The news is by your side.

سفرنامۂ حجاز: اے سانس ذرا تھم، ادب کا مقام ہے

معجزے انسانوں کی ہمت سے تشکیل پاتے ہیں، خالی خواہشات اور جذبات سے آب زم زم کے چشمے نہیں پھوٹ پڑتے ،اس کے لئے تپتی دوپہروں میں سڑتے پہاڑوں کا ننگے پاؤں طواف کرنا پڑتا ہے

گزشتہ سے پیوستہ

عصر اور مغرب کی نماز بروقت نہ پہنچ سکنے کی وجہ سے ہمیں حرم سے باہر سڑک پر ہی پڑھنی پڑی جہاں پر دور دور تک جماعت کی صف بندی ہو چکی تھی کچھ لوگ جائے نماز بچھائے اور کچھ لوگ ننگی زمین پر ہی سجدہ ریز ہو رہے تھے۔ننگی زمیں پر سجدہ کرنے والے اگر یہ سوچ رہے تھے کہ حرم کے باہر زمیں کا فرش مقدس اور شفاف ہے تو جائے نماز والے یقینا سجدے کی جگہ کا احترام کرتے اپنے جائے نماز اپنے بیگز میں لادے پھرتے تھے۔ہم تو یہاں دو گھڑی کے مہمان تھے اور اس سے پہلے کہ بہت سے کام سیکھ پاتے اگلی دوپہر یہاں سے رخصت ہونے والے تھے۔سو اگرچہ جائے نماز ہر نکڑ سے دس ریال میں مل جاتے تھے مگر فی الوقت ہمارے بیگ میں نہ تھے تو ہم بھی دیکھا دیکھی عصر کی نماز کے لئے ننگی زمین پر سجدہ ریز ہو گئے ۔لیکن مغرب سے پہلے ہی پہلے ہم نے ایک جائے نماز خرید کر بیگ میں ٹھونس لی تا کہ دوسرا سجدہ بھی ننگی زمین پر نہ ہو،کہ بحرحال ننگی زمین پر ہزارہا طرح کے جوتے گزرتے ہیں جو قریب موجود بیت الخلا سے بھی نکلتے اور جاتے ہیں،تو اس سجدہ کو جو انساں کو ہزارہا سجدوں سے نجات دلاتا ہے بے تحاشا تعظیم اور تقدس کے ساتھ ایک پاک صاف جائے نماز کی ضرورت ہے،یہ سجدہ آپکی بشریت کی نفی کے لئے نہیں ،بلکہ بشر کے احترام کے ساتھ اس کے قادر مطلق کے مقام کے لئے ہے۔

 

یاد رکھیں یہ مقام انسانوں کو فنا کرنے کے لئے نہیں رب کعبہ نے ان کو دوام دینے کے لئے بنائے ہیں سو یہاں سڑک کی ننگی زمین پر سجدے سے آپ کے نفس کی تحقیر آپ کے پیدا کرنے والے کی تخلیق کے ساتھ بھی ذیادتی ہو سکتی ہے۔ویسے تو قبولیت عطا کرنے والی ذات بھی اسی کی ہے،کسی کی کیا مجال کہ خدانخوستہ جائز اور نا جائز کی بات کرے،رب کعبہ کے گھر کے اندر اور اس کے باہر خانہ خدا کی طرف منہ کئے جیسے چاہے نماز پڑھیے جس طرح چاہے دعا کیجئے کہ یہاں آپ کے اور اس کے بیچ اور کوئی دوسرا فرمان،ہدایت،نصیحت نہیں۔

نمازوں کے درمیانی وقفے میں ہم نے سامنے موجود کلاک ٹاورز اور صفہ ٹاورکے کچھ چکر لگائے تا کہ اپنے انتہائی محدود احباب کے لئے کچھ مکہ کے خاص تحائف لئے جا سکیں۔ساتھ ساتھ رات کے کھانے کے لئے ایشیائی ذائقہ کا ریستوراں ڈھونڈا تا کہ رات کا کھانا ہمارے والدین کے ساتھ مل کر کھایا جا سکے۔ہمارے اماں ابا سے یہ ہماری دو سال بعد کی ملاقات تھی جس میں دو گھڑی ان کے ساتھ مل بیٹھنا بھی ہمارے لئے اک عین خوش نصیبی تھی جو محض اتفاقاً اس عمرے کی بنا ہمیں نصیب ہو رہی تھی۔

عشاء کی نماز کے بعد ہم ان کے میزبان بنے اور انکے ساتھ کچھ فرصت کے پل گزارے،بچوں نے نانا نانی کا کچھ پیار بٹورا اور ہم نے ان کی محبت اور دعائیں۔سو جمعہ کے بعد جو قدم مسجد سے نکلے تو پھر رات گیارہ بجے سے پہلے مسجد کے اندر پھر نہ لوٹ سکے۔گیارہ بجے کے لگ بھگ جب بچوں کو کمرے میں چھوڑ کر خانہ خدا میں اپنی آخری رات کے لئے میں اکیلی حرم کے لئے نکلی تو لازماً میرے بیگ میں میرا کیمرہ بھی تھا جس کے بارے میں مجھے یقین تھا کہ مسجد نبوی ﷺکی طرح اس بار بھی داخلہ سے لوٹایا جاے گا۔کہ باوجود اس کے کہ ہر ہاتھ میں موبائل کا کیمرہ آن تھا،کچھ فوٹوز کچھ وڈیوز اور کچھ فیس بک یا وڈیو چیٹ پر فیملی کے ساتھ لائیو طواف کرتے چلے جاتے تھے مگر معلومات اور تجربات کے مطابق پروفیشنل کیمرہ باقاعدہ ممنوع تھا۔مگر دل کی مراد تھی اور رب کعبہ سے لوٹائی نہ گئی اور کسی محافظ جو سب عرب مرد تھے نے میرے بیگ کی طرف انگلی بھی نہ اٹھائی اور میں بیگ میں کیمرہ لئے خانہ خدا میں جا پہنچی۔۔مجموعی طور پر سعودیہ کے چار دن میں نے عرب مردوں کا رویہ بہت مناسب دیکھا۔عورتوں سے خود کو فاصلے پر رکھتے،اگر بہت مہذب نہ تھے تو اس طرح کے ترش بھی نہ تھے جیسے عرب امارات میں رہتے سنا تھا۔

حرم میں داخل ہوتے ایک ایسا نظارہ دیکھا کہ بے اختیار دل چاہا کہ اب کی بار بیگ سے موبائل نکالا جائے اور اس نظارے کی ایک وڈیو ضرور بنا کر سوشل میڈیا پر پھیلائی جائے۔ہم پاکستانیوں کو بہت کم مواقع ملتے ہیں اپنے آپ پر فخر کرنے کے اور وہ ایک ایسا ہی نایاب لمحہ تھا جس میں ایک انتہائی متوسط طبقے کے چھوٹے سے پاکستانی خاندان کے ایک جوان سال پتلے کندھوں اور ہلکے جسم والے بیٹے نے اپنی بوڑھی جھکے کندھوں اور سکڑے ہوے جسم والی ماں کو اپنے کاندھے پر اٹھا رکھا تھا اور ایک ہاتھ سے وہیل چئیر کھولنے کی کوشش کررہا تھا۔

آہ! وہ کیا نظارہ تھا کہ سر فخر سے بلند ہو گیا کہ ابھی ہماری دھرتی ایسے بیٹے پیدا کرتی ہے جو ماؤں کو کاندھوں پر اٹھا کر طواف کے لئے لاتے ہیں۔اس کے ساتھ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے اپنے باپ کو یقینا عام نظروں سے دیکھتے تھے مگر انکے شعور میں یہ لمحہ ہمیشہ بیدار رہنے والا تھا جو ہمیشہ انہیں یہ سمجھاتا رہے گا کہ بوڑھی ماؤں اور باپوں کے لئے یوں سر اور کاندھے تخت بنا دئیے جاتے ہیں۔وہ اک عظیم لمحہ تھا جس نے یقینا رب کعبہ کو بھی ایسا شاد کیا ہو گا کہ اس لمحے اس بیٹے کے ریکارڈ میں نجانے کتنے مقبول حج اور عمرے درج ہوئے ہونگے، نجانے کتنی جنتیں اس کے نام لکھی گئی ہوں گی ۔

وہ ایک لمحہ جس نے آس پاس سے گزرنے والے بہت سے لوگوں کو احتراماً روک دیا تھا اور یہ عزت اور احترام والا ایک عام سے کپڑوں میں لپٹا یقینا معمولی سی تنخواہ پر چلنے والا اس دنیا کا بہت ہی ادنیٰ فرد تھا کہ جس کے عہدوں میں یکا یک ستاروں اور سورجوں کا اضافہ ہو کر بادشاہوں کا وقار اس کے قدموں میں آ گرا تھا۔ایک چمکتے چہرے والے آسودہ حال عرب نے احترام سے سر جھکائے فورا آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے وہیل چئیر لے کر کھولی اور اس انجان پاکستانی نے بے پرواہ چہرے سے اپنی ناتواں ماں کو بہت نرمی سے اس چلتی کرسی پر بٹھا دیا اور ایسا کرتے اپنے اس عمل کی عظمت سے اس کی بے نیازی اسکے چہرے سے بے تحاشا عریاں تھی،وہ بے خبر تھا کہ طواف سے پہلے ہی نجانے کتنی رحمتیں اس کے اکاؤنٹ میں جمع ہو چکی ہیں۔یہ وہ لمحہ تھا کہ جانے کتنے فرشتے آس پاس سانس روکے بیٹے کی یہ محبت تکتے ہونگے،اور کتنے ہی نادیدہ لال قالین اس ماں اور بیٹے کے قدموں تلے بچھائے گئے ہوں گے کہ جس نے ماں کی اس قدر خدمت کر ڈالی اس کا مقام رب کے ہاں جانے کیا ہو گا۔

تو یہ وہ نظارہ تھا کہ اگر اسے ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پر پھیلا دیا جاتا تو یہ وقت، یہ لوگ، یہ لمحہ ضرور اس قابل تھا کہ اسے دنیا کی اس نکڑ سے اُس نکڑ تک پھیلا دیا جاتا۔۔مگرعرب امارات کی تربیت نے کہ جہاں کسی کی وڈیو یا تصویر بنانا اک ناقابل معافی جرم ہے مجھے سختی سے جکڑے رکھا اور میں صرف اس لئے دلیل کو لے کر یہ کام نہ کر سکی کہ یہ غریب پاکستانی کہاں ان سخت قوانین سے واقف ہوں گے،پر سچ تو یہ ہے کہ اس وقت اس مقام پر شاید اس سے بڑھ کر امیر کوئی نہ تھا،وہ بیٹا جو اپنی سفارش کے لئے ماں کو اپنے کاندھوں پر اٹھا کے لایا تھا جبکہ اس کے اپنے کاندھے بھی بہت مضبوط نہ تھے۔۔۔آج بھی اس وقت کو سوچتے نظریں جھک جاتی ہیں اور دل کو یہ غم لاحق ہوتا ہے کہ کاش وہ اک لمحہ،،صرف وہ ایک لمحہ میرے موبائل میں ہوتا اور کاش فیس بک کے پاکستانی دیوانوں کے سامنے وہ ایک نظارہ رکھا جاتا تو وہ ہزاروں قسم کی دعاؤں سے بہتر تھا۔

یہ نظارہ چند گھڑیوں میں نظروں سے اوجھل ہو گیا جب ماں اور بیٹا شان بے نیازی سے چلتی کرسی لئے طواف کی سمت چل دیے ۔ اور ساتھ ہی ہم سے بہت سے لوگ سبحان اللہ اور جزاک اللہ کی تسبیح کرتے انکے پیچھے پیچھے چل دیے۔تو وہاں طواف میں بہت سے لوگ کھجوریں اور آب زم زم لے کر کھڑے تھے تا کہ پیاسے طواف کرنے والے دو گھونٹ پئیں اور اک جزاک اللہ کا لفظ ان کے حق میں کہیں اور یہ ایک پاکستانی صرف ماں کو کاندھے پر بٹھا کر آس پاس کے پورے ماحول سے دعاؤں کے انبار سمیٹ گیا تھا۔

جاری ہے
*********

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں