The news is by your side.

پاکستان قلتِ آب کے دہانے پر، کسی کو تو پہل کرنی تھی

شکریہ چیف جسٹس !دیکھئے کسی کو تو کرنا ہے کوئی تو پہل کرے گا۔۔۔۔ہم اپنی آئندہ نسلوں کو پانی کی قلت کا شکار نہیں ہونے دے سکتے ، آپ جانتے ہیں! کہ آئندہ چند سالوں میں کوئٹہ کا کیا حال ہو گا ،وہ قحط سالی کا شکار ہو جائے گایہ بنیادی انسانی حقوق ہیں ،ہم نے شروعات کی ہے اور انشاللہ یہ پوری قوم اس کو مل کر مکمل کرے گی۔ لہجے میں درد تھا لیکن اس میں اتنا ہی زیاد ہ عزم نمایاں تھا ۔ وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بول رہے تھے ۔سمیع آپ جانتے ہیں کوئٹہ آئندہ سالوں میں قحط سالی کا شکار ہو جائے گا وہ ذرا جذباتی ہوئے اور بولے نہیں ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے ہم اپنی نسلوں کو محفوظ کریں گے۔

یقینا عام پاکستانیوں کے لئے وہ انتظامی غلطیوں پر سخت باز پرس کرنے والے ایک معز زجج ہیں ۔جنھوں پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کو گھر بھیجا ـ لیکن پاکستان کا یہی طاقتور ترین اور بے پناہ اختیارات رکھنے والا چیف جسٹس اپنی قوم سے چندہ مانگ رہا ہے اور اس میں خود بھی اپنا حصہ ڈال رہا ہے تاکہ کل پاکستان قحط سے بچ سکے۔یاد رہے کہ پاکستان پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسوریسز خبردار کر چکی ہے کہ ملک کو پانی کی قلت کا سامنا ہے اور اگر صورت حال کو بہتر کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو سنہ دو ہزار پچیس تک قحط جیسی صورت حال یا پانی کی شدید قلت پیدا ہو سکتی ہے۔وہ پاکستانی قوم کے آبی وسائل کو بچانے کے لئےبہت سنجیدہ ہیں اور اتنے پر عزم ہیں کہ اس سلسلے میں ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔

اس ملاقات سے قبل میں ہمیشہ کہتا تھا کہ کہتا تھا کہ ڈیم چندوں پر نہیں بنتا۔مگر میرے آفس کے بیورو چیف ایس ایم شکیل کا بھائی کا ماننا ہے کہ انسان عزم کرلے اور وہ ہمت والا ہو تو وہ سب کر سکتا ہے ۔ہمارے چیف جسٹس میں بھی حوصلہ ہے اور کام کروانا بھی جانتے ہیں اور کندھوں پر دو انگلیاں رکھ کر بولتے ہیں کہ کندھے بھی مضبوط ہیں ۔مجھے ہمیشہ خوش فہمی لگتی تھی لیکن ان کی بات سچ ثابت ہوئی یہ حیران کن ہی تھا اور غیر معمولی بھی کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اے آر وائی کی ڈیم کے لیے کی جانے والی ٹیلی تھون میں پاکستانیوں کےجذبات بڑھانے اور انھیں اس کام میں مزید مائل کرنے کے لئے آڈیو بیپر بھی دیا ورنہ ماضی میں ایسی کوئی روایت تو نہیں تھی ۔ان کے یہ جذبات بھی میں نے اسی سلسلے میں کی گئی ایک ملاقات میں مشاہدہ کئے۔

یہ تحریر اس لئے بھی کہ بطور کورٹ رپورٹر میں ان کے بہت سے انتظامی فیصلوں پر تنقیدی رائے دیتا رہا ہوں ۔چیف جسٹس سے ہوئی ملاقات کا مقصد چیف جسٹس تک وہ جذبات پہنچانے تھے جو احساسات میرے دفتر کے قریبی ساتھیوں کے تھے ۔چیف جسٹس صاحب نے ڈیم سے متعلق اے آر وائی نیوز پر اپنا قیمتی وقت نکال کر گفتگو کی جو یقینا ہماری ٹیم کے لئے ایک خوش آئند ہے کیوں کہ ہم اپنے ادارے کے پلیٹ فارم پر ڈیم کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ دوران گفتگو چیف جسٹس آف پاکستان نے اے آر وائی نیوز کی کاوش کو سرا ہا بھی اور ڈیمز کی اہمیت سے متعلق بھی بات ہوئی ۔

چیف جسٹس کہتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم متنازعہ ہے توہم ان ڈیموں کو جن ڈیموں پر اتفاق رائے ہے ان کو ہی بنا لیتے اور معزز جج نے اس حوالے سے اقدام بھی اٹھا یا اور وہ اس کے لئے ہر ممکن حد تک جارہے ہیں ۔ چیف جسٹس پاکستان اس کی فنڈنگ کے حوالے سے بھی بہت سنجیدہ ہیں اور اس حوالے سے وہ اوور سیز پاکستانیوں کی اہمیت کو بھی جانتے ہیں۔ ان کو یقیناً اس حوالے سے لوگ مشورہ دے رہے ہوں گے کہ وہ وہاں خود جائیں اورذاتی طور پر میں بھی یہ سمجھتا ہوں کہ اوور سیز پاکستانی پاکستان کے لئے تن من دھن لگانے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور اب موجودہ سپریم کورٹ نے تو ان کو ووٹ کا حق بھی دیا ہے ایسے میں ان کا وطن سے لگاؤ اور بڑھ گیا ہو گا اور بطور پاکستانی وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ اگر کسی چیز کی نگراں ہے تو وہ گھٹالا ہو جائے اس کی گنجائش بہت کم ہے ۔

دوران ِگفتگو چیف صاحب نے تین دفعہ اس بات پر زور بھی دیا کہ سپریم کورٹ اس کی نگراں ہو گی ۔میری دعا ہے کہ چیف جسٹس کی موجودگی میں ڈیم کی تعمیر شروع ہوجائے لیکن اس کے بعد واٹر کمیشن کی طرز پر ایک ریٹائر جج کو اس کا نگراں بنایا جائے تاکہ عدالت عظمی کا کردار اس میں شامل رہے اور کتنا اچھا ہو کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو ہی ریٹائر منٹ کے بعد اس کا نگراں بنایا دیا جائے کیوں پاکستان میں ڈیموں کی اشد ضرورت ہے۔ دنیا میں چوتھے نمبر پر سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ہمارے ملک کے بارے میں آئی ایم ایف، یو این ڈی پی اور دیگر اداروں کی رپورٹس میں خبردار کیا جاچکا ہے کہ بڑھتا پانی کا بحران حل نہیں ہوا تو 2040 تک پاکستان خطے کا سب سے کم پانی والا ملک بن سکتا ہے۔

ارسا کی اراکین سینٹ کو دی جانے والی بریفنگ کے مطابق بھی پاکستان میں بارشوں سے ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فِٹ پانی آتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے صرف 13.7 ملین ایکڑ فِٹ پانی بچایا جا سکتا ہے۔ پانی کے ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 21 ارب روپے مالیت کا پانی ضائع ہو جاتا ہے اور جتنا پانی سمندر میں جاتا ہے اسے بچانے کے لیے منگلا ڈیم کے حجم جتنے تین اور ڈیم کی ضرورت ہوگی۔لہذا ضروری ہے کہ جلد از جلد پاکستان میں وہ ڈیمز بنا لئے جائیں جن پر اتفاق رائے وجود ہے۔سامنے ایک ادارے کا سربراہ ہو اور سامنے صحافی ہوں تو وہ ادھر ادھر کی باتیں بھی نکال ہی لیتے ہیں۔تاہم ملاقات ڈیم مہم واسطے تھی اور یقینی طور پر راز ہی رہنا چاہئیے کیوں کہ وہ صحافی کیا جوآف دا ریکارڈکو ریکارڈ پر لے آئے۔

پاکستان ایک آبی بحران کا شکار ہے بحیثیت پاکستانی ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم سب مل کر پانی کے ذخائر کو بچانے کے لئے ڈیم بنانے کی اس کاوش میں سپریم کورٹ اور چیف جسٹس آف پاکستان کا ساتھ دیں اور وہ افراد جو کہ ان کے انتظامی معاملات یا اپنی سیاسی سوچ کے باعث ان کے لئے یہ ممکن نہیں، وہ یہ سوچیں کہ یہ نہیں دیکھو کون بول رہا ہے یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے۔

 

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں