The news is by your side.

مردم شماری کا سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہوگا؟

بدقسمتی سے پاکستان میں مردم شماری اور حلقہ بندیوں کا عمل ہمیشہ ہی سے دو فیصد امیر طبقے کی سازشوں کی زد میں رہا ہے۔19 سال کی طویل ترین مدت کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر 15مارچ،2017ءسے شروع ہونے والی مردم شماری پر عوام نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ اس دفعہ درست نتائج ضرور آئیں گے لیکن مردم شماری کے عبوری نتائج آتے ہی عوام کی ساری خوش فہمی غبارے میں سے ہوا کی طرح نکل گئی اور وہ چیخ اُٹھے ،ان چیخوں میں سب سے زیادہ بلند اور کرب میں ڈوبی چیخیں صوبہ سندھ کے شہری علاقوں خصوصاً کراچی، حیدرآباد کے عوام کی ہیں۔

کراچی جو ملک کا معاشی انجن ہے،یہاں گزشتہ 19 سالوں میں ملک بھر سے روزگار اور دیگر وجوہات کی بنا پر اس کی آبادی میں مسلسل تیزی سے اضافہ اورکراچی میں شرح پیدائش کی رفتار میں بھی مسلسل تیزی سے بڑھتے اضافے کو دیکھتے ہوئے ماہرین کے اندازے کے مطابق کراچی کی آباد لگ بھگ تین کروڑ ہونی چاہئیے تھی لیکن مردم شماری کے عبوری نتائج دیکھ کرماہرین سمیت باشعور عوام نے دانتوں میں اُنگلیاں دبا لیں کیونکہ کراچی کی آبادی 1 کروڑ 49 لاکھ10 ہزاراور352 نفوس ظاہر کی گئی ہے جو چھٹی مردم شماری میں سب سے بڑی ناانصافی ہے ۔

ٍ حیدرآباد بھی ہمیشہ سے ملک کے دس بڑے شہروں اور بالخصوص صوبہ سندھ میں معیشت کے لحاظ سے دوئم نمبر پر اپنا مثبت کردار ادا کرتا چلا آرہا ہے۔ یہاں بھی روزگار و دیگر وجوہات کے باعث دیگر علاقوں سے عوام کی گزشتہ 19 سال میں مسلسل نقل مکانی اور تیزرفتار شرح پیدائش کے باوجود مردم شماری کے عبوری نتائج میں آبادی 17 لاکھ32 ہزاراور693 نفوس ظاہر کرنا شہر کراچی کے بعد دوسری بڑی ناانصافی ہے۔ اس کے علاوہ سندھ کے دیگر شہری و دیہی علاقے بھی عبوری مردم شماری کے غلط نتائج کی لپیٹ میں آکر شدید محرومی کا شکار ہیں ۔

اگر ان محرومیوں کا فوری عملی ازالہ نہیں کیا گیا تو کراچی، حیدرآباد سمیت سندھ کے دیگر شہری و دیہی علاقے جو پہلے ہی وسائل کی کمی اور اُس پر ستم کرپشن کا شکار تھے پستی کی مزید اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتے چلے جائیں گے کیونکہ مذکورہ عبوری نتائج کے نتیجے میں وفاق سے سندھ کو ملنے والے وسائل آبادی کے حساب سے اُونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہی ثابت ہوں گے اور جو ملیں گے اُس کا بڑا حصہ بھی کرپشن کی گنگا میں بہہ جائے گا ۔نتیجتاً ضرورت کے مطابق تعلیم، صحت ، روزگار ، زراعت، ترقیاتی انفراسٹرکچر سمیت زندگی کے ہر شعبہ ہائے جات پر مزید انتہائی گہرے اور منفی اثرات ثبت ہوں گے جس کے متحمل کراچی، حیدرآباد و دیگر سندھ کے علاقے نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ علاقے پاکستان کے معاشی، سیاسی اور سماجی طور پر اہم اور اٹوٹ انگ ہیں یہاں عوام کے ساتھ زیادتی ہوگی تو سندھ کے معاشرہ میں محرومی، بیگانگی، مایوسی، انتہا پسندی، دہشت گردی، کرپشن، لوٹ مار،بدامنی، لاقانونیت خونریزی، اور دیگر جرائم کے پنپنے اور مضبوط ہونے کے امکانات روشن ہوں گے ایسے ماحول میں لسانیت اورفرقہ واریت بھی اپنا رنگ جمائے گی جس کے نتیجے میں پاکستان کے معاشرہ میں معیشت سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی پر منفی اثرات لازمی اپنا رنگ دکھائیں گے جس کا پاکستانی معاشرہ قطعی متحمل نہیں ہوسکتا۔

مردم شماری میں ناانصافی کا مسئلہ جو مشترکہ مفادات کونسل میں زیرِ غور تھا کو متفقہ طور پر حل کرنے کی مثبت پیش رفت ہوچکی لیکن ہنوز اس کا نتیجہ آنا باقی ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے لئے آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کی اکثریت نے حمایت کر کے الیکشن کے بروقت انعقاد کو یقینی بنانے میں اپنا مثبت کلیدی کردار ادا کردیاتھا لیکن افسوس نئی حلقہ بندیاں سامنے آنے پر عوام کو مزید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ۔ ایک جانب پہلے ہی کراچی کی آدھی آبادی مردم شماری میں” آدم خوری “کا شکار ہو چکی ہے اور اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ نئی حلقہ بندیوں میں کراچی شہر کی ایک نشست بھی کم کر کے دیگر علاقوں میں ضم کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے لاکھوں عوام مزید محرومیوں کا شکار ہو جائیں گے ۔جاری حالات میں یہ عمل جلتی پر مزید تیل ڈالنے کے مترادف ہے ۔انتخابات میں صرف چند ماہ باقی رہ گئے ہیں اور نئی حلقہ بندیوں پر ملک بھر سے 500 سے زائد اعتراضات الیکشن کمیشن میں جمع کرائے جا چکے ہیں۔ اتنے قلیل وقت میں اتنے اعتراضات کو نمٹانا مشکل نظر آتا ہے جس کے سبب انتخابات التوا کا شکار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن الیکشن کمیشن پُر عزم ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے۔

چھٹی مردم شماری 2017ءکے عبوری نتائج کو ایم کیو ایم،پاک سر زمین پارٹی، جئے سندھ قومی محاذ،سندھ عوامی محاذ ، قومی عوامی پارٹی، تحریکِ انصاف، مہاجر قومی موومنٹ،جماعتِ اسلامی، اہلسنت و الجماعت، سنی تحریک، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ (ن)،جمعیت علمائے اسلام(نورانی)،جمعیت علمائے اسلام(ف)،سندھ ترقی پسندپارٹی، سندھ یونائیٹڈ پارٹی، مسلم لیگ فنکشنل نے مسترد کر دیا ہے جبکہ ایم کیو ایم پاک سر زمین پارٹی و دیگر نے نئی حلقہ بندیوں پر اعتراضات الیکشن کمیشن میں جمع کرادئیے ہیں ۔

عوام بالعموم سندھ اور خصوصاً کراچی ،حیدرآباد میں کی جانے والی ناانصافیوں پرتوقع کر رہے تھے کہ” مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں “کا نعرہ لگانے والی دس سال سے زائد سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی شدید واویلا مچائے گی لیکن صورتحال اس کے برعکس رہی اور پی پی پی نے صرف میڈیا میں ڈھیلے ڈھالے بیانات دینے پر اکتفا کیا ہے اور دکھاوے کے آنسو بہا رہی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی ایسا کیوں کر رہی ہے؟ اس کی دو وجوہات ہیں ۔

سندھ میں وڈیروں کے 27 خاندان ہیں ۔ان 27 خاندانوں میں سے پہلے باپ اور پھر بیٹے ، بیٹیاں، داماد الیکشن میں بڑے طاقتور ثابت ہوتے چلے آرہے ہیں کیونکہ اندرونِ سندھ میں خصوصاً غریب ہاری ان وڈیروں کا غلام ہوتا ہے اس لئے یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ان وڈیروں کی زمینوں پر اناج کم اور سینیٹرز، قومی و صوبائی اراکین اسمبلی اور بلدیاتی نمائندگان کی نشستیں زیادہ اُگتی ہیں اس لئے سندھ پر وڈیروں کا راج عرصے سے چلا آرہا ہے جس کی وجہ سے سندھ اور اس کے عوام تباہ حال ہوچکے ہیں اور ان وڈیروں کی اکثریت پیپلز پارٹی میں شامل ہے اس لئے پیپلز پارٹی کو کوئی خوف نہیں رہتا کہ اگر مردم شماری میں اندرونِ سندھ کی آبادی کم بھی ظاہر کی گئی ہے اور حلقہ بندیوں میں علاقے کٹ بھی جائیں تو مظلوم ہاری و دیگر عوام جو وڈیرے کے شکنجے میں ہوتے ہیں ان سب کے ووٹ لازمی وڈیروں کو ملیں گے اور وہ الیکشن میں جیت کر اسمبلیوں میں آجائیں گے ۔

یاد رہے کہ ایک ممبر قومی اسمبلی کی نشست کے علاقے میں دو صوبائی اسمبلی کے اراکین کی نشستیں بھی شامل ہوتی ہیں اس لئے پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں بھی اچھی خاصی تعداد میں نشستیں حاصل کر لیتی ہے اور اگر اس کا وزیر اعظم نہ بھی آسکے تو اپوزیشن لیڈر آجاتا ہے جبکہ صوبائی سطح پرا ندرون سندھ سے جیتی زیادہ تر نشستوں کی بدولت پیپلز پارٹی کا وزیرِ اعلی لازمی منتخب ہوتا ہے جو کہ پیپلز پارٹی کا اصل ہدف بھی ہوتا ہے۔

ستم یہ بھی ہے کہ اگر جمہوری دور ہو تو وڈیرے اقتدار میں اور مارشل لاءہو تو بھی یہ اقتدار میں ہوتے ہیں ۔ وڈیروں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے کئی جماعتیں اقتدار حاصل کرنے کے لئے انہیں اپنے ساتھ شامل کر لیتی ہیں جس کی ایک مثال سندھ کے دو سابق وزرائے اعلی ممتاز بھٹو اور لیاقت جتوئی کا تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کر نا ہے۔

یہ 27 وڈیرے خاندان اسمبلیوں میں پہنچ کر اپنی اکثریت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے سندھ اور اس کے عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے قانون سازی نہیں ہونے دیتے اور بادل ناخواستہ بڑی مشکل سے اگر اُونٹ کے منہ میں زیرے کی مترادف قانون سازی ہو بھی جائے تو اس پر عمل درآمد نہیں ہونے دیتے۔ یہ اپنے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کے نام پر رشوت دیتے ہیں تاکہ وہ اس میں مشغول رہیں اور ان کے سامنے کبھی سچ بات نہ کرسکیں پیپلز پارٹی کی موجودہ سندھ حکومت نے تو ترقیاتی فنڈز کے ساتھ بلدیاتی فنڈز بھی اپنے ارکان اسمبلی کو دے دئیے ہیں جو ان ارکان ِ صوبائی اسمبلی کا حق نہیں ہے۔

پیپلز پارٹی بخوبی جانتی ہے کہ مردم شماری میں شہری علاقوں کی آبادی خصوصاً کراچی، حیدرآباد کی آبادی کم ظاہر کی جاتی ہے تو اس کا زیادہ تر نقصان اُردو بولنے والوں / مہاجروں کو ہوگا کیونکہ اس طرح اُردو بولنے والے/ مہاجر اقلیت میں آجائیں گے اور شدید مسائل میں گھرے اس طبقے کی نشستیں مزید کم ہوجائیں گی۔ اس کے ساتھ مزید نقصان ان کو دھڑے بندیوں سے پہنچے گا اور ایم کیو ایم جس کا خصوصاً کراچی اور حیدرآباد پر عوامی راج ہے کو بھی شدید نقصان پہنچے گا اور یوں پیپلز پارٹی اپنے دیرینہ مقاصدحاصل کرلے گی ۔ مذکورہ بالا دو ٹھوس وجوہات جن کے سچ ہونے کا معاشرے میں موجود باشعور عوام کو بخوبی علم ہے ثابت کرتی ہیں کہ پیپلز پارٹی مردم شماری، حلقہ بندیوں کے معاملے پر صرف مگر مچھ کے آنسو بہا رہی ہے۔

ؤجاری حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے نتائج اگر اب بھی درست نہیں آتے تو کراچی اور حیدرآباد سندھ اور سندھ کراچی اور حیدرآباد کے ساتھ متحدہوکر مثبت جدوجہد سندھ ، اس کے عوام اور پاکستان کو مضبوط بنانے کے لئے کرے۔ پاکستان اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہے اس نازک صورتحال میں اسے سب سے زیادہ قومی یکجہتی کی ضرورت ہے جو معاشرہ میں موجود ناانصافیوں کو بروقت ختم کرنے کے عملی اقدامات ہی سے مضبوط ہو سکتی ہے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

 

شاید آپ یہ بھی پسند کریں