اس عنوان سے جاری بحث میں شرکائے گفتگو کی دل چسپی ایک خوش آئند امر ہےکہ افسانوی ادب کی تکنیک کو سمجھنے اور سمجھانے کے صحت مند رجحان میں کوئی کمی نہیں‘ سب کی رائے کا احترام میرا اخلاقی فرض ہے خواہ وہ مبتدی ہوں یا کہنہ مشق۔ آج سمجھنے کی خواہش رکھنے والے ہی کل سمجھانے والے والے ہوں گے کہ یہی تمام فنون کا معاملہ ہے۔
واقعات ہر شخص کی زندگی میں ہمہ وقت رونما ہوتے ہیں۔’’ صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے۔۔۔ عمر یونہی تمام ہوتی ہے‘‘۔ جہاں ہم بطور فرسٹ پرسن موجود نہیں ہو سکتے‘ ان کی رپورٹ ایک خبر کی صورت میں ملتی رہتی ہے چنانچہ جو بتاتا ہے وہ رپورٹر کہلاتا ہے اور اس کی نیک نامی اصل واقعات کی درستگی سے بتدریج بنتی جاتی ہے۔
تصویر اس رپورٹ کے ساتھ اضافی سند بنتی ہے(اب فوتو شاپ کے امکان کو مد نظر رکھنا پڑتا ہے) ۔رپورٹر کوصرف کیا ہوا ‘ اور کیسے ہوا تک محدود رہنا چاہیے۔ کیوں ہوا؟ یہ بتانا تجزیہ کار کا کام ہے یا تفتیش کرنے والے کا۔ واقعے کی رپورٹ میں بنیادی حقائق بیان کرنے کے بعد رپورٹر کا فرض پورا ہو جاتا ہے۔مثلاً! کسی بس کا حادثہ۔ رپورٹرفوری طور پربتا ہی نہیں سکتا کہ تکنیکی خرابی تھی تو کیا اور غلطی تھی تو کس کی ۔ خیال آرائی سے ذہن کو امکانات کی طرف موڑ کے وہ پیشہ ورانہ فرائض سے بد دیانتی کا مر تکب ہوتا ہے۔
اب آتے ہیں کہانی کی طرف۔۔ کہانی انسان کی سرشت میں ہے چنانچہ دادی اماں کی کہانی ہویا الف لیلےٰ والے جن اورپریوں کی کہانیاں ہو‘ آج اکیسویں صدی میں بھی اپنی تمام ناقابل یقین وجوہات کے باوجود مقبول ہے۔ اس کی مثال ’ہیری پوٹر‘ سلسلے کے دنیا بھر میں مقبول ہونے والے جادوئی ناول ہیں جن پر فلمیں بھی سپر ہٹ ہوئیں اور لکھنے والی خاتون کو ڈالروں میں کروڑ پتی بناگئیں۔ مصر کی قدیم تہذیب پر بننے والی ’ممی ‘ جیسی سلسلہ وار ہارر فلمیں بھی اسی سلسلے کا ثبوت ہیں۔ایسا ہی معاملہ کارٹون کرداروں کا ہے، در اصل شیر خوار سے ٹین ایجرتک کا ذہن اس کا منطقی تجزیہ نہیں کرتا جو دکھایا جاتا ہے۔ مثلاً’ٹام اینڈ جیری‘ میں پیش کیے جانے والے واقعات۔ ٹام‘ روڈ رولر کے نیچے چپٹا ہو کے پھر کھڑا ہو جائے تو دیکھنے والاٹی وی بند نہیں کر دیتا کہ یہ کیا بکواس ہے بلکہ اسی انہماک سے دیکھتا رہتا ہے۔۔ خلاصہ یہ کہ کہانی میں واقعات کا منطقی جواز غیر اہم ہے۔
افسانے کی تعریف مشکل بھی ہے اور آسان بھی۔ یہ کسی خبریا واقعہ پرانسانی نفسیات کے امکانات کی روشنی میں اور ممکنات کے دائرے میں افسانہ نگارکی پروازِخیال ہے جس کے افق کی حدود کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔
مثال پھر اسی خبر یا واقعے کی لیتے ہیں ۔ ایک بس کے حادثے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوتے ہیں۔ قطع نظر ان کے نام کے یا حادثے کی وجوہات کے۔۔ ایک افسانہ نگار کاذہن ہر لاش میں کوئی افسانہ نہاں دیکھ سکتا ہے۔ ایک بڈھا ہلاک ہو گیا جو کسی نابالغ بچی کو ونی میں بیوی بنانے جارہا تھا۔اس مظلوم بچی کے اور اس کے ساتھ یہ غیر انسانی سلوک کرنے والوں کے جذبات متضاد ہوں گے کیونکہ ان کی سوچ کے دھارے الگ ہیں۔۔ مگر بس کو جانے دیں۔
حادثہ موٹر سائیکل کا ہواجس میں صرف ایک عورت اور ایک مرد ہلاک ہوئے۔وہ میاں بیوی‘ ماں بیٹا یا بھائی بہن ہوتے تو ایک نارمل واقعہ ہوتا۔افسانہ یوں بنے گا کہ وہ محبت کرنے والے تھے۔
ایسا یہاں چند ماہ قبل ہوا جب اسلام آباد میں ایک ناکے پرواضح اشارے کے باوجود ایک نوجوان نے کار نہیں روکی تو پولیس نے فائر کیا۔ نشانہ لینا نامکن تھا مگر بد قسمتی کہ گولی نوجوان کو پیچھے سے سر میں جالگی ا ور وہ مرگیا ۔ تفتیش میں معلوم ہوا کہ نوجواں کے کار نہ روکنے کی وجہ کیا تھی۔ گاڑی کے کاغذات پورے نہیں تھے اور ساتھ موجود لڑکی کا‘ اس کے ساتھ ہونے کا اخلاقی جوا ز نہیں تھا۔ وہ کالج چھوڑ کے اپنے محبوب یا خریدار کے ساتھ جارہی تھی،جب لڑکی عینی گواہ بنی تو اسے سب تسلیم کرنا پڑا۔اب افسانے بنے۔ نہیں معلوم اس کے اہل خانہ پر صدمے کے علاوہ کتنا عذاب آیا۔ بدنامی‘ رسوائی‘ دوسری بہنوں کے رشتے ٹوٹنا‘ شادی شدہ بہنوں کی سسرال میں بے عزتی‘ افسانہ نگار سب دکھا سکتا ہے جو ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے۔ افسانہ در افسانہ۔
یہی پلاٹ ہوتا ہے۔ آگے بات آجاتی ہے اسلوب کی۔ اسلوب ہی بیانیہ ہے۔اس میں افسانہ نگاراپنی قوت اظہار کا کمال دکھا سکتا ہے۔ سب کے پاس ذخیرۂ الفاظ ایک ہی ہے اور وہ لاکھوں میں نہیں چند ہزارہی ہوتے ہیں۔ ایک ماہر خانساماں اور ایک عام ہاؤس وائف کی دسترس میں وہی مصالحے ہوتے ہیں۔ ذائقہ پھر بھی ہوٹل میں سینکڑوں کو روز کھینچ لاتا ہے اور گھر میں ایک شوہر کو بیزار کر دیتا ہے۔
الفاظ افسانہ نگار کے مصالحے ہیں۔ ان کے استعمال کا سلیقہ تحریر میں حسن پیدا کرتا ہے اورتحریر دل پر نقش ہو جاتی ہے ۔ ورنہ قاری اسے سرسری نظر سے دیکھ کر بھول جاتا ہے۔ اس خیال کو میں یکسر مسترد کرتا ہوں کہ مشکل الفاظ کا اثر زیادہ اور دیر پا ہوتا ہے۔ پڑھ لیں کرشن چندر کے یا منٹو کے افسانے‘جوروانی اور سلاست میں خاموشی سے بہتی ندی ہیں۔ سیلابی یا پہاڑی دریا نہیں‘ حسن جو سادگی کا ہے وہ مہنگے سے مہنگا بیوٹی پارلرپیدا نہیں کر سکتا‘ کرتا ہے تو محض سراب ہوتا ہے۔ شب عروسی کی صبح والی دلہن کے لطیفے یاد کریں۔
اب آخری بات! افسانے کی طوالت یا اختصار‘ اس کا تعین آج تک کوئی نہ کر سکا اورنہ ہی کر سکے گا۔’سیاہ حاشیے‘ کی چند سطریں بھی مکمل افسانہ ہیں ۔ا شفاق احمد کا’گڈریا‘ بھی اور قرۃالعین حیدر کا’ہاوسنگ سوسائٹی‘ بھی (جو کتابی صورت میں ناولٹ بن گیا)۔ اصولا ً مجھے اس کو ناولا کہنا چاہیے‘ بہت لمبا افسانہ’طویل افسانہ‘ تھا۔کینوس یعنی وقت کا پھیلاو ٔزیادہ ہو تو ناول‘ مائیکروف ۔۔ سو لفظوں کی گنتی والا یا مقابلے پر 50 اور 10 لفظوں کا افسانہ سب’ایجادِ بندہ اگرچہ گندا‘۔ میں یہاں دنیا کا سب سے مختصر لیکن شاہکار افسانہ پیش کرتا ہوں جو نوبل انعام یافتہ ادیب ارنسٹ ہمنگوے نے لکھا تھا۔ یہ افسانہ محض پانچ الفاظ پر مشتمل ہے۔
اب آپ تصور کے گھوڑے دوڑائیے۔کیا بچہ مرگیا تھا ‘ بچہ معذور پیدا ہوا تھا‘ بچہ پیدا ہی نہیں ہوا کیونکہ (الف) بیوی یا شوہر میں سے ایک بانجھ تھا (ب) شادی کے فورا بعد طلاق ہوگی (ج) قصور کس کا تھا اور کیا (د)‘ جوتے کسی نے چرا لیے تھے جو قیمتی تھے اور بیچنے والے کوپیسے کی ضرورت تھی۔
علیٰ ہذالقیاس۔ لا محدود تصورات اور امکانات۔۔ یہی افسانے کی کامیابی ہے کہ اختتام آپ کے ذہن کو جھنجوڑتا نہیں تو سوچنے پر ضرور مجبور کر دیتا ہے ‘ لیکن پھر بھی اختتام پر یہی کہوں گا کہ مجھے کوئی دعوےٰ نہیں کہ ’مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘۔