The news is by your side.

آج کے پاکستان کا اصل مسئلہ

صرف مسلمانوں کو دہشت گرد بنا کر پوری دنیا میں نسل کشی کی جا رہی ہے ۔2000 سے 2014 تک امریکہ کے بڑے بڑے جنرل آئے اور جدید ہتھیاروں سے معرکہ افغانستان کو سر کرنے کی کوشش کی لیکن 2014 میں کوئی نام و نشان ہی نظر نہیں آتا تھا امریکی فوج کا اور امریکہ میں عوام نے اس پالیسی کے خلاف احتجاج کرنے شروع کر دئیے ماؤں نے اپنے بیٹوں اور بہنوں نے اپنے بھائیوں کو امریکی فوج میں بھرتی ہونے سے روک دیا،پینتیس ہزار سے زائد خود کشیاں عمل میں آئیں ۔

اگر ہم مبہم سا جائزہ لیں تو اس وقت روس اور امریکہ مشنری برادرز کے ہاتھوں کٹھ پتلی کی صورت ناچ رہے ہیں ۔ انہوں نے اپنی اپنی سمتوں کو چن لیا ہے ، روس نے فلسطین ، شام ،مصر ، لیبیا ، مراکش ، تیونس ، الجزائر اور عراق وغیرہ کو مشنری برادرز کے مشن کو پورا کرنے کیلئے ان پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں جبکہ امریکہ کو خلیجی ممالک حصے میں آئے ہوئے ہیں ۔ ان تمام اسلامی ممالک کا اگر ہم جائزہ لیں تو تاریخ مسلمانوں کی شان و عزت اور مرتبہ کو آشکار کرتی نظر آتی ہے ۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کے خطوط پر احمد شاہ ابدالی جو افغانستان کا اس وقت بادشاہ تھا نے برصغیر پر چڑھائی کر دی اور ڈوگروں اور مرہٹوں کی اینٹ سے اینٹ بجا کے رکھ دی ۔

مصر مسلمانوں کیلئے علم کا مرکز رہا ، ہزار سالہ تاریخی تعلیمی مرکز جا معہ الازہر اسی ملک میں واقع ہے جہاں بڑی بڑی لائبریریاں اور کتب خانے ، محدثین کی تاریخیں ملتی ہیں ، اور روم بھی سلطنت اسلامیہ کی شان دار مثال تھی جہاں بڑے بڑے علماء ، مفکر گزرے، آپ دیکھیں ترکی کو جو خلافت کی پہچان تھا ۔ برصغیر میں مسلمان بادشاہوں کی حکومت قائم رہی ، سپین اور غرناطہ میں مسلمانوں کا طرہ امتیاز آج بھی وہاں کے مکینوں کیلئے مسلمانوں کی شان و شوکت کا غماز ہے ۔مسلمانوں کی تاریخ جاہ و جلال ، عظمت و رفعت اور اعلیٰ اقدار انسانیت و حکومت کا مظہر رہی ہے ۔

ایسے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے کہ اسلام کی سربلندی اور حق کیلئے ایسی لازوال قربانیاں دی گئیں جس کی نظیر نہیں ملتی ۔ لیکن آج ہم کیا ہیں؟ ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم تعلیم محض نوکر بننے کیلئے حاصل کرتے ہیں اور اس پر پیسہ انویسٹ منٹ کے طور پر خرچ کرتے ہیں کہ اگر انجینئر بنے تو اتنا پیسہ آئے گا !ڈاکٹر بنے تو اتنا پیسہ آئے گا! اور اگر کچھ بنے تو یہ کچھ حاصل ہو گا ، کاش ہم یہی تعلیم انسان بننے اور انسانیت کے فروغ کیلئے حاصل کرتے تو ہمیں فہم ہوتی ، شعور ہوتا کہ دشمن ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیل رہا ہے ۔ دشمن نے ہمارے نظریات کے ساتھ کھلوا ر کیا اور ہمیں گروہوں میں تقسیم کرکے آپسی انتشار میں الجھا کر رکھ دیا ہے ۔

کیا یہاں کوئی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا بھی ہے؟ کیا کسی کو فہم بھی ہے ؟ کس قدر ہم صیہونی جال میں پھنستے جا رہے ہیں ! کیا آج آپ ﷺ کی حدیث مبارکہ سچ ثابت نہیں ہو رہی جس میں انہوں نے فرمایا کہ آدمی دن کو مسلمان اور رات کو کافر یا رات کو مؤمن اور دن کو کافر ہو گا؟سیاسی جوڑ توڑ کئے جا رہے ہیں ، نواز شریف کی آج پیشی ہے ، فلاں اداکارہ کو ہراسا ں کیا گیا ہے ، عمران خان نے یہ کہہ دیا ہے ، جھوٹ ،، جھوٹ اور جھوٹ کا ہر طرف بول بالا ہے ۔ حق بات کرنے والوں کی زبان پر قدغن لگا دو اور جھوٹ کو عام کرو ، کیا کسی کو دشمن کی چالوں کی سمجھ آتی بھی ہے ؟ جو اصل مسئلہ ہے اس جانب توجہ نہ تو کوئی دلانا چاہتا ہے اور نہ ہی کوئی اس کی بات کرتا ہے ۔

ضرورت ہے کہ اس وقت تاریخ مسخ کرنے کے بجائے صحیح تاریخ پڑھائی جائےاور عوام کو سچ بتایا جائے ، نوجواں نسل کی ذہن سازی میں خصومت مت بھرو! ان کے ہاتھوں میں دنیا جہان تک رسائی دے دی گئی ہے اور وہ بھارت اور امریکہ سے دوست بناتے ہیں اور محبتوں کا اظہار کرتے ہیں ، کہتے ہیں یہ سرحد نہیں ہونی چاہئے ، پاکستان اور ہندوستان کی عوام کا دل ایک دوسرے کے ساتھ دھڑکتا ہے ، انہیں بتاؤ کہ میرے نبیﷺ اور اللہ کا حکم ہے کہ: یاد رکھو یہ کفار تمہارے کبھی دوست نہیں ہو سکتے ۔تم ان کے ہاتھوں کٹھ پتلی نہیں بنو ! اپنے اسلاف، تہذیب و ثقافت کا سودا مت کرو ۔ نواب محسن الملک،رحمت علی خان ، سر سید احمد خان،سلیم اللہ خان ، محمد علی جناح، علامہ اقبال، لیاقت علی خان ، نواب وقار الملک جیسے نواب زادوں ، جو برطانیہ سے پڑھ کر آئے تھے لیکن انہوں نے اپنی بنیادی تعلیمات نہیں چھوڑیں ، انہوں نے اسلامیت کا پرچار کیا اور مسلمانوں کا درد اپنے سینوں میں دھڑکتا محسوس کیا ۔

آج پاکستان کا مسئلہ نواز شریف کی نا اہلی ، مریم نواز کی تقریریں ، عمران خان کی شادی یا زرداری اور ایان علی نہیں ہیں بلکہ پاکستان کا مسئلہ اس کی شہہ رگ مقبوضہ کشمیر ہے ۔ نوجوانوں کیلئے سوچنے اور پاکستان سے محبت کرنے والوں کیلئے عبرت کا مقام ہے کہ ستر سال گزرنے کے بعد بھی ہماری شہہ رگ دشمنوں کے ہاتھوں میں ہے ۔ اور پاکستان کو لبرل اور سیکولر بنانے کی خاطر یہاں کشمیر کی بات کرنے والوں اور جہاد کی بات کرنے والوں پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ ان صیہونی چالوں کا جواب دینے اور ان کو فاش کرنے کیلئے آج بھی کچھ اللہ کے بندے میدان عمل میں ہیں جو نوجواں نسلوں کو ان کی اصل کی طرف بلاتے ہیں ، نظریہ پاکستان یاد دلاتے ہیں اور پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے مقصد سے روشناس کرواتے ہیں ۔

کچھ روز قبل پروفیسر عبدالرحمٰن مکی جھنگ تشریف لائے ، وہ انتہائی علمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ، پروفیسر عبد اللہ بہاولپوری کے صاحبزادے ہیں اور بڑے عاجز ملنسار ہیں یہ ان کے سر بلند علم کی گواہی ہے ۔ باتیں تو بڑے پتے کی اور دشمنوں کے جوڑوں میں بیٹھ جانے والی کرتے ہیں لیکن خود کو طالبِ علم کہتے ہیں یہ ان کی عاجزی کی بڑی مثال ہے ۔انہوں نے ایک آگہی کا راستہ چن رکھا ہے اور نوجوانوں کو مختلف شہروں میں جا کر آگہی دیتے ہیں ملک کے اندرونی و بیرونی دشمنوں کی چالوں کے بارے میں !یہ بڑا اقدام ہے اللہ انہیں اس کی جزا ضرور دے گا ۔ اگر ان جیسے پورے پاکستان میں دس ہزار طالب علم آجائیں تو میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کا مہذب دنیا میں علم و عمل کے میدان میں کوئی ثانی نہیں ہو گا۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں