The news is by your side.

ایک بد کردار شخص جس نے مردہ عورتوں کوبھی نہ بخشا

سال 2011 کی ایک سرد رات تھی جب پولیس وائرلیس پر خبر چلی کہ ایک شخص کو موقعِ واردات سےفرار ہوتے ہوئے گرفتارکیا گیا ہے۔ اسےنارتھ ناظم آباد پولیس کی اسنیپ چیکنگ پارٹی نے پکڑا تھا۔معلوم ہوا کہ وہ عورتوں کی تازہ میتوں سے زناکرتا ہے اور پاپوش نگر کے قبرستان میں‌ اسی غرض سے آج ایک خاتون کی قبر کھودی تھی ۔ پولیس وائرلیس پر خبر چل جائے تو صحافیوں سے کیسے بچ سکتی ہے۔ اس کیس میں بھی ایسا ہی ہوا۔

یہ الیکڑونک میڈیا کے عروج کا دور تھا۔ کراچی میں حالات خراب رہتے تھے اور بدامنی کی خبریں عام تھیں، لیکن ان تمام خبروں میں یہ ایک دل دہلا دینے والی خبر تھی۔ مجھے یاد ہے ان دنوں میں کٹی پہاڑی پر ذمہ داریاں انجام دے رہا تھا جہاں ایم کیو ایم (الطاف گروپ) اور اے این پی کے کارکن اکثر ایک دوسرے الجھتے رہتے تھے۔ گو کہ میں کورٹ رپورٹر تھا، لیکن کیوں کہ الیکٹرونک میڈیا میں نیا تھا، اس لیے ‘رگڑا’ یا اضافی کام بھی ضروری تھا۔ دفتر سے مجھے جو اضافی کام تفویض کیا گیا تھا، وہ کرائم رپورٹنگ تھی۔ خیر اس وقت واٹس ایپ گروپس اس قدر فعال نہیں ہوتے تھے۔ ایک میسج میں کچھ ٹوٹی پھوٹی خبر آئی تو میں نے فوراً نارتھ ناظم آباد میں ایک سورس کو فون کیا، میں اس سے تفصیلات سن رہا تھا اور مجھے اپنی ریڑھ کی ہڈی ایک سرد لہر اترتی محسوس ہورہی تھی۔

واقعہ کچھ یوں تھا کہ پاپوش کے قبرستان میں گورکن کو عورتوں کی میتیں قبر سے باہر مل رہی تھیں یا بعض قبروں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے انھیں کھودا ہے۔ ایک دو سال نہیں، اس کے مطابق سات آٹھ سال سے یہ سلسلہ جاری تھا اور کبھی اس کا شک جادو ٹونے اور عملیات کرنے والوں پر جاتا تو کبھی مردوں‌ کی ہڈیاں نکال کر فروخت کرنے والوں پر۔ مگر جب وہ ایسے کسی مردے کو دیکھتا تو محسوس ہوتا کہ اس حوالے سے جو کچھ وہ سوچ رہا ہے، درست نہیں‌ ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہا اور نہ ایسا کوئی واقعہ رپورٹ ہوا، نہ ہی اس کے ذمہ دار کبھی قانون کے شکنجے میں آئے، لیکن پھر ایک گناہ گار قانون کی گرفت میں آگیا اور یوں‌ یہ معاملہ کھلا۔

ایک دن گورکن عبد الواحد بلوچ کو کسی تازہ قبر کے قریب کچھ شور اور گڑبڑ کا احساس ہوا۔ اس قبر میں‌ ایک عورت کی تدفین کی گئی تھی۔ وہ فوراً اس قبر کی طرف بڑھا جہاں ایک آدمی گورکن کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اٹھا اور بھاگنے لگا اور اس پر گورکن عبد الواحد بلوچ اور اس کا ساتھی طفیل اسے پکڑنے کے لیے پیچھے بھاگے۔ قبرستان کے باہر روڈ پر نارتھ ناظم آباد تھانے کی موبائل اسنیپ چیکنگ پر تھی۔ اہلکاروں نے اچانک شور سنا اور اسی دوران بدحواسی کے عالم میں‌ ایک شخص کو قبرستان سے باہر نکلتا ہوا دیکھا تو اسے خبردار کیا اور فوراً ہاتھ اوپر اٹھانے کا حکم دیا۔ اس مشکوک آدمی کے پاس کوئی راستہ نہ تھا۔ اسے رکنا پڑا۔

ابتدائی سوالات میں‌ پولیس کو معلوم ہوا کہ اس کا نام محمد ریاض ہے اور ملزم کے مطابق وہ یہاں سے گزر رہا تھا کہ یہ لوگ (گورکن) اس کے پیچھے لگ گئے، لیکن جب پولیس نے سختی سے پوچھا تو اس نے سب اگل دیا۔ وہ تازہ قبر دیکھی گئی تو ثابت ہوگیا کہ محمد ریاض ایک ایسا بدخصلت شخص ہے جو مردہ عورتوں‌ سے اپنی شہوانی خواہشات کی تکمیل کرتا ہے اور رات کے وقت تازہ قبر کو کھود کر یہ شیطانی فعل انجام دیتا ہے۔

پولیس نے جب ملزم کی تلاشی لی تو اس سے آدھا کلو چرس بھی برآمد ہوئی اور اس کے کپڑوں پر اس کی نجاست بھی تازہ تھی۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح شہر میں پھیل گئی۔ تمام نجی چینلوں کے نمائندے اور اینکر پرسن تھانے پہنچ گئے جہاں انھوں نے ملزم سے بھی بات کی۔ اے آر وائی نیوز سمیت دیگر چینل پر ملزم کا انٹرویو بھی آن ایئر ہوا جس میں اس نے اپنے گھناؤںے فعل کی تفصیل بتائی اور اعترافِ جرم کیا۔ ملزم نے تفتیشی افسر کو اور خود میڈیا کو اپنے اعترافی بیان میں بتایا کہ وہ قبرستان کے قریب ہی گھومتا پھرتا رہتا ہے اور جب معلوم ہوتا ہے کہ کسی عورت کی تدفین کی گئی ہے تو اندھیرا چھانے کا انتظار کرتا ہے اور پھر یہ مکروہ فعل انجام دینے کے لیے اس کی قبر پر پہنچ جاتا ہے۔ تفیشی افسر اور میڈیا چینلوں کے نمائندوں کے استفسار پر اس نے بتایا کہ یہ جاننا مشکل نہیں‌ ہوتا کہ میّت کسی عورت کی ہے کیوں کہ خواتین کی تدفین کا طریقۂ کار کچھ مختلف ہوتا ہے، اس کے ورثا تدفین کے وقت قبر پر بڑی سی چادر پھیلا دیتے ہیں‌ اور رات ہو جانے کے بعد میں تازہ قبر کو کھود دیتا تھا۔

تفتیشی افسر کے مطابق ملزم نے قبر کی نشان دہی کرتے ہوئے بتایا کہ 29 نومبر 2011 کو جب وہ ایک قبر میں گھس کر مکروہ فعل انجام دے رہا تو اسے قریب سے باتوں کی آواز آنے لگی، وہ گھبرا گیا اور لمحوں میں‌ قبر سےباہر نکلنے کا فیصلہ کیا، اس بدصفت نے بتایا کہ وہ شلوار اتار کر اپنی شہوانی خواہش کی تکمیل کررہا تھا، تو آوازیں‌ سن کر عجلت میں‌ کفن کے ایک ٹکڑے سے اپنی نجاست صاف کی اور آدھا کلو چرس جسے وہ رات کے وقت قبرستان میں فروخت کرتا تھا، اپنے نیفے میں‌ چھپائی اور شلوار باندھ کر قبر سے نکل کر بھاگا، لیکن گورکن کی وجہ سے پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا۔ ملزم کو پاپوش نگر کے قبرستان کی دیوار کے قریب پکڑا گیا تھا۔ تفتیشی افسر کے مطابق ملزم سے چرس برآمد کی گئی اور قبر کی مٹی کے علاوہ اس کے کپڑوں پر اسپرم بھی تازہ تھے، جن کا نمونہ اور قبر سے کفن کے چند ٹکڑے بھی لے لیے گئے تاکہ جرم ثابت کیا جاسکے۔

ملزم کی جانب سے ابتدائی تفتیش میں‌ معاونت اور اس کے اعترافی بیان کے بعد اکثریت کا خیال تھا کہ ملزم عدالت میں‌ بھی آسانی سے اپنا جرم قبول کرلے گا اور میڈیا ہائپ اور اس قدر شور کے بعد مکر جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں‌ ہوتا، لیکن ہر شاطر اور بے ضمیر کی طرح اس کیس میں بھی ملزم نے پینترا بدلا اور پہلے یہ کیس پاکستان کے قانونی نظام میں‌ موجود سقم کی وجہ سے التوا کا شکار رہا اور بعد ازاں ملزم نے اوپن کورٹ میں جرم قبول کرنے سے انکار کردیا۔ مگر جب گواہوں کے بیانات ہوں یا کیمیکل تجزیاتی رپورٹیں سب ملزم کے خلاف آئیں اور اس کیس کے سب سے اہم گواہ اور عینی شاہد گورکن عبدالواحد بلوچ نے بھی عدالت میں اس ملزم کے خلاف بیان دیا تو ایڈیشنل سیشن جج ذبیحہ خٹک نے اپنی آبزوریشن دی کہ ملزم کا جرم انتہائی سنگین نوعیت کا ہے اور چوں‌ کہ ملزم خوفِ خدا سے بھی عاری ہے تو وہ کسی رعایت کا مستحق نہیں، ملزم کو سخت سزا ملنی چاہیے تاکہ وہ دوسروں کے لیے مثال بنے۔ عدالت نے جرم ثابت ہونے پر محمد ریاض کو مجرم قرار دیتے ہوئے دو مرتبہ عمر قید اور پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

پاکستان میں جنسی زیادتیوں کے واقعات میں اضافے کو دیکھتے ہوئے 2006 میں ایک ترمیم کی گئی جس کے تحت جرم ثابت ہونے پر سزائے موت اور کم از کم 25 سال قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ اس ضمن میں کسی کی تدفین میں مداخلت اور لاش کی بے حرمتی پر 295 کی دفعہ اور اس کے تحت ملزم کو جرمانہ یا ایک سال قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ عدالتی ریمارکس تو کسی بھی کیس کی حساسیت کو اجاگر کرتے ہی ہیں لیکن سنگین مقدمات میں سزائیں معاشرے کے بد کردار اور بے حس لوگوں کی حوصلہ شکنی بھی کرتی ہیں اور محمد ریاض‌ کے کیس میں‌ بھی فاضل جج کی جانب سے سنائی گئی سزا بہت سے بد کردار لوگوں کے لیے ایک سبق ثابت ہوئی گی۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں