سانحہ بارہ مئی کے گیارہ سال گزرنے کے بعد بعد متاثرین کو ایک بار پھر اس بات کی امید ہوئی ہےکہ شاید ریاست انھیں انصاف دینے میں کامیاب ہو جائے۔سندھ ہائی کور ٹ کے دو رکنی بینچ نے درخواست گزار اقبال کاظمی کی درخواست پر اس بات کا حکم دیا ہے کہ سندھ حکومت سانحہ بارہ مئی پر جے آئی ٹی اور عدالتی ٹریبونل تشکیل دے اور اس ضمن میں فوری طور پر سندھ حکومت چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے ٹریبونل کے لئے رجوع کرے اور تحقیقات سے متعلق پیش رفت رپورٹ ہر دو ہفتوں بعدعدالتی ٹریبونل کے روبرو جمع کرائی جائے ۔
سندھ ہائیکورٹ کے دورکنی بینچ کے معزز ججز جسٹس اقبال کلہوڑو،جسٹس کے کے آغا نے درخواست پر فیصلہ سنایا ، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کیس کا شروع سے آخر تک جائزہ لیا جائے۔سانحہ بارہ مئی کے ماسٹر مائنڈ زکا تعین کیا جائے اور ماضی میں ہونے ٹرائل کورٹ سے پیش رفت رپورٹ بھی حاصل کی جائے۔ ٹریبونل امن و امان خراب کرنےوالوں کے ذمہ داران کا تعین کرے گا اور اس بات کا بھی تعین کرے گا کہ اس دن کس کے حکم پر راستے بند کیے گئے اورپولیس نے کنٹینرز اور واٹر ٹینکروں سے بند راستے کھولنے کے لیے کیا اقدامات کیے تھے؟
ٹریبونل اور جے آئی ٹی اس بات کا جواب بھی حاصل کریں گے کہ کیا چیف جسٹس پاکستان کو تقریب میں شرکت سے روکنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومت کا گٹھ جوڑ تھا؟ جے آئی ٹی کو اس بات کی تفتیش بھی کرنا ہو گی کہ 12 مئی 2007 کو ملیر، سٹی کورٹ اور ہائیکورٹ کو مشتعل ہجوم نے کیوں اور کس کے حکم یرغمال بنایا؟اور اس موقعے پر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے شرپسندوں پر قابو پانے میں کیوں ناکام رہے؟ ۔
اس سوال کا جواب بھی حاصل کیا جائے گا کہ 12 مئی اور اس سے پہلے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین رابطوں کی تفصیلات کیا تھیں اور12 مئی کو ممکنہ صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے حکام کی جانب سے کیا احکامات دیے گئے؟ یہ ٹریبونل قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کا بھی تعین کیا جائے اور میڈیا نمائندوں ، سیاسی کارکنوں ،وکلاء پر تشد اورایک نجی ٹی وی کے دفتر پر شرپسندوں کی مسلسل فائرنگ کو کیوں نا روکا گیا؟ اس وقت کے چیف جسٹس کی کراچی آمد کے لیے فول پروف سیکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے؟اور کیا چیف جسٹس کا استقبال کرنے والوں کو کسی خاص سیاسی جماعت نے نشانہ بنایا؟ اگر کسی خاص سیاسی جماعت کے کارکنوں نے نشانہ بنایا تو اس جماعت اور ذمہ دران کا تعین کیا جائے لیکن بات یہیں تک محدود نہیں اس بات کا جواب بھی حاصل کی جائے گا کیا سندھ حکومت نے 12 مئی 2007 کو پولیس کی مدد کے لیے رینجرز کی بھی مدد لی تھی؟۔
اس درخواست کی سماعت کے دوران دلچسپ بات یہ تھی کہ پاکستان پیپلززپارٹی کی صوبائی حکومت اس کیس کو چلانے میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی تھی اور سندھ حکومت کی جانب سے کمیشن بنانے کی مخالفت بھی کی گئی، وکیل سرکاری کا کہنا تھا کہ 2018 میں ہائی کورٹ کی لارجر بینچ اس کیس کو ناقابل سماعت قرار دی چکی ہے،11 سال کا عرصہ گزر چکا ہے اس میں مزید تحقیقات کی ضرورت نہیں ۔اس وقت کی لارجز بینچ نے متاثرین کو معاوضہ کی ادائیگی کا حکم دیا تھااور اس حکم پر تمام متاثرین کو معاوضہ کی ادائیگی بھی کی جاچکی ہے۔
بارہ مئی کو کیا ہوا تھا؟
بارہ مئی 2007 کو کراچی میں خون کی ہولی کھیلی گئی تھی ۔ وکلا برادری اور سیاسی جماعتیں معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کے استقبال کے لیے ائیرپورٹ جانے کے خواہش مند تھے۔مگر اس وقت کی حکومت وقت اور اس کی حلیف جماعتیں مخالف تھیں، لہٰذا طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔اس دن کو رپورٹ کرنے والے تمام ہی اخبارا ت اور ٹیلی ویژن چینلز اور سیاسی کارکن و میڈیا ورکرز کا ماننا ہے کہ اس دن کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے زیادہ دہشت گرد فعال تھے۔ چیف جسٹس کو کراچی ائیر پورٹ پر روک دیا گیا تھا،مختلف مقامات پر فائرنگ اور ہنگامہ آرائی کے واقعات میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے،اس وقت کے چیف جسٹس کو سندھ ہائی کورٹ بار کی تقریب میں پہنچنا تھا تاہم امن و امان کی مخدوش صورتحال کے باعث وہ وہاں نہ پہنچ سکے۔ وکلا ءتنظیمیں،سیاسی جماعتیں اس قتل و غارت گری کا الزام سابق صدر پرویز مشرف اور ایم کیو ایم پر عائد کرتیں ہیں۔
اقبال کاظمی
پیشے کے اعتبار سے اپنے اآپ کو وکیل او ر سماجی کارکن کہنے والے اقبال کاظمی ماضی میں بھی دہشت گردی کے واقعات کے خلاف سندھ ہائی کورٹ و ضلعی عدالتوں میں درخواستیں دائر کر چکے ہیں ۔وہ متحدہ ایم کیو ایم کےدور میں مہاجر قومی موومنٹ کے رہنما آفاق احمد کے بھی قریب رہے تاہم ا ن کی رہائی کے بعد آفاق احمد کے قریبی ساتھیوں کی جانب سے انھیں مشکوک قرار دئیے جانے کے مشوروں کے بعد ان کو آفاق احمد سے دوری اختیار کرنا پڑی ۔
اقبال کاظمی کا کہنا ہے کہ انھیں ان درخواستوں کے باعث کئی بار مالی نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑھا اور متعداد بار ان کو اغوا کرنے کی کوشش بھی کی گئی اور اسی وجہ سے وہ شہر بھی چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ انھوں نے اپنی درخواست میں سابق صدر پرویز مشرف ، بانی ایم کیو ایم، سابق مشیر داخلہ اور میئر کراچی وسیم اختر کو بھی فریق بنایا گیا ہے،درخواست میں یہ بھی موقف اپنا یا گیا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے حکم پر ایم کیو ایم نے کراچی میں قتل عام کیا تھا۔