جناب والا! میں نے بہت کوشش کی کہ آپ کو مخاطب نہ کروں لیکن اگر آپ کو بھی مخاطب نہ کروں تو کیا کروں‘ ادارے سدھرتے نہیں ‘ سیاستدان بدلتے نہیں ‘ کرپشن رکتی نہیں‘ اقربا پر وری تھمتی نہیں ‘ چور بازاری کا بازار بڑا ہو رہا ہے ۔ انسانیت کا کاروبار ہو رہا ہے ۔ شرافت کا جنازہ نکل گیا ہے ۔ بد معاشی کا دور دورہ ہے ۔ غربت کی سطح عزت نفس کی سطح سے کہین اونچی ہے ۔ عوام کے نصیب میں تو جیسے ذلت ہی لکھ دی گئی ہے
ایسی صورتحال میں جناب چیف جسٹس آپ کو بھی نہ پکاروں تو کیا کروں کہ قائد اعظم کے ملک میں کوئی کام قائد اعظم کی شکل والا نوٹ دکھائے بغیر نہیں ہوتا۔ سیاست کاروں نے صنعت کاروں کو مات دے دی ہے ۔ دہشت گردی اللہ اللہ کر کے تھمی ہے تو غیر ملکی دھمکیاں عروج پر ہیں ۔ جناب والا ْقصور کی زینب نہ پہلی تھی اور نہ آخری ہو گی ۔ اس سے پہلے ایسے ہزاروں بچے اور بچیاں بھیڑیوں کی نذر ہو گئے ۔ آپ نے اسپتالوں کی خبر لی تھی‘ تھانے کا کلچر بھی آپ جانتے ہوں گے جہاں عام آدمی ہونا ہی سب سے بڑا قصور ہے ۔ جہاں غریب کا بچہ اگر پیسے نہ دے سکے تو ماں یا بہن کی عصمت قربان کر کے ہی باہر آسکتا ہے ۔ گاوں دیہات کو تو چھوڑیں جناب والا یہاں تو بڑے بڑے شہروں میں دھڑلے سے تھانوں میں انصاٖف کا سودا ہو رہا ہوتا ہے ۔
جناب والا اگر میں آپ کے آگے دہائی نہ دوں تو کس کے آگے اپنا دکھڑا روؤں۔ غربت کا انڈیکس میں ہم کمال پر فارمنس دے رہے ہیں۔بے روزگاری کی شرح نمو بچوں کی پیدائش کی شرح سے زیادہ ہے ۔جھوٹ قومی وطیرہ اور بے ایمانی قومی شعور کی نشانی بن گئی ہے ۔جناب والا سڑکوں پر انصاف کا قتل عام ہو رہا ہے لیکن مصاحبین شاہ کی تالیوں کے شور میں مقتول کی آخری چیخیں اور اس کے اہل و عیال کی آہیں دب جاتی ہیں۔ ملاوٹ کے کاروبار میں بڑے بڑے عزت دار شامل ہیں۔ اوجڑی اور سڑی ہوئی ہڈیوں سے بننے والا گھی اکثر یت کھا رہی ہے ۔
حضور یہ نوحہ میں آپ کو نہ سناؤں تو کس کو سناؤں کہ میرے ملک میں نقل مافیا‘ ،معاشرے کی عقل کو کھا گئی ہے ۔ اسکولوں میں اوطاق اور باڑے بن گئے ہیں ۔ہر سال لاکھوں بچے پرائمری اسکول میں تعلیم کو خیر باد کہ دیتے ہیں۔کروڑ سے زیادہ بچے کبھی زندگی میں کتاب کی شکل بھی نہیں دیکھتے ۔ جامعات میں انتہا پسندی پروان چڑھ رہی ہے۔ دہشت گرد گروہوں کی جو بھی نئی شکل آتی ہے وہ سب سے پہلے کسی جامعہ میں ہی نمودار ہوتی ہے ۔ سب کو نظر ٓا رہا ہے مگر دیکھ کوئی نہیں رہا ۔ ہماری بنیادیں مضبوط ہیں لیکن ان مضبوط بنیادوں کے باوصف ہم بنیاد پرستی کا شکار ہیں ۔ نظریاتی مملکت ہونے کے با وجود ہم نظرئیے سے عاری ہیں ۔
می لارڈ! آج مدارس میں کئی ایسے عناصر گھس چکے ہیں جن کا درس اور مدرسے دونوں سے کوئی تعلق نہیں بلکہ بہت سے تو ایسے بھی ہیں جن کا اسلام اور شریعت سے بھی کوئی تعلق نہیں ۔ آج ہمارے مدارس اپنے مقدس فریضے سے دور نظر آتے ہیں جناب والا آج پاکستان کا مقدمہ آپ کے سامنے ہے ۔ کئی مرتبہ عدالتوں میں دیکھا اور کئی مرتبہ پڑھا کہ تفتیش ٹھیک نہ ہونے کا فائدہ ملزمان کو مل گیا ۔ بڑے بڑے مقدمات میں بڑے بڑے ملزمان پولیس اور تفتیشی اداروں سے ساز باز کر کے بری ہو جاتے ہیں ۔ تفتیش خراب ہونے سے انصاف متاثر ہو تا ہے ۔ میری گزارش ہے کہ اگر کوئی پولیس اہلکار کسی مقدمے میں جان بوجھ کر تفتیش اس لیے خراب کرے کہ ملزم بچ جائے تو آپ عدالتوں کو حکم دیں کہ ایسے پولیس والے کو وہی سزا دیں جو اس ملزم کو ملنی تھی ۔ اگر ایسی پانچ دس سزائیں مل جائیں تو پولیس والے عدالت سے تھر تھر کانپیں اور تفتیش ایمانداری سے کریں۔
جناب ایک بہت بڑی ایف آئی آر کی ضرورت ہے ۔ایک ایسی ایٖف آئی آر جس میں صرف سچ لکھا ہو ۔ ایک ایسی تفتیش کی ضرورت ہے کہ جو صرف سچ کی بنیاد پر ہو۔ جناب ایک ایسے ٹرائل کی ضرورت ہے جس میں حقیقی سزا ہو۔ آج پاکستان کا‘ مقدمہ آپ کے سامنے رکھ دیا ہے ۔ مجھے آپ سے بہت امید ہے ۔میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ قاضی القضاء ہیں۔ میری داد رسی صرف آپ ہی کر سکتے ہیں۔ مجھے انصاف صرف آپ دے سکتے ہیں ۔ میں ایک عام پاکستانی ہوں اور آپ میری آخری امید۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں