انسیت کا جھوٹ بول رہا ہے ویسے ہی کل تو اس سے بات بھی کرے گا ۔۔۔۔عاشق کہیں کا۔
بھلا عشق بھی کبھی مذہب و روایت کا پابندہوا ہے۔۔
اسلام آباد کی فضا میں خنکی تھی گاڑی کے شیشے سانسوں کی گرمی سے دھندلا گئے تھے ان ہی دھندلے شیشوں میں اس نے ایک بار زرتاج لکھا اور فورا شیشہ اپنے ہاتھ سے صاف کر دیا ۔میں نظر انداز کر گیا کیوں کہ مجھ سے بہتر اس کا کرب کوئی جان ہی نہیں سکتا تھا بھلا سایہ بھی اپنے غم کو نظر انداز کرسکتا ہے۔
پہلی اورآخری محبت – اگرآپ نے پہلا حصہ نہیں پڑھا تو یہاں کلک کریں
ہم اسلام آباد کے چھوٹے سے ائیر پورٹ میں داخل ہو ئے ۔گاڑی رک گئی لیکن وہ ہوش میں ہوتا تو پتا ہوتا اسے۔۔۔محبوب کی شادی کے اگلے دن ہی دوست کی بھاگ کر شادی کا سہولت کار بننے والا یہ کام میرا سیکٹر انچارج ہی کر سکتا تھا وہ دوستی نبھاتا تھا اور یہ اس کا فخر تھا۔
سیکٹر انچارج بچے ائیر پورٹ آگیا ہے اٹھ جا ۔۔۔او ہاں ۔۔ائیر پورٹ میں اندر جانے سے پہلے خضر اس سے گلے ملا ۔شکریہ ادا کیا کہ اس نےاس کے سرکاری افسر باپ اورفرخندہ کے پولیس اہلکار باپ کے نرغے سے نکال کر شادی جو کرائی تھی۔
اگلی نشست پر بیٹھی فرخندہ تاحال یہ نہیں جانتی اس کو خضر جو ملا ہے اس میں خضر کم‘ نجیب کی کامیابی زیادہ ہے کیوں کہ اگر اس نے ایف آئی آر کٹوانے پر آمادہ اس کے باپ اور بھائی کو تھانے کے اندر جاکر دھمکی نہ دی ہوتی تو آج خضرجیل میں ہوتا اور اس کا تو معلوم نہیں تھا کہ اس کے باپ نے کیا حال کرنا تھا۔ لیکن قصائی کزن سے شادی ضرور کر دینی تھی۔
یار تو رکتا نا! کراچی میں کون تھوڑا انتظار کر رہا ہے ۔۔۔تیرے گھر میں سب مصروف ہی رہتے ہیں۔
وہ مسکرایا۔
خضر مسکرایا بغل گیر ہوا۔۔۔بولا پنجابی خیال رکھنااس جوتشی کا ہم کل دبئی روانہ ہو رہے ہیں۔
ہم کاغذی کارروائی سے فارغ ہو کر طیارے میں بیٹھے تو میں ایک بار پھر اپنے وجود کو دیکھنے لگا۔
طیارہ اڑان بھرنے کے لئے تیار تھا میں اس کو دیکھ رہا تھا وہ بالکل دیوانہ لگ رہا خاموش اپنے موبائل میں مصروف لیکن اس چہرے پر کچھ چمک تھی۔ مجحے کچھ حیرت ہوئی کیا محبت خوف بھی ختم کر دیتی ہے کیوں کہ میں جب بھی اس کے ساتھ سفر گیا وہ ذہنی خوف کو رفع کرنے کے لیے ٹیک آف پر ضرور باتیں کرتا تھا لیکن آج اس کو لگتا ہے کوئی خوف نہیں تھا۔
کراچی اترتے ہی گرمی کا احساس بڑھ گیا۔ گاڑی میں بیٹحتے ہوئے وہ بولا میں آفس جاؤں گا۔کیا دیوانہ ہوا ہے دو دن سے سویا نہیں کھانا تو نے صیح نہیں کھایا آفس کیا کرے گا ۔۔۔وہ ہنسا بولا مصروف ہونے کے لئے اچھا ہے ابےہفتہ ہے آج تیرا کام ویسے ہی کم ہوتا ہے۔۔۔بات مان لے ۔۔سب کی مان لیتا ہے نا۔
اچھا چلو پھر بعد میں نہیں بولنا تیری نہیں مانتا۔
گھر پر پہنچا پر میرے پروگرام کے مطابق زوہیب اکرم اور دیگر دوست پہلے سے کھانا لے کر پہنچے ہوئے تھے، زوہیب اکرم نے اس کو دیکھتے ہی جگتیں شروع کردیں وہ مسکراتا رہا لیکن میں ڈر رہاتھا کہیں سالا ہنستے ہنستے رو نہ جائے۔۔۔شاید میں نے زندگی میں اپنے آپ کو اتنا بد قسمت نہ سوچا ۔۔میرا دوست جس کا میں سایہ تھا۔۔جو کبھی مجھے اداس نہیں ہونے دیتاتھا اب اس کا یہ حال ہو گا اور میں کچھ نہ کر سکوں گا۔ وہ زوہیب اور دیگر دوستوں کی کہانیاں سنتے رہا اور مسکراتا رہا اور ایک ایک کر کے ایک کے بعد دوسرا ڈبہ ختم کرنے لگا۔
ایک ایک کر کے دوست جانے لگے جیسے ہماری زندگی میں افراد آتے ہیں اور اپنا کردار ادا کرکے چلے جاتے ہیں اب کمرے میں وہ اور اس کا پنجابی سایہ ہی بچاتھا۔ میں اس کے قریب جا کر بولا ایک بات بتاؤ تم مجھ سے کیا چھپا رہے ہو۔ تمھاری پیشانی پر اس کٹ کے نیچے بننے والی لکیر سب بتا رہی ہے ۔۔کچھ نہیں کچھ نہیں۔۔۔لیکن میں جانتا تھا وہ مجھ سے کچھ نہیں چھپا سکتا ۔۔کمرے میں خاموشی چھا گئی اس قدر کہ میں اب کی تیز ہوتی سانسیں اور خاموش اے سی کی آواز بھی محسوس کرنے لگا۔ وہ دھیمی آوازمیں بولا۔اس نے تصاویر بھیجی ہیں۔۔اچھی ہیں
اور بتا اصل بات بتا۔ میراغصہ آسمان چھونے لگا۔
وہ کہہ رہی تھی کہ ۔۔۔۔وہ کہہ رہی تھی ۔۔۔سمجھو۔۔ اس میں بھی میری غلطی ہے اور اس کا افسوس رہے گا۔
یار وہ لڑکی تھی۔ میں ہی نہیں سمجھا۔ اس نے مجحے کچھ نہیں بتایا۔ بس یارمیرا دل اس کو قصور وار نہیں مان رہا۔ وہ ٹوٹے الفاظ میں بولا
اور کیا کہا اس نے۔
کچھ نہیں ؟ بک اوئے دیوانے اپنا حال دیکھ چہرہ تیرا خراب ہو گیا، آنکھیں جاگ جا گ کراندر چلی گئیں،صحت دو دنوں میں اتنی گر گئی اور وہ سار ی ذمہ داری تجھ پر ڈال رہی ہے ۔
ابے ،،،،،،،کاسٹ کی تو نہیں ہے۔
وہ بولا۔۔۔نہیں پتا ۔۔۔۔ اور سن میں کوئی عاشق نہیں بس انسیت تھی۔
اچھاتجھے انسیت ہے۔۔۔اچھاسن تجھے اس سے انسیت ہے کہ محبت اب تو اس سے بات نہیں کرے گا۔
کیوں میں کیوں نہیں کروں گا اور میں نے تو اب بھی بات نہیں کی تھی اس نے رابطہ کیاتھا۔
سمجھا کراس کی شادی ہو گئی ہے، اب یہ مناسب نہیں ہے اور بس تو ان پیچیدگیوں کو نہیں سمجھتا۔
ایک بات بولوں
ہاں بول
یار جب میں اس کا پیغام موبائل کی اسکرین پر آیا لگا جیسے میرے دل کو کسی نے تھام لیا اورایک پین کلر انجکشن کی طرح جب تک بات جاری رہی اپنی دھڑکن مناسب رہی۔ سگریٹ کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔سمجھا کریار۔ یہ پابندی برداشت نہیں ہو گی۔ سن عشق کی یہی مجبوری ہے دوست۔ ہروقت قربانی مانگتا درخت ہے جو دھوپ میں جلتاہے ہر تکلیف سہہ کر بھی اپنے نیچے بیٹھنے والے کو چھاؤں فراہم کرتا ہے۔اورلگتا ہے جب محبت کی بات آتی ہے ناتو زات پات، رنگ نسل زبان، مذہب سمیت سارے مسائل ہی آکھٹرے ہوتے ہیں۔
اور ہمیں اورہمارے معاشرے کو بھی بھائی سے الرجی ہے محبت سے بھلا اس تنگ نظر معاشرےمیں محبت کا کیا کام ہے۔کل معاشرہ تم کو قبول کر لےگا مگر کوئی اونچ نیچ ہوگئی نا تو اسے قبول نہیں کرے گا۔ گالی بن جائے گی ۔ اور نہ وہ اتنی بہادر اور نہ تم کہ دنیا سے لڑجاؤ تو بھائی نہ بات کو سمجھا کر۔
ایک بڑے وقفے کے بعد اس نے سگریٹ سلگائی اور ایک لمبا کش کھینچ کر اپنے آپ کو نکوٹین کی ٹکور دیتے ہوئے بولا یار اس سے انسیت ایسی ہے کہ بھلا تو نہیں سکتا لیکن ڈرامے بازی ایسی کروں گا جیسے اس کی اہمیت ہی نہیں میرے لیے۔صحیح ہے انسیت ہے پر ایسی بھی۔
اس کی اپنے آپ کو دینے والی تسلی پر میں ہنستے ہوئے بولا‘ واہ میرے دوست! اور ساتھ ہی دل میں کہا جھوٹے آدمی جیسے تو انسیت کا جھوٹ بول رہا ہے ویسے ہی کل تو اس سے بات بھی کرے گا ۔عاشق کہیں کا! بھلا عشق بھی کبھی مذہب و روایت کا پابندہوا ہے۔