گزشتہ سے پیوستہ
دبئی ائیرپورٹ سے ایک عرب ائیر لائن کا طیارہ ہمیں لیے کالے پہاڑوں کے عظیم ترین سلسلوں اور چھوٹی چھوٹی وادیوں کو پیچھے چھوڑتے حجاز کے ان مقدس شہروں کی طرف اُڑاجن کی مٹھی میں لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کی نہیں صدیوں اور نسلوں کی نبضیں ہیں۔ان سرحدوں سے نکلتی ہوئی مقناطیسی لہریں دنیا اور جہانوں کی ہر شے کو زندگی سے جوڑتی ہیں۔ پرسکون اور نسبتا ًخالی سے مدینہ ائیرپورٹ کے حج اور عمرہ کاؤنٹر پر کم سے کم تین پروازوں کا اک جمِ غفیر تھا جسے دیکھ کر خاصی حیرانی ہوی کہ عمرہ کے لئے آنے والوں کا تناسب ہماری توقع سے کہیں زیادہ تھا۔
سات آٹھ قطاروں میں کم سے کم بھی پچاس فی صد کراچی سے آنے والی پرواز کے پاکستانی تھے۔اور ان چار دنوں میں ہم نے جانا کہ عمرہ کے لیے پہنچنے والوں میں سب سے آگے پاکستانی ہیں۔اس قدر زیادہ کہ یوں لگتا ہے کہ میزبان ملک پاکستان ہے اور باقی سب عرب دنیا زیارت کو آئی ہے۔صرف یہی نہیں سب سے زیادہ خستہ حال،جھریوں ذدہ چہرے،کانپتے ہوے بوڑھے جسم بھی پاکستان سے ہی مکہ اور مدینہ پہنچتے ہیں۔نجانے اس کی وجہ وہ سرمایہ ہے جو عمر بھر لگا کر جمع ہوتا ہے یا وہ سوچ کہ حج اور عمرہ بڑھاپے کا فریضہ ہے۔
مدینہ منورہ کی دلنشین شام کے دھندلکے میں سرکتے سرکتے کوئی گھنٹہ بھر اس کاؤنٹر پر لگا کر جب باہر لاونج میں نکلے تو پولیس اور سیکورٹی کو انگریزی سے مکمل نابلد اور اشاروں میں محو گفتگو پایا۔انگریزی کی نسبت کچھ کچھ اردو یا ہندی بول اور سمجھ لیتے ہیں، اس کی وجہ بھی یہی پاکستانیوں کی بے تحاشا وہاں پر موجودگی ہی ہے۔ائیرپورٹ سے باہر طے کردہ پیکج کے مطابق جو ٹیکسی موجود تھی وہ اپنے رتبے میں تو یقیناً وہی تھی جس کی قیمت ادا کی گئی تھی مگر شاندار ضرور کسی قدیم زمانے میں ہی رہی ہو گی چونکہ اس وقت تو وہ بس چلتی کا نام گاڑی تھی۔
ہم عمرہ کی نیت سے اپنا دل اور توجہ زیارات پر ٹکائے کمال درگزر اس کی خستہ حالی سے کر کے ہوٹل کی سمت روانہ ہوئے جو یقینا ہماری معلومات کے مطابق پیارے نبی کی مسجد کے ساتھ ہی تھامگر یہ جانا کہ یہاں پر ٹریول ایجنٹ ضرور بہت کماتے ہوں گے جو دایاں دکھا کے بایاں تھماتے ہیں، پیسے مکمل وصول کرتے ہیں اور ہم جیسے عقیدتوں سے بھرے ان کی ہر بد دیانتی سے صرفِ نظرکئے چلے جاتے ہیں جو کوئی ایسی بڑی نیکی بھی نہیں کہ ایک ذرا سا روحانی جھکاؤ ہمارے نفس کو بہت سے فساد سے روکتا چلا جاتا ہے۔ یہ ماجرا ہم نے آخر دم تک دیکھا۔سو اس سفر پر نکلنے سے پہلے ایجنٹ سے طے کرتے، دوست احباب سے ،بکنگ ڈاٹ کام سے گوگل وغیرہ سے اچھی طرح تسلی کر لیں کہ کہیں آپ پورے کی قیمت دے کر آدھا تو نہیں لینے والے۔
ایک شہر کے طور پر اپنی ہیئت اور انداز سے مدینہ کراچی اور لاہور سے کچھ مختلف نہیں۔وہی ڈھیروں ڈھیر پاکستانی،پرانی سڑکیں اور عمارات،کچے پکے علاقے۔۔۔۔۔مگر اس قدر عام سا شہر اپنی تاثیر میں لاجواب دیکھا۔پہلے پہل آپ اس کی سڑکوں میں عمارتوں میں اور لوگوں میں کچھ مختلف کچھ شان و شوکت ڈھونڈتے ہیں اور ناکام ہوتے ہیں۔پھرآہستہ آہستہ آپ پر اس کے جادو کے طلسم کھلتے ہیں اور محسوس ہونے لگتا ہے کہ اس جگہ سے خوبصورت مقام شاید پوری زمین پر نہیں اور یہ خوبصورتی نہ تو یہاں کے لوگوں میں، سڑکوں میں اور نہ ہی عمارتوں میں، یہ تو کوئی اور ہی اجلی تاثیر ،کوئی نور کی بارش،کوئی رحمتوں کا سایہ ہے جو دھیرے دھیرے آپ پر اپنے اسرار کھولتا ہے۔ہوٹل کی جس کھڑکی سے ہم سبز گنبد کے محبوب مناظر دیکھنے اور اپنے ڈی ایس ایل آر میں محفوظ کر لینے کے ارمان میں گم تھے ہوٹل پہنچ کر جانا کہ وہاں سے محض باہر صحن کے چند مینار دکھائ دیتے ہیں۔
ذرا سی مایوسی ہوئی چونکہ اپنا وزنی کیمرہ کاندھے پر لادے میں اسی آس میں ساتھ لائی تھی کہ ایسی فوٹوگرافی کا کیا فائدہ جب اللہ کے پیارے گھر اور اس کے محبوب کے روضے کی ہی تصاویر نہ بنیں۔میری معلومات کے مطابق حرم کعبہ اور مسجد نبوی کے اندر پروفیشنل کیمرے کی اجازت نہ تھی۔اور موبائل سے گھڑی گھڑی تصاویر لینے کے میں حق میں نہیں تھی۔سو موبائل بیگ سے صرف روضہ رسول کی ہری جالی کا اک یادگار فوٹو لینے کے لئے نکلا۔مگر میرے دل کی یہ ذرا سی آرزو بھی اس در سے نامراد نہ لوٹی اور پیارے نبی پاک کے گھر سے میرے کیمرے اور خواہش کی طلب کو خوب دل سے نوازا گیا۔الحمداللہ! ۔
اور سچ تو یہ ہے کہ مایوسی،نامرادی،تکلیف،غصہ، اور کوفت جیسے تکلیف دہ جزبات مدینہ منورہ کی پرنور ہواؤں سے نادیدہ انداز میں غائب ہیں۔کچھ ایسے جادو ہیں کچھ ایسے طلسم ان دو مقامات پرجو ہمیں دھکیلے لیے آتے ہیں۔ اس میں نہ ہماری نیکو کار ہونے کی کوئی گواہی نہ ہمارے اعمال کی روشنی، یہ سب تو ان جگہوں کی تاثیر ہے کہ ہم جیسے ٹوٹے پھوٹے بیزار دل آہ و زاریاں کرنے لگتے ہیں۔کیسے کیسے کاہل اور سست الوجود ہم گھنٹوں کھڑے اور چلتے ان ناموں کا ورد کرنے لگتے ہیں کہ جن کا زبان پر آنا ہی کبھی بہت بھاری لگتا ہے۔جھریوں زدہ کانپتے ہاتھ سکڑتے جسم جو چلیں تو لگے کہ ابھی گریں گے کیسے کیسے پھنسے ہجوم میں نکلتے چلے جاتے ہیں اور مسکراتے لوٹتے ہیں،جہاں تل دھرنے کی جگہ نہ ہو وہاں بیمار اور بوڑھے سجدے کرتے نمازیں پڑھتے اور سلامتی پاتے ہیں۔یہ کرم کسی اور ذات کا ہے یہ ہماری اور آپ کی ہمت کہاں،یہ ہم سب کی اوقات کہاں۔