The news is by your side.

اسلام سیاست دانوں سے کن صفات کا تقاضا کرتا ہے؟

اللہ تعالیٰ کی حاکمیت سے مراد یہ ہے کہ تمام کائنات کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اور حاکمِ وقت اللہ تعالیٰ کے نافذ کردہ قوانین کی پاسداری کو یقینی بنوانے اور اسلام کا پرچار کرنے کیلئے ہے۔ اس آئینی شق کو پاکستانی قوم نے سراہا تھا مگر افسوس کہ اس قوم کے ساتھ بڑا دھوکہ کیا گیا

گزشتہ سے پیوستہ

قرآنی آیت کا مفہوم ہے کہ ’’ بے شک اللہ کے نزدیک ایک ہی دین ہے ، اور وہ ہے اسلام ‘‘۔اور اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں دین اسلام کے پیروکاروں کو لفظ ایمان والے،مؤمن اور مسلمان سے پکارتا ہے ۔ اگر ہم مؤمن اور ایمان والے کو ایک ہی لفظ میں بیان کرنا چاہیں تو لفظ مسلمان سے بیان کر سکتے ہیں ۔1973 کے آئین میں پہلی دفعہ لفظ مسلمان کی تعریف شامل کی گئی جس کی رو سے ’’ توحید ، رسالت ، قیامت ، اللہ تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لانے کے علاوہ حضرت محمد ﷺ کو آخری نبی تسلیم کرنا لازمی ہے ‘‘۔

میری نظر میں لفظ مسلمان کی تشریح کچھ یوں ہے کہ ’’ ایسا شخص جو اپنی تمام تر نفسانی خواہشات اللہ تعالیٰ کے حوالے کر کے اس کے اور اس کے رسول ﷺ کی اتباع میں امن حاصل کر لے ،مسلمان کہلاتا ہے‘‘ ۔ توحید سے مراد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانا ، اس کا کسی کو شریک نہ بنانا ، بن دیکھے اس کے احکامات کو بلا تاویل بجا لانا اور اس بات پر کامل ایمان رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ساری دنیا کو پیدا کرنے والا کائنات کا واحد رب ہے ۔دنیا کی تمام تر تعریفوں کا سزاوار وہی رب ہے ، دنیا کی تمام دولت اور خزانوں کا مالک ،زمین و آسماں میں جو کچھ پنہاں ہے جو ظاہر ہے سب کے سب اللہ کے خزانے ہیں ، اس کی قدرت ہے کہ وہ جس کو جتنا چاہے عطا کر دے اور جس سے چاہے چھین لے ، وہ قاد ر و مطلق ہے ، اس کے کن کہہ دینے سے سب ہو جاتا ہے، بلا شبہ اس پر کسی کا کوئی اختیار نہیں جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ۔

اس کائنات میں حاکمیت ایک اللہ کے سوا نہ کسی کی ہو سکتی ہے اور نہ کسی کا یہ حق ہے کہ حاکمیت کا دعویدار بنے ۔رسالت سے مراد دنیا میں جتنے بھی انبیاء آئے ان سب پر ایمان لانا ، محمد ﷺ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں پر ایمان لانا ہے ، ان کی اطاعت کرنا ہے ۔انہوں نے اپنے زندگی میں عملی طور پر انسانیت کی ایسی مثالیں قائم کی ہیں کہ وہ آج تک ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے۔قیامت سے مراد حشر کے بپا ہونے پر ایمان لانا ہے ، کہ یہ ساری کائنات اور اس کے درمیان ، اوپر نیچے جتنی بھی مخلوقات ہیں سب کی سب فناہ ہو جائیں گی اور صرف اللہ کی ذات باقی رہ جائے گی ، اور پھر اللہ تعالیٰ جتنی بھی مخلوقات اس دنیا میں اول سے آخر تک آئیں سب کو زندہ کریں گے ، اور ان کا حساب لیا جائے گا ۔ ان کو ان کے اعمال کے مطابق جز ا و سزا کا فیصلہ سنایا جائے گا ۔ بے شک یہ بہت جلد بپا ہونے والی ہے ۔

سورہ النساء آیت نمبر 59 کا مفہوم ہے کہ ’’ اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول ﷺ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے اولی الامر ہوں ، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسولﷺ کی طرف پھیر دو ، اگر تم اللہ اور روزِ آخر پر یقین رکھتے ہو تو ۔‘‘ یہ آیت چھ دستوری نکات واضح کرتی ہے ۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کا ہر اطاعت پر مقدم ہونا ، اولی الامر کی اطاعت اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کے تحت ہونا ، اولی الامر اہلِ ایمان میں سے ہوں ، لوگوں کو حکام اور حکومت کے نزاع کا حق ہے ، نزاع کی صورت میں آخری فیصلہ کن سند خدا اور رسولﷺ کا قانون ہے ، نظامِ خلافت میں ایک ایسا ادار ہ ہونا چاہئے جو اولی الامر اور عوام کے دباؤ سے آزاد رہ کر اس بالا تر قانون کے مطابق جملہ نزاعات کا فیصلہ دے سکے ۔

قرآنی آیات کا مفہوم ہے کہ ’’ اور ہونا چاہئے تم میں سے ایسا گروہ جو دعوت دے بھلائی کی طرف ، اور حکم دے نیکی کااور روکے بدی سے ، ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔ اور نہ ہو جاؤ ایسے لوگوں کی طرح جو متفرق ہو گئے اور جنہو ں نے اختلاف کیا جبکہ ان کے پاس واضح ہدایات آ چکی تھیں ۔ ایسے لوگوں کیلئے بڑا عذاب ہے ‘‘۔ان تمام باتوں پر ایمان لانے کے بعد بندہ صاحبِ ایمان تو ہو جاتا ہے لیکن اگر اس کے اعمال و کردار سے ان کی پاسداری نہ جھلکے تو وہ مسلمان بس نام کا ہی ہو گا ۔ کوئی بھی ہوش مند انسان یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ اسلام کی ایک بھی تعلیم انسانیت کے خلاف ہے ، بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ انسانیت اسلام میں صرف بنیاد ہے ، ایک بہت چھوٹا سا حصہ ۔

مسلمان تو وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھ ، پاؤں اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ ہوں، جو اخلاق و کردار میں اعلیٰ ہوں ، جن کی نذر میں تمام اطاعتیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کے سامنے ہیچ ہوں ، جو صبر کریں اور نیکی کی ترغیب دیں ، برائی سے منع کریں ، ظلم نہ کریں کہ اللہ کے خوف ان کے دل میں ہو، جھوٹ کو گناہِ کبیرہ سمجھے ،آخرت کے حساب کتاب سے ان کا دل ڈرتا ہو، غریب کا حق کھانے سے انہیں قیامت کے اللہ کے حضور پیش ہونے کا ڈر ہو ، معاملات دین میں کوتاہی ان کیلئے وبال جان کے مترادف ہو ، جو امت کی خاطر ایثار کا جذبہ رکھتا ہو ،جس کے دل میں نفاق نہ ہو، الغرض کہ ہر بدی کی طرف اس کا اٹھتا ہوا قدم اس کے دل میں ڈر پیدا کر دے کہ خدا دیکھ رہا ہے۔ ہمارا ملک الحمد اللہ اسلامی جمہوریہ ہے جو اس لئے حاصل کیا گیا تاکہ مسلمان یہاں آزادانہ اللہ تعالیٰ کے قوانین اور آپﷺ کی تعلیمات کی پریکٹس کر سکیں ۔

سیاست دین سے ہر گز جدا نہیں ، لیکن یہ ایک غلط افواہ عوام میں پھیلائی گئی ہے کہ سیاست انبیاء کاکام نہیں یا اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے تعلیمات نہیں دیں ۔ ہم اپنے لیے ہر بار انتخابات میں اچھے سے اچھا حکمران کا چناؤ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کیا کبھی ہم نے اپنے حکمران کے چناؤ کے لئے مندرجہ بالا خصوصیات کی طلب کی ہے ؟؟ ۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں