آمدید یہاں جو کچھ ہو ریا ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی ، جو کچھ ہو چکا ہے وہ دنیا کے ہر قانون کی صریح خلاف ورزی ہے ۔ کون سا ایسا جرم ہے جو قابض بھارتی سرکار نہیں کر ہی ۔ قتل ہر روز کا معمول ہے ، خواتین کی عصمت دری وہ ہتھیار ہے جو کشمیر میں سب سے پہلے استعمال کیا گیا اور اب پورے بھارت میں سب استعمال کر رہے ہیں۔ اغوا، جنسی تشدد ، ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال، بھارت ہر وہ کام کر رہا ہے جو قوانین ، اصول اور انسانیت کے خلاف ہے ، مگر سکوت ہے،خاموشی ہے ،عالمی ضمیر تو بہتے ہوئے خون کے سامنے ٹشو پیپر کا بند باندھ کر خوش ہے لیکن یہ کوئی حل تو نہیں ۔ کہاں ایسا ہوتا ہے کہ سات لاکھ فوج امن کی خواہش لے کر پیلٹ گن سے لوگوں کو اندھا کرے ، کہاں ایسا ہوتا ہے کہ ماں کے سامنے اس کے جوان بیٹے کو قتل کیا جائے ، کہاں ایسا ہوتا ہے کہ خاندان کے سامنے بیٹی کی عصمت دری کی جائے کہاں ایسا ہوتا ہے کہ کھیلتے کودتے بچوں کو اغوا کیاجائے اور اگلے دن ان کی مسخ شدہ لاش ملے لیکن یہ کشمیر ہے یہاں روز یہ ہوتا ہے اور عالمی ضمیر روز سوتا ہے ۔
مقبول بٹ کو جب دلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی تو بھارت سرکار اسی غلط فہمی میں تھی کہ بس اب قصہ ختم۔ لیکن یہ محض خام خیالی ہی رہی۔ سال گزرتے رہے اور ہر سال کئی ہزار مقبول بٹ پیدا ہوتے گئے ۔ بھارت سرکار نے افضل گرو کی زندگی چھین کر یہ سمجھا کہ آزادی کی تحریک کی زندگی چھین لی ، لیکن آزادی کے گرو تو اب ہر گلی سے نکل رہے ہیں ۔ مودی کی انتہا پسند سرکار سمجھی کہ برہان وانی کو شہید کر دیا جائے تو معاملہ نمٹ جائے گا لیکن اب ہر فیس بک پر ، ہر ٹویٹر ہینڈل پر ہر واٹس ایپ اسٹیٹس پر ایک برہان وانی موجود ہے ۔ تم برہان وانی کو فانی سمجھے تھے وہ اب ہر گھر کی کہانی ہے ۔ہر روز قربانیوں کی نئی داستان لکھی جاتی ہے ، لیکن عالمی ضمیر نہ جانے کیوں ساتھ لاکھ ظالموں کے سامنے خاموش ہے ۔کبھی کبھی کہیں کہیں سے آواز آتی ہے
ایسی ہی ایک آواز ہوئے بھارت کے ایک معروف لکھاری رام پنیانی کی ہے جو جارحانہ سوچ ترک کر کے کشمیری عوام کی امنگوں کو جاننے کی تلقین کر تے ہیں ۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے تیرھویں اجلاس میں جو کہ 21مئی 2012تا یکم جون 2012 جاری رہا واضح کیا گیا کہ انڈیا میں بھارتی ریاستوں اڑیسہ، مدھیہ پردیش، گجرات اور ہماچل پردیش میں مذہبی بنیادوں پر اقلیتوں کے بنیادی حقوق کا نہ صرف استحصال کیا جاتا ہے بلکہ مختلف مواقع پر انسانیت سوز تشدد کے ذریعے انسانی حقوق کے ضابطوں کی دھجیاں اُڑا دی جاتی ہیں۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل، انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمیشن سمیت دنیا کی تقریبا ہر تنظیم بھارتی مظالم کی کچھ نہ کچھ مذمت ضرور کرتی ہے ۔ لیکن ایک سوال ہمیشہ جواب طلب رہا کہ ۱قوام عالم نے کبھی مخصوص مذمت کو عالمی تحریک کیوں نہیں بننے دیا ؟ اس کا جواب نہ تو کسی تنظیم نے دیا اور نہ ہی او آئی سی نے ، بس کہیں کہیں کوئی زندہ ضمیر اپنے تئیں کوششیں کر رہا ہے۔
اور یہ سب کچھ وہ کیوں کر رہا ہے ذرا ان مظالم کو صرف سوچ تو لیں،،جنوری 1989تا دسمبر 2016 مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زائد افراد کو شہید کیا گیا۔ 7073افراد کو بھارتی فوج اور پولیس نے حبس بے جا میں رکھ کر جھوٹی تفتیش کرتے ہوئے شہید کر دیا۔ 137,469افراد کو جھوٹے بے بنیاد مقدمات میں گرفتار کر کے ہراساں کیا گیا۔ 107,043افراد کو بے گھر کیا گیا۔ 107591بچے بھارتی مظالم کی وجہ سے یتیم ہوئے۔ 22826خواتین کے سہاگ اُجڑے۔ 10,717 خواتین پر جنسی تشدد کیا گیا اور انہیں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں بھارت کی طرف سے کشمیریوں پر کئے جانے والے مظالم میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
لیکن مجموعی طور پر اقوام عالم خاموش ہیں ۔ کیا عیسائی تو کیا مسلمان یا کوئی اور مذہب یا کوئی لا مذہب سب کے سب کشمیر کو شائد دیکھ نہیں سکتے ؟ یا کشمیر میں ہونے والا ظلم ان کو مریخ پر ہوتا دکھائی دیتا ہے ، یا کشمیر میں بہنے والا لہو ان کو کسی اور رنگ کا دکھائی دیتا ہے ۔ لیکن سب کو یاد رکھنا چاہیے سب کی خاموشی رب کی خاموشی نہیں ہوتی۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں