The news is by your side.

ایم کیو ایم‘ ابتدا سے ابتلا تک

ایم کیو ایم اپنے قیام سے لے کر آج تک بڑے نشیب و فراز سے گزرتی رہی ہے مگر کیوں کہ اس کی جڑیں عام آدمی تک پھیلی ہوئی ہیں اس لئے باوجود سخت ترین حالات سے گزرنے کے بعد بھی یہ اب تک قائم ہے۔ کچھ عرصے قبل تک لوگ اس کے نظم و ضبط کی مثالیں دیا کرتے تھے لیکن آج صورتحال یکسر مختلف ہوچکی ہے اورآج ایم کیو ایم شدید ابتلا میں مبتلا ہے۔

ایم کیو ایم کی بنیادوں میں پہلا زبردست اندرونی بھونچال 22،اگست،2016ءکو آیا جب لندن سے پارٹی کے بانی نے ملک مخالف نعرہ بلند کیا تو ایم کیو ایم کے بیشتر ذمہ داران و کارکنان اور خصوصاً اُردو بولنے والوں کو بھی بے انتہا دکھ اور صدمہ پہنچا کیونکہ اُنہیں یہ توقع نہیں تھی ۔پھر بھی کارکنان اور عوام نے یہ سوچ کر کہ شاید ریاستی آپریشن میں کارکنان کے ساتھ کی جانے والی ظلم و زیادتیوں کی وجہ سے شدتِ جذبات سے بے قابو ہوکر الطاف حسین نے یہ نعرہ لگا دیا ہو اپنے شدید دکھ کو کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی لیا لیکن اس سے قبل بھی وقفے وقفے سے ملک مخالف سوچ کا اظہار کیا جاتا رہا تھا سو پھر ایم کیو ایم کے کارکنان اور اُردو بولنے والے عوام نااُمید ہوگئے کیونکہ یہ سب بانیان پاکستان کی اولادیں ہیں اور ان کا ہر عمل ملک کی سلامتی ، ترقی و خوشحالی کے ساتھ رہا ہے اور رہے گا یہ ملک کے خلاف جانے کا تو سوچ بھی نہیں سکتے اس لئے انہوں نے ہمیشہ کی طرح پاکستا ن کے حق میں اپنا فیصلہ سنایا اور لندن سے لاتعلقی اختیار کر لی۔

یہ وقت ایم کیو ایم کے کارکنان اور اس سے وابستہ خصوصاً اُردو بولنے والے ہمدرد عوام کے لئے انتہائی کڑا وقت تھا ان میں اضطراب،بے یقینی ، بے چینی کی کیفیات بڑھنا شروع ہو چکی تھیں اس مشکل ترین صورتحال کے بھنور سے انہیں ڈاکٹر فاروق ستار ، خالد مقبول صدیقی، عامر خان، امین الحق،نسرین جلیل، سردار احمدو دیگر تجربہ کار راہنماؤں نے شدید دباؤ اور پریشانیوں کے باوجود متحد ہوکر آہستہ آہستہ باہر نکالنا شروع کیا کارکنان اور عوام میں بھی اُمیدوں اور حوصلوں نے پھر سے پنپنا شروع کیا اور وہ دامے درمے قدمے سخنے ماضی کی طرح ایم کیو ایم کا بے لوثی اور مخلصی سے ساتھ دینے لگے جس کی وجہ سے کامیابیوں نے دوبارہ ایم کیو ایم کے قدم چومنا شروع کئے جو کہ ایم کیو ایم کے کراچی، حیدرآباد کے بڑے عوامی جلوسوں اور ریلیوں کی صورت میں دکھائی دیں جن کو غیر جانبدار مبصرین نے بھی سراہالیکن شاید شدید دباؤ کے تحت یہ لوگ بھی ایک بڑی بنیادی غلطی کر بیٹھے ۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پہلے بنیاد رکھی جاتی ہے پھر عمارت تعمیر ہوتی ہے اور سیاسی جماعتوں کی بنیاد اُن کا منشور ہوتا ہے۔23، اگست، 2016ء کو پاکستان کے حق میں نعرہ لگا کر نئے سفر کی بنیاد ڈاکٹر فاروق ستار اور اُن کے رفقاءکو جلد سے جلد ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں ،کے فلسفے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اُردو بولنے والے غیر جانبدار سیاسی دانشوران، کارکنان و عوام کی مشاورت کے ساتھ نیا منشور لا کر رکھنی تھی۔ اس طرح ایک جانب دانشور طبقے سمیت کارکنان و عوام کو اس اہم فرض میں اپنی شرکت کا عملی احسا س ہوتا تو دوسری جانب جب اس نئے منشور کو لے کر ایم کیو ایم کے راہنما گلی گلی ، محلے محلے عوام کے درمیان جاتے تو انہیں اچھی پذیرائی ملتی کیونکہ انہوں نے اس عمل میں پہلے ہی سب کو شامل کر لیا تھا اورساتھ ہی بے شمار نئے پڑھے لکھے کارکنان بھی ایم کیو ایم کا حصہ بن جاتے جس سے ایم کیو ایم مضبوط ہوتی۔

لیکن صورتِ حال اس کے برعکس رہی اور بجائے اُردو بولنے والے سیاسی دانشوران، کارکنان وعوامی حمایت سے نیا منشور تیار کر کے عوام میں لے جانے کے نئے ترانے متعارف کرائے گئے جو خوبصورت اور جذبات اُبھار کر جوش دلانے والے ضرور ہیں لیکن چند منٹ چلنے کے بعد جب یہ ختم ہوتے ہیں تو عوامی مسائل پہلے کی طرح منہ چڑا رہے ہوتے ہیں جس کے باعث کارکنان کا سارا جوش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔

وقت خاموشی اور سُر عت سے گزرتا رہا اور اندرونِ خانہ کامران ٹیسوری سمیت مختلف معاملات پر اختلافِ رائے بھی چلتا رہا جو بدقسمتی سے میڈیا کی زینت بنتا رہا جس کی ایم کیو ایم راہنما تردید کرتے رہے لیکن نظم و ضبط کی گرفت ڈھیلی پڑ چکی تھی جس کی ایک مثال ایم پی اے ارم عظیم فاروقی کے معاملے پر بھی دکھائی دی جب ایم کیو ایم میں اُن کی دوبارہ شمولیت کے معاملے پر اندر سے ایک طبقے نے اُن کی شمولیت کے خلاف بغاوت کی جو سوشل میڈیا پر بھی اُس طبقے کا ساتھ دینے والے مرد و خواتین کارکنان کی جانب سے نظر آئی۔ایسا ایم کیو ایم میں پہلے کبھی سامنے نہیں آیا تھا کہ کسی کی شمولیت پر اندر بیٹھے چند افراد کی ایماءپر شمولیت روکنے کے لئے سوشل میڈیا تک آکر ہر حربہ آزمایا جائے جبکہ وہ شخصیت نہ جاگیردار ہو، نہ وڈیرہ اور نہ ہی جرائم پیشہ ہو ۔ محض چھوٹے موٹے پرانے اختلافات کو بنیاد بنا کر اور یہ دیکھ کر کہ اب ہم مضبوط ہیں، ہم جو کہیں گے وہی ہوگا ،نہیں تو ہم کام نہیں کریں گے کی بنیاد پر منوائے جانے والے فیصلے اندر ہی اندر ایم کیو ایم کو کمزور کرنے کا باعث بننے لگے ۔اس کے بعد سلمان مجاہد بلوچ کا معاملہ سامنے آیااور آخر کار دوریاں بڑھتے بڑھتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ نظم و ضبط قائم رکھنے اور انا کو فنا کرنے کا درس دینے والے تمام راہنماؤں نے از خود 5،فروری،2018ء کو گھر کی ہنڈیا بیچ چوراہے پر لا کر پھوڑ دی ۔

یہ دوسرا زبردست اندرونی بھونچال تھا جو سینیٹ کی نشستوں، کامران ٹیسوری اور اختیارات کے دائرے کار سے متعلق سامنے آیا اور یہ تنازع ایم کیو ایم کے کارکنان اور اس سے وابستہ ہمدرد عوام کے زخموں کو پھر سے ہرا کر گیا کیونکہ انہیں ہر جگہ شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ۔یہ باتیں بھی کارکنان میں گردش کرنے لگیں کہ ہزاروں اُردو بولنے والوں نے ایم کیو ایم کو ختم ہونے سے بچانے کے لئے اپنی قیمتی ترین جانیں تک قربان کیں، اسیری کی کرب ناک اذیتوں کو بھی برداشت کیا وغیرہ اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے یہاں تک کہ کارکنا ن اور عوام الطاف حسین تک سے لاتعلق ہوگئے تو کیا پانچ فروری سے جو عمل ایم کیو ایم کے راہنماؤں نے ٹی وی پر آکر شروع کیا وہ ایم کیو ایم کو متحد اور برقرار رکھنے کے لئے ہے ؟۔

میڈیا میں گھر کی ہنڈیا پھوڑنے کے بعد کارکنا ن سے رابطہ کرنے، دونوں جانب سے جلسوں کا انعقاد کرنے، انٹرا پارٹی الیکشن کرانے اور کارکنان کو طاقت کا سرچشمہ قرار دینے سے زیادہ بہتر تھا کہ شروع ہی سے بند کمروں کی اکثریت کی جگہ پیچیدہ معاملات پر اجلاس بلا کر کارکنان کو معاملات میں شریک کر لیا جاتا تونہ مشترکہ دوست کے گھر پر راضی نامے کے لئے جا کر خود کو شکوک و شبہات میں ڈالنا پڑتا ، نہ اتنی شرمندگی کا سامناکرنا پڑتا اور نہ ہی یہ تقسیم نظر آتی جو پی آئی بی اور بہادر آباد کی صورت میں اب تک موجود ہے جس سے خرابیاں زیادہ پنپ رہی ہیں جو درحقیقت ایم کیو ایم، اس کے کارکنان ، عوام اور سیاست کے لئے بھی بہتر نہیں ہیں۔

ایم کیو ایم میں پہلے ایسانہ ہونے کے برابر تھا اس لئے جہاں مخالفین اس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں وہیں ایم کیو ایم سے وابستہ کارکنان اور عوام کے لئے یہ صورتحال انتہائی تکلیف دہ ہے اور 22، اگست کے بعد یہ سب پھر اضطراب، بے چینی اور بے یقینی کی کیفیات میں مبتلا ہو رہے ہیں ۔ ایسا نہیں ہونا چاہئیے۔ لیکن یہ بھی اپنی جگہ درست ہے کہ اب یہ صورتحال بھی ایم کیو ایم میں ہوچکی اگر آئندہ بھی ایسا ہوتا ہے تو کوئی نئی بات نہیں ہوگی کیونکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اندرونِ پارٹی اختلافات کا ہونا اور اُن کا منظرِ عام پر آنا کوئی نئی بات نہیں ۔

حال ہی کی مثال لے لیجیے مسلم لیگ (ن) میں چوہدری نثار اور پر ویز رشید کے درمیان اختلافات میڈیا پر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔کچھ عرصے قبل حیدرآباد پریس کلب پر پی پی کی رہنما محترمہ شگفتہ جمانی نے پارٹی میں ہونے والی ناانصافیوں کے متعلق پریس کانفرنس کی ،کئی مرتبہ جامشورو اور دیگر علاقوں سے پی پی کے کارکنان مقامی قیادت کے رویے سے دلبرداشتہ ہوکر پر یس کلب پر احتجاج کرتے رہے ہیں۔اس لئے ایم کیو ایم سے وابستہ عوام ہوں یا کارکنان سب کو حقیقت پسندی کا عملی ثبوت دیتے ہوئے آئندہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا زیادہ اثر نہیں لینا چاہئیے۔

جاری حالات میں دشمن منہ پھاڑے پاکستان پر حملہ کرنے کے لئے پر تول رہا ہے ایسے وقت میں پاکستان کو داخلی استحکام کی اشد ضرورت ہے جس کے لئے اچھی سیاست اور جمہوریت کا تسلسل انتہائی اہم ہے ۔ سب کو یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ اچھائی ہو یا برائی ہمیشہ اُونچائی سے شروع ہو تی ہے جس کے اثرات جڑوں تک پہنچتے ہیں ۔لہذا جہاں غیر سیاسی قوتوں کو ایم کیو ایم کو بکھیرنے کے عمل سے اجتناب کرنا چاہئیے وہیں ایم کیو ایم کے راہنماؤں کو بھی چاہئیے کہ مستقبل میں ٹی وی، سوشل میڈیا پر آکر اس طرح لڑنے جھگڑنے سے گریز کریں ۔ان کے اُصولی اختلافات منشور پر رائے شماری کے لئے سامنے آتے تو سمجھ میں آتا ہے کہ تنظیم،عوام اور سیاست کی بہتری کے لئے اختلافِ رائے کیا جا رہا ہے ۔ کامران ٹیسوری، سینیٹ کی نشستوں اور اختیارات سے متعلق اختلافِ رائے سامنے آنے سے کارکنان اور خاص کر عوام میں راہنماؤں کی ذاتی مفادات کی لڑائی کا تاثر پروان چڑھ رہا ہے جس کو ختم کرنے کے لئے ایم کیو ایم کے تمام راہنماؤں کو ملک و قوم کے لئے متحد ہوکر نیا منشور لے کر عوام کے درمیان جلد جانا ہوگا۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں