The news is by your side.

پانی زندگی کے لیے ضروری ہے، زندگی کی جنگ لڑنا پڑے گی

تقسیم برصغیر نے دریاؤں کے قدرتی بہاؤ پر بھی اثر ڈالا تھا ۔بین الاقوامی قانون کے مطابق دریا کا قدرتی راستہ برقرار رکھا جاتا ہے اور جن دو یا زیادہ ممالک سے دریا گزرتا ہے وہ اس کے پانی سے مستفید ہوتے ہیں ۔ کوئی ملک دریا کا رخ بدل کر کسی دوسرے ملک کو آبی وسیلہ سے محروم نہیں کر سکتا ۔ اس وقت پاکستان اور بھارت کے مابین اس حوالے سے بحران انتہائی شدت اختیار کر چکا ہے ۔ پنجاب اور سندھ کو دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا جہلم ،چناب ، راوی ،ستلج اور بیا س سیراب کرتے آرہے ہیں ،پنجاب دو حصوں میں منقسم ہوا تو دریاؤں کی تقسیم بھی عمل میں آ گئی جسے سندھ طاس معاہدہ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔

بھارت نے نہ کبھی کسی تحریک میں شامل ہو کر مسلمانوں کے ساتھ انصاف کیا تھا ، نہ ہی آزادیٔ پاکستان کے وقت اور نہ اب تک اس سے کوئی امید رکھی جا سکتی ہے ۔سب سے پہلے بھارت نے 1948 میں مغربی پنجاب کو آنے والے پانی کا راستہ روک لیا ،یہ قدیم پنجاب اور سندھ کی معیشت تباہ کرنے کے مترادف تھا کیونکہ ان علاقوں میں فصلوں کی آبیاری کا یقینی ذریعہ دریا ہی ہیں ، بارشیں بہت کم ہوتیں ہیں ۔بھارت کی جانب سے پانی کی بندش سوکھے اور قحط کا مؤجب بن سکتی تھی اور پاکستانی زراعت کا دارومدار بھی زیادہ تر دریائی پانی پر ہے ۔

ایک بڑی زیادتی ریڈ کلف کی سربراہی میں بننے والے حد بندی کمیشن نے کی اس نے سرحد کا تعین کرتے وقت اکثر ہیڈ ورکس مسلم اکثریتی علاقوں میں ہونے کے با وجود بھارت کے حوالے کر دئیے یہ سازش پاکستانی زراعت اور معیشت کی تباہی کا سبب بن سکتی تھی ۔اس وقت بھارت نے دریائے ستلج پر ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا تو پاکستان نے سخت احتجاج کیا ، اگر بند بنتا تو تباہی اور قحط کا سامنا کرنا پڑتا اس لئے عالمی برادری کو اپنے مسئلے کے بارے میں آگاہ کیا ۔

اگر ہم عصر حاضر کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ بھارت نے آزادی پاکستان کے بعد سے اب تک ہمیشہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور پاکستان کو ہر محاذ پر شکست دینے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن چونکہ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے اور امن کا داعی ہے اسی واسطے اس کا ہمیشہ یہ ایجنڈا رہا ہے کہ خطے میں امن و امان کی صورت قائم ر ہے ۔ ہمیشہ دشمن نے پاکستان کو ختم کرنے کا مذموم ارادہ لئے یلغار کی جس کا دفاع الحمد للہ پاکستان کی بری اور بحری افواج کے ساتھ ساتھ عوام نے بھی شانہ بشانہ کیا ۔

پاکستان کے سرحدی علاقوں خاص طور پر فاٹا اور وزیر ستان کے قبائل پاکستان کی دفاعی لائن کا سہرا ہیں اور شاید ہم سے زیادہ محب وطن پاکستانی بھی ۔ جو ملک مخالف سرگرمیاں کرتے ہیں وہ پاکستان کے نہیں ۔ در حقیقت یہ اسباب پیدا ہونے تھے بیسویں صدی کے آخر میں کیونکہ اس کائنات نے بھی فنا ہونا ہے جو فانی ہے اور صرف زندہ رہ جانے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔

ہم دیکھیں تو محمد علی جناح ؒ آزادی پاکستان کے بعد صرف گیارہ ماہ زندہ رہ پائے اس کے بعد لیاقت علی خان کو بھی قتل کر دیا گیا اسی طرح مخلص لوگوں کو مروا کر نا اہل لوگوں کو پاکستانی عوام پر مسلط کر دیا گیا اور ایسی پالیسیاں مرتب کی گئیں کہ پاکستانی عوام نظریہ پاکستان اور آئین پاکستان سے دور ہو گئی ۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ پاکستان کو آج تک کوئی سچا اور کھرا لیڈر مل ہی نہیں پایا جس کے دل میں رب کا خوف ہو !پاکستان پر صرف پینٹا گون کی مرضی سے جمہوریے مسلط ہوئے جن کے پاس کبھی عوامی مینڈیٹ نہیں رہا ہے ۔ ہمیشہ نادیدہ قوتوں کے زیر اثر عوام کے مینڈیٹ کو روندا گیا ۔ہم دیکھیں تو پاکستان میں آج تک صرف 1955سے 1960 اور 1960سے 1965 تک کے پانچ سالہ منصوبوں پر کام کیاگیا اسی دورانیے میں صنعت نے بہت ترقی بھی کی، پرویز مشرف کے ابتدائی دور میں بھی پاکستان نے ٹیکنالوجی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بہت حد ترقی کی لیکن اس سے پہلے اور بعد کے ادوار میں کہیں بھی کوئی پاکستانی حکومت بنیادی سہولیات عوام تک باہم پہنچانے سے قاصر رہی ہے ۔

حکومتی کاموں پر تنقید جمہوریت کا حسن ہے ، اور یہ اپوزیشن کا کام ہے کہ وہ حکومت پر دباؤ ڈالے اور منصوبوں کی تکمیل شفاف انداز میں جلد از جلد یقینی بنائے لیکن ہمارے ملک میں اگر کوئی حکومتی منصوبے پر سوال اٹھائے تو جمہوریت کو خطرہ ہو جاتا ہے ، اگر کسی سیاسی خاندان پر کرپشن کا الزام آئے تو بھی جمہوریت کو خطرہ ہو جاتا ہے ، یہ بات عوام کے ساتھ بھونڈا مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ جس طرح شہباز شریف کا بیان تھا کہ اب ہم جا رہے ہیں، اگر لوڈ شیڈنگ ہو ئی تو اس کا شہباز شریف یا نواز شریف ذمہ دار نہیں ہوں گے! یہاں سمجھ آتی ہے کہ یہ اشراف طبقہ عوام کو کس قدر ہیچ اور نیچ سمجھتے ہیں ۔

اب ہم ذرا اس کے مقابلے میں پڑوسی ملک کی ترقی کا جائزہ لیں تو چاہے انہوں نے ظلم کی حد کر دی ہو لیکن وہاں ہر بار پنج سالہ منصوبے تکمیل کو پہنچے انہوں نے ہمیشہ عالمی قوانین کی حدود پھلانگی لیکن اس کے با وجود وہ ٹیکنالوجی میں ، معیشت میں ہم سے پچاس سال آگے جا چکے ہیں ۔ انہوں نے 2011 میں جب دریائے چناب اور جہلم پر کشمیر میں ڈیم بنانے شروع کئے تو اس وقت سے پاکستان احتجاج کر رہا ہے اور جب بھی پاکستان بھارت کے مذموم عزائم سے پردہ اٹھاتا ہے امریکہ اور اسرائیل پاکستان مخالف ہو جاتے ہیں ۔ سرحدی کشیدگی بڑھ جاتی ہے خاص طور پر جب پاک، بھارت امن مذاکرات طے پا رہے ہوتے ہیں ۔

اس وقت پاکستان میں کالا باغ ڈیم کی تحریک نے زور پکڑ رکھا ہے ، شکر ہے سوئی قوم کچھ بیدار ہوئی لیکن ا س بیداری کو مثبت سمت دینا بھی ہماری ذمہ داری ہے ۔ پاکستان ورلڈ بنک میں دریاؤں کے پانی پر حق کا کیس ہار چکا ہے کیونکہ ہمارے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ پاکستان ہر سال دریاؤں کا پانی سمندر میں کیوں گرا دیتا ہے؟ اس کے بعد سے بھارت کو نیلم کے پانی کا رخ موڑنے کی بھی اجازت مل گئی تھی جس کے بعد سے انہوں نے اس کا رخ موڑ لیا ہے ۔ بظاہر جو بھی ہو لیکن ایک بات عام فہم بات ہے کہ اسرائیلی لابی ایک طرف اور پاکستان اکیلا ایک طرف کھڑا ہے جسے حاصل کرنے کیلئے دشمن ہر ممکن زور لگا رہا ہے اور اب یہ سبب بہت مضبوط انہوں نے پیدا کر لیا ہے کہ پاکستان خود جنگ کی شروعات کرے کیونکہ امریکہ پہلے ہی پاکستان کو دہشت گرد ملکوں کی لسٹ میں ڈالنے کی تیاری کر چکا ہے ۔

اب یہ سبب مٹتا دکھائی نہیں دیتا اور آج مسلمان پچھتاتا ہے اپنی تاریخ کو پڑھ کر ، کل کیا تھا مسلمان اور آج مسلمان کیا ہے ۔آخر اسے کاصہ لیسی کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ جب اللہ سب سے بڑا ہے! اس کی خودی کیا تھی اور آج وہ اپنی خودی کے حصول کیلئے پھر سے جدو جہد کر رہا ہے ۔ یہاں ایک بات واضح ہے کہ جو اللہ نے ا س سر زمین سے کام لینا تھا وہ وقت قریب آ چکا ہے ۔ اگر یہ نسل نہیں سمجھے گی تو کوئی اور نسل اللہ کا کام کرے گی لیکن بہت جلد !۔2023 تک پاکستان بالکل قحط سالی کا شکار ہو گا اور خانہ جنگی کی صورت حال حالیہ انتخابات میں ہی شروع ہو جانے کے قوی امکانات موجود ہیں ۔

اس بار اگر انتخابات میں عوامی مینڈیٹ سے باریوں والی پارٹیوں کو شکست ہوتی ہے تو پینٹا گون پھر سے متحرک ہو گا اور پاکستان میں اس خانہ جنگی کو اپنے سہولت کاروں کی مدد سے ہوا دے گا ۔قحط سالی عوام میں غم و غصہ بھرے گی اور پھر مجبوراََ ہمیں بھارتی ڈیموں کو توڑنا پڑے گا ۔ جس کے بعد عالمی جنگ کا آغاز ہو جائے گا ۔ قارئین آپ اس کو جو بھی کہیں لیکن میرا فرض بنتا ہے کہ آپ کو اصل کی طرف بلاؤں اور آپ کی خودی کو جھنجھوڑوں کیونکہ اسی سے نجات ممکن ہے ۔ خود کو ہرطرح سے تیار کر لیں کہ ہم نے اب دشمنوں سے مقابلہ کرنا ہے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں