The news is by your side.

سفرنامۂ حجاز: اے سانس ذرا تھم، ادب کا مقام ہے

 

آہ! میرے مولا !۔۔۔۔۔۔وہ کیا لمحہ تھا جب قدموں تلے ہرا قالین،ہاتھ بھر کے فاصلے پر نور سے بھری سبز جالی اور میرے بالکل سامنے ایک سجدے کے لئے خالی جگہ تھی ایسے جیسے وہ جگہ صرف میرے ہی لئے گھیر کر رکھی گئی تھی

گزشتہ سے پیوستہ

ٹیکسی میں مدینہ سے مکہّ کی طرف عمرے کی ادائیگی کے لیے نکلے تو دوپہر کے تین بجے کا وقت تھا اور روضہ رسول ﷺسے آخری زیارت کے بعد میری واپسی پر فیملی ہوٹل سے باہر ٹیکسی میں میری منتظر تھی۔میقات میں لوگوں کے جم غفیر سے اٹے مقام پر جہاں پر غسل اور احرام باندھنے کا وسیع انتظام موجود ہے اور نوافل کے لئے ایک بڑی مسجد کے ساتھ چھوٹی چھوٹی چیزوں کی شاپنگ کے لئے مارکیٹ بھی موجود ہے ، وضو کر کے نفل پڑھے اور عمرے کی نیت کی۔

گھر سے چلتے بڑی محنت اور شوق سے بچوں کے عمرے کے لیے احرام کا مکمل انتظام اور پلان کیا تھا مگر ریاض الجنہ میں رش میں چھوٹے چھوٹےبچوں کو پھنسے دیکھا تو احساس ہوا کہ ایسی جگہوں پر بچوں کو لے جانا خود کو اور بچوں سمیت دوسروں کو بھی مشکل سے دوچار کرنا ہے۔کچھ فراغت سے کی گئی دعاؤں نے بھی للچایا کہ کہ خدا ایمان اور سلامتی دے تو انشااللہ اپنے صحیح وقت پر سر کے بل بھاگے چلے آئیں گے ہمارے بچے بھی اس کے در پر انشااللہ۔تو ان کو اٹھا کر،کھینچ کر،منا کر عمرے کے چکر لگوا بھی لیے تو ہماری پہلی حاضری کے ارتکاز کا کیا ہو گا۔خود ہم زندگی کی پہلی حاضری کو پہنچے تھے اور ہر اک لمحے کو جی بھر کر جی لینا چاہتے تھے۔چناچہ مدینہ میں ہی بچوں کو ساتھ عمرہ کروانے کا پروگرام کینسل کرکے اگلے سالوں اس کا ذمہ خدا کے کندھوں پر ڈالا کہ اس کے بندے ہیں خود ہی ان کو بھی لے کر آئے گا ہم اپنی باری ہی ڈھنگ سے نپٹا لیں۔

مدینہ سے مکہّ کی روانگی کے وقت یہ بھی خبر نہ تھی کہ مکہ کتنے گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ سوچا، ہو گا ابوظہبی سے دبئی شارجہ تک کا فیصلہ اس لیے بچوں کو تسلی دی کہ رستے میں کھانا کھاتے ہیں اور ایسا کرتے بھی یہی گمان تھا کہ دبئی ابوظہبی کے موٹر ویز کی طرح ضرور ہر چند کلومیٹرز پر فوڈ کورٹس موجود ہوں گے۔مگر جب بہت دیر ہوئی چلتے چلتے اور بچے بھی بھوک بھوک کرنے لگے اور دو تین گھنٹے تک کوئی پیٹرول پمپ بھی نہ آیاتو ہمیں بھی حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا اور ہم نے ڈرائیور سے پوچھا کہ بھائی کتنی دیر کا فاصلہ ہے۔ اس نے جواب دیا کہ ’’چھ گھنٹے‘‘۔ یہ سن کر تو ہمارے چودہ طبق روشن ہو گئے۔

یہ تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مدینہ سے مکہّ اس قدر فاصلے پر ہو گا ، اکٹھے چھ گھنٹے۔تشویش سے بچوں کی صورتیں دیکھیں کہ یہ دو گھنٹے کی ڈرائیو میں تھک کر واویلا مچا دینے والے بچے چھ گھنٹے میں کیا کیا نہ شور مچائیں گے۔کچھ خود کو بھی حوصلہ دیا کہ ٹیکسی میں چھ گھنٹےکا فاصلہ ہمارے بے چین بچوں کے ساتھ خاصا مشکل اور لمبا محسوس ہوا۔اس کے ساتھ رستے میں کہیں پر بھی چار گھنٹےسے پہلے قیام وطعام کی سہولت مہیا نہ تھی۔شکر رہا کہ سوتے جاگتے کسی نہ کسی طرح بچوں نے یہ وقت صبر کے ساتھ زیادہ تنگ کئے بغیر گزار ہی لیا۔عشاء کی اذان کے ساتھ جب مکہّ میں داخل ہوئے تو مدینہ کی نسبت مکہّ شہر بہت خوبصورت اور پرکشش لگا۔پہاڑوں اور گھاٹیوں میں کہیں اوپر کہیں نیچے واقع یہ شہر اس قابل تھا کہ اسے ایک بار فرصت سے گھوم پھر کر دیکھا جائے گرچہ یہ وقت ہمارے پاس نہ تھا کہ چار دن کے عمرے کے سفر میں سے آج دوسرے دن کا اختتام تھا۔ گھروں اور عمارتوں کے بیچ میں پہاڑ اور پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی گئی عمارتیں۔۔اوپر نیچے جلتی یہ روشنیاں خوبصورت نظارہ پیش کرتی رہیں۔

ہوٹل کے کمرے میں پہنچ کر سب سے پہلا کام اماں ابا سے رابطے کا تھا جو پہلے ہی عمرہ کی نیت سے مکہّ میں موجود تھے اور کہیں قریب ہی ہمارے منتظر تھے۔رات کا کھانا اماں ابا کے ساتھ کھاتے انکے زبانی علم سے خوب مستفید ہوئے اور ضروری معلومات بھی سمیٹنے کی حتی الامکان کوشش کی کہ اللہ کے فضل و کرم سے یہ حاضری ان کو بہت بار نصیب ہو چکی ہے۔ انہیں سے ہم نے ہوٹل سے نکل کر نگاہ نیچی کرکے پہلی نظر محفوظ رکھ کر خانہ خدا کے سامنے پہنچنے کا طریقہ جانا۔

کھانے اور ملاقات سے فراغت کے بعد تقریبا رات بارہ بجے کے قریب ہم نے اماں ابا کو بچوں کے پاس کمرے میں چھوڑا اور نظریں آس پاس کی ہر شے سے ہٹا کر زمین پر بچھائے محض چند قدم کے فاصلے پر سوئے کعبہ چلے۔گیٹ پر موجود سیکورٹی کے افسر عموماً مردوں کے ہاتھوں کے تھیلے نظر بھر کر دیکھتے ہیں مگر شاید عورتوں سے انحراف کرتے ہیں تبھی جوتوں اور پانی کی بوتلوں کے لیے لٹکائے گئے میرے بیگ پیک پر انہوں نے نظر ڈالنے کی کوئی زحمت گوارا نہ کی۔

ہم باب عبد العزیز سے داخل ہو کر نیچی نظروں سے زمیں کو دیکھتے برآمدے سے گزرتے لبیک الھم لبیک کی تسبیح کرتے حرم کے صحن کی سیڑھیاں اترنے لگے۔آس پاس کے لوگوں ،مسجد اور اس کی دیواروں اور راہداریوں سے مکمل پردہ کرتے ہم باخبر تھے کہ ہم اس نظارے کے بالکل سامنے پہنچ چکے ہیں جو ہر اہل ایمان پر اگر وہ استطاعت رکھتا ہو تو ایک بار ضرور فرض ہے۔ دی گئی ہدایت کے عین مطابق لوگوں کے بیچ میں ان سے ٹکرانے سے بچتے اور سامنے والوں کے پاؤں پر نظر رکھتے آہستہ آہستہ چلتے ہم میاں بیوی ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے سیڑھیاں اتر کر عین صحن میں خانہ خدا کے قدموں میں جا پہنچے اور نیت باندھ کر دھیرے سے اپنی نگاہ اٹھائی، سیاہ عمارت پر ڈالی اور پھر اسے پلٹنا بھول گئے۔

ہم بھوکے اور منگتے بہت سی مرادیں جھولی میں لیے آئے تھے ،ہمارے بے تماشا ہاتھ تھے اور ہر ہاتھ میں کئی کئی کشکول تھے جو اس چوکھٹ سے بھر جانے کی امید رکھتے تھے اور اس امید کا مکمل انحصار اس پہلی نگاہ پر تھا جسے جھپکنے پر دل تیار نہ تھا۔پلکوں کی لرزش روک کرنظر جما کر ہم نے اپنے بھوکی، پیاسی، سلگتی، اور ہر تھکی ہاری مسافت کی ماری دعا نکال کر رب کعبہ کے قدموں میں ڈھیر کر دی تھی اس امید سے کہ اب ان ٹوٹی پھوٹی دعاؤں کابوجھ کندھوں سے اترے ۔

دنیا جہان کی چمکتی،آنکھیں خیرہ کرتی،جگمگاتی،نظروں کو دھندلا کرتی روشنیوں،خوبصورتیوں ،نعمتوں اور ترقیوں کو دیکھ لینے کے بعد آنکھوں کی روشنی دھندلی پڑ جاتی ہے، ان میں پیلا ہٹ اتر آتی ہے، تازگی کملا جاتی ہے تو آج یہ جانا کہ خانہ خدا کاغلاف کالا کیوں ہے؛ رب کعبہ کو خبر ہے دنیا کی روشنیوں سے بوجھل آنکھوں کو ترواہٹ کے لئے مزید روشنی کی نہیں بلکہ عمر بھر کی روشنیوں کی حدت کو جذب کر لینے والے کالے لبادے کی ضرورت ہے جو تھکی،تپتی آنکھوں کی ساری تھکاوٹ جذب کرکے انکو ٹھنڈک میں بدل دے۔تو جلتی آنکھیں ہم بھی خانہ خدا کے کالے غلاف پر ٹکائے اس کی ٹھنڈک کو نظروں کے رستے دل میں اتارتے رہے۔

اے کاش کہ گھڑی کی سوئیاں چلنا بھول جاتیں اور ہم صدیوں اور زمانے خانہ خدا کے قدموں میں کھڑے اس کی ٹھنڈی اوس سے خود کو نم کرتے رہتے۔مگر ہم بدقسمت انسانوں کے ہاتھ میں چلتی ہوئی گھڑیاں ہیں جو ہر وقت ہمیں دھکے لگا کر آگے کو دھکیلتی رہتی ہیں کہ دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔تو رات ساڑھے بارہ کا وقت ہے،خانہ خدا ہے ،طواف کو بلاتے مدار ہیں اور ہمارے گنتی کرنے والے،اعدادوشمار جمع کرنے والے، ہر شے کا حساب رکھنے والےدماغ ہمیں طواف کی سمت دھکیلتے ہیں اور ہم دنیا کا یہ عظیم ترین نظارہ چھوڑ کر حجر اسود سے اپنے طواف کا آغاز کرتے ہیں اور کعبہ کے گرد گھومتی اس کائنات کا ایک حصہ بن جاتے ہیں جس کے سنگ یہ وقت یہ نظام شمسی اور پوری کائنات گول گول دائروں میں گھوم رہی ہے۔

دعاؤں کا ورد کرتے ،کبھی نظر بھر کر قبلہ کو دیکھتے اور پھر گھبرا کر گستاخی سے ڈرتے نظر موڑتے، ہم دنیا کے اس عظیم ترین نظام کا حصہ بن جاتے ہیں جس میں قدم رکھ کر نہ کوئی مرد رہتا ہے نہ کوئی عورت،نہ امیر نہ غریب،نہ کمتر نہ برتر،نسل قبیلے اور پہچان بھول کر سب کے سب سفید کفن اوڑھے اپنے رتبوں کو لباسوں کے ساتھ خانہ خدا سے بہت دور میقات میں چھوڑے اس کی سرکار میں پہنچ کے ایک ہو چکے ہیں۔

رات کی پرسکون مرتکز ٹھنڈک، کعبہ میں تہجد کا وقت اور سامنے خانہ خدا کا جلوہ ٬زندگی کی خوبصورتی اپنی انتہا پر تھی ۔جب بھی آپ پر یہ وقت آئے تو پہلی نظرکے لیے بے تحاشا فرصت بچا کر رکھئے،رب کعبہ کے سامنے ٹھہرئیے ایسے کہ پھر ہلنا بھول جائیں، دماغ کو لگی جلدی کی عادت کو لاوارث چھوڑ کرتب تک وہاں قیام کریں جب تک خانہ خدا آپ سے کلام بند نہ کر دے۔جی ہاں! دھیمے ہو کر اپنے رب کے مقدس گھر کو پہلی بار تکتے اپنے رب کا کلام سنیے،جو گفتگو وہ آپ سے اپنے گھر کے دروازے پر کرتا ہے وہ کلام پھر دوبارہ نصب نہیں ہوتا۔اس کلام کو سنیں اور اس وقت تک سنیئے جب تک وہ خود آپ کو جانے کا اشارہ نہ کر دے۔

جاری ہے
**********

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں